Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو۔ جس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار فرمایا عَلَي : پر الْعَرْشِ : عرش يُغْشِي : ڈھانکتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن يَطْلُبُهٗ : اس کے پیچھے آتا ہے حَثِيْثًا : دوڑتا ہوا وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند وَالنُّجُوْمَ : اور ستارے مُسَخَّرٰتٍ : مسخر بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے اَلَا : یاد رکھو لَهُ : اس کے لیے الْخَلْقُ : پیدا کرنا وَالْاَمْرُ : اور حکم دینا تَبٰرَكَ : برکت والا ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
: بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ پھر عرش پر استوار فرمایا، ڈھانپ دیتا ہے رات سے رن کو رات اسے طلب کرلیتی ہے جلدی سے، اور پیدا فرمایا چاند کو اور سورج کو اور ستاروں کو اس حال میں کہ اس کے حکم سے وہ مسخر ہیں خبردار ! پیدا فرمانا اور حکم دینا اللہ کے لیے خاص ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے
(1) امام ابو الشیخ نے سمیط (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو ہمارے رب تبارک و تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی ذات کے بارے میں بتایا یعنی لفظ آیت ” ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض “ الآیہ۔ (2) امام ابن ابی الدنیا نے کتاب الدعاء میں اور خطیب نے تاریخ میں حسن بن علی (رح) سے روایت کیا کہ میں ضامن ہوں اس شخص کے لئے جو یہ بیس آیتیں پڑھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بچائیں گے ہر ظالم بادشاہ سے ہر سرکش شیطان سے ہر تکلیف دینے والے درندے سے اور ہر عادی چور سے آیۃ الکرسی تین آیات ( سورة ) اعراف میں سے۔ یعنی لفظ آیت ” ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض “ اور دس آیات (سورۃ) الصافات کے اول سے اور تین آیات ( سورة ) الرحمن میں سے یعنی ” یامعشر الجن “ (اور) سورة الحشر کی آخری آیات۔ (3) ابن ابی حاتم نے سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض فی ستۃ ایام “ نازل ہوئی گھوڑ سواروں کی ایک بڑی جماعت میں وہ عرب کے رہنے والے نہیں دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا تم کون ہو ؟ تو انہوں نے بتایا کہ جنات میں سے ہم اس شہر سے نکلے ہیں ہم کو اس آیت نے نکالا ہے۔ (4) امام ابو الشیخ نے عبید بن ابی مرزوق (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص اپنی نیند کے وقت (یہ آیت) لفظ آیت ” ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض “ پڑھے تو اس پر ایک فرشتہ اپنے پروں کو پھیلا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے اور چوری سے محفوظ رہتا ہے۔ ایک دن ایک رات کا سجدہ (5) امام ابو الشیخ نے محمد بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن عبد العزیز کے ساتھی تھے۔ اہل مدینہ میں سے ایک آدمی بیمار ہوا تو اس کے ساتھیوں میں سے ایک جماعت اس کے پاس آئی اور اس کے لئے دعا اور جھاڑ پھونک کرنے لگے ان میں سے ایک آدمی نے لفظ آیت ” ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض “ پوری آیت پڑھی۔ وہ آدمی خاموش ہوا تو مریض نے حرکت کی اور اٹھ کر بیٹھ گیا پھر اس نے اس دن اور اس رات میں سجدہ کیا یہاں تک کہ جب اگلے دن وہی وقت ہوا جس میں اس نے سجدہ کیا تھا تو اس کے گھر والوں نے اس سے کہا سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے تجھ کو عافیت دی (یہ سن کر) اس نے کہا میری طرف بھیجا گیا تھا تاکہ وہ اس کو فوت کرے جب تمہارے ساتھی نے وہ آیات پڑھیں تو فرشتے نے سجدہ کیا اور میں نے بھی اس کے سجدوں کے ساتھ سجدہ کیا پس اس وقت اس نے اب اپنے سر کو اٹھایا ہے پھر وہ جھکایا اور مرگیا۔ (6) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خلق السموت والارض فی ستۃ ایام