Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے آدم کی اولاد ! بیشک ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا جو تمہاری شرم کی جگہوں کو چھپاتا ہے اور وہ سبب زینت ہے اور تقوی کا لباس یہ بہتر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں
بنی آدم کے لباس کے فائدے (1) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم “ کے بارے میں فرمایا کہ عرب کے لوگ بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے ان میں سے کوئی کپڑا نہیں پہنتا تھا۔ جس میں وہ طواف کرتا تھا ” وریشا “ یعنی مال۔ (2) امام ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم “ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ آیت) قریش میں سے حمس قبیلہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور جو اس کا ماخذ عرب کے قبائل کو قرار دیتے ہیں اور وہ انصار ہیں۔ اوس خزرج خزاعہ، ثقیف اور بنو عامر بن صعصہ اور کنانہ بن بکر یہ لوگ گوشت کو نہ کھاتے تھے اور گھروں میں پیچھے کی جانب سے آتے تھے اور کہتے تھے قریش (نہیں کرتے تھے) جب وہ آتے تھے تو اپنے کپڑوں کو اتار کر پھینک دیتے تھے جو پہن کر آتے تھے اور کہتے تھے یہ ہمارے کپڑے ہم کو (کیسے) پاک کریں گے اپنے رب کی طرف جس میں چھوٹے اور بڑے گناہ (ہم نے کئے) پھر وہ قریش سے کہتے تھے کون ہے جو ہم کو عاریۃ چادر دے سکتا ہے۔ اگر وہ بھی نہ پاتے تو ننگے طواف کرتے۔ جب وہ فارغ ہوجاتے طواف سے تو اپنے کپڑوں کو لے لیتے جو انہوں نے اتار دئیے تھے۔ (3) امام ابن جریر نے عروہ بن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لباسا یواری سواتکم “ میں لباس سے مراد ہے کپڑے اور ” وریشا “ سے مراد ہے مال اور ” لباس التقوی “ سے مراد ہے اللہ کا ڈر۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے زید بن علی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” لباسا یواری سواتکم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے عام لباس ” وریشا “ یعنی زینت ولا لباس ” و لباس التقوی “ سے مراد ہے اسلام۔ (5) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے چند طرق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وریشا “ سے مراد ہے مال لباس عیش اور نعمتیں اور ” و لباس التقوی “ سے مراد ہے : ایمان اور نیک عمل ” ذلک خیر “ یعنی ایمان اور نیک عمل بہتر ہے مال اور لباس سے۔ (6) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وریاشا “ سے مراد ہے مال۔ (7) امام احمد، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نیا کپڑا پہنتے تو (یہ دعا) پڑھتے : الحمدللہ الذی کسانی من الریاش ما اواری بہ عورتی وأتجمل بہ فی الناس ترجمہ : سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے خوبصورت کپڑا پہنایا جس کے ذیعہ میں اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہوں اور اس کے ذریعہ لوگوں میں خوبصورت بنتا ہوں۔ (8) امام ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا ” الریاش “ سے مراد ہے خوبصورتی۔ (9) امام طستی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس ؓ سے پوچھا مجھے اللہ عزوجل کے اس قول ” وریشا “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا ” وریشا “ یعنی ” الریاش “ سے مراد ہے مال پھر انہوں نے پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : فرشنی بضیر طال ما قد برتینی وخیر الموالی من یریش ولا یبری ترجمہ : اس نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا جب کہ تو نے مجھے ذلیل و رسوا کیا بہترین دوست وہ ہے جو مال عطا کرتا ہے اور ذلیل و رسوا نہیں کرتا۔ (10) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” لباسا یواری سواتکم وریشا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے لباس مراد ہے ” و لباس التقوی “ سے مراد ہے ایمان اور اللہ تعالیٰ نے لباس کو نازل فرمایا پھر فرمایا بہترین لباس تقویٰ ہے۔ (11) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا لفظ آیت ” لباسا یواری سواتکم وریشا “ رفع کے ساتھ۔ (12) امام عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا۔ ” وریشا “ بغیر الف کے ” و لباس التقوی “ رفع کے ساتھ۔ (13) امام ابن مردویہ نے عثمان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یوں پڑھتے ہوئے سنا ” وریاشا “ اور آپ نے ” وریشا “ نہیں پڑھا۔ (14) امام ابن جریر نے زر بن حبیش (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا ” وریاشا “ (15) امام ابو عبید، عبد بن حمید، حکیم ترمذی، ابن منذر، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے معبد جنبی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” و لباس التقوی “ سے مراد ہے حیا کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم وریشا، و لباس التقوی “ پس لباس وہ ہے جو چھپاتا ہے تمہاری شرم گاہوں کو وہی تمہارا لباس ہے۔ اور ریاش سے مراد ہے معاش اور لباس التقوی سے مراد ہے حیا۔ (16) امام ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” و لباس التقوی “ سے مراد ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اور اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہے تو یہی تقویٰ کا لباس ہے۔ (17) امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” و لباس التقوی “ کے بارے میں فرمایا کہ جو متقی لوگ قیامت کے دن پہنیں گے ” ذلک خیر “ یعنی یہ بہتر ہے دنیا والوں کا لباس ہے۔ (18) امام ابو الشیخ نے عطاء سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” و لباس التقوی، ذلک خیر “ کے بارے میں فرمایا کہ جو متقی لوگ قیامت کے دن پہنیں گے وہ بہتر ہے ان لباسوں سے جو دنیا والے پہنتے ہیں۔ (19) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” و لباس التقوی “ سے مراد ہے کہ چہرہ میں خوبصورت خاموشی کا ہونا۔ ہر عمل لباس کی شکل میں ہوگا (20) امام ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس بندہ نے کوئی نیک یا برا عمل کیا تو اس کو اس کے عمل کی چادر پہنائی جائے گی یہاں تک کہ وہ اس کو پہچان لیں گے۔ اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں ہے۔ لفظ آیت ” و لباس التقوی، ذلک خیر “ (21) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عثمان ؓ کو منبر پر دیکھا کہ انہوں نے فرمایا اللہ سے ڈرو (اے لوگو) پوشیدہ کاموں میں بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی شخص خفیہ طور پر کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اعلانیہ طور پر اس کی چادر پہنائیں گے اگر اس نے اچھا عمل کیا تو اسے اچھی چادر پہنائی جائے گی۔ اگر اس نے برا عمل کیا تو اسے برائی کی چادر پہنائی جائے گی۔ پھر یہ تلاوت فرمائی ” وریاشا “ اور ” وریشا “ نہیں فرمایا لفظ آیت ” و لباس التقوی، ذلک خیر “ سے مراد خوبصورت خاموشی ہے۔ (22) امام ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لباسا یواری سواتکم وریشا “ یعنی کپڑے ” وریاشا “ یعنی مال اور ” و لباس التقوی “ یعنی ایمان ” ذلک خیر “ یعنی یہ بہتر مال سے اور اس لباس سے جو چھپاتا ہے تمہاری شرم گاہوں کو۔ (23) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ینزع عنھما لباسھما “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے تقوی (اور) لفظ آیت ” انہ یرکم ھو و قبیلہ “ یعنی جن اور شیاطین تمہیں دیکھتے ہیں۔ (24) امام عبد بن حمید نے ابن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ینزع عنھما لباسھما “ سے مراد ہے نور۔ (25) امام ابن ابی حاتم نے ابن زید سے روایت کیا کہ ” و قبیلہ “ سے مراد ہے اس کی نسل۔ (26) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انہ یرکم ھو و قبیلہ من حیث لاترونھم “ سے مراد ہے اللہ کی قسم بلاشبہ دشمن تجھ کو دیکھتا ہے ایسی جگہ سے جہاں تو اس کو نہیں دیکھتا وہ انتہائی تکلیف دینے والا ہے۔ مگر جس کو اللہ تعالیٰ بچالے۔ (27) امام ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس نے یہ درخواست کی کہ وہ دیکھتا ہے لیکن اسے نہ دیکھا جائے اور وہ تحت الثری سے نکل جائے اور جب اسے بڑھاپا آجائے تو وہ پھر جوانی کی طرف لوٹ آئے تو اس کی یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ (28) امام ابن ابی شیبہ نے مطرف (رح) فرمایا کرتے تھے اگر ایک آدمی شکار کو دیکھ لے اور شکار اسے نہ دیکھے تو وہ اسے دھوکہ دے سکتا ہے۔ کیا نہیں قریب ہے کہ وہ اس کو پکڑے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر فرمایا بلاشبہ شیطان ہم کو دیکھتا ہے اور ہم اس کو نہیں دیکھتے اور وہ ہم پر حملہ آور ہوتا ہے۔ (29) امام ابو الشیخ نے عظمۃ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کسی آدمی کے ذہن میں شیطان کے بارے میں خیال آیا یہاں تک کہ وہ اس کو دیکھنے لگا تو اسے چاہئے کہ اس سے دور نہ ہٹے اور قدم آگے بڑھاتا رہے کیونکہ وہ تم سے زیادہ خوف زدہ ہونے والا ہے جتنا کہ تم اس سے خوف زدہ رہتے ہو لہٰذا اگر وہ اس سے پیچھے ہٹا تو وہ اس پر سوار ہوجائے گا۔ اور اگر قدم آگے بڑھایا تو وہ بھاگ جائے گا۔ مجاہد (رح) نے فرمایا بلاشبہ میں اس کے ساتھ مبتلا ہوا یہاں تک کہ میں نے اس کو دیکھ لیا۔ پھر میں نے ابن عباس کے قول کو یاد کیا اور میں اپنے قدم بڑھاتے ہوئے چل دیا تو وہ بھاگ گیا۔ (30) امام ابو الشیخ نے عظمۃ میں نعیم بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جنات انسانوں کی طرح شیاطین کو نہیں دیکھتے ہیں۔
Top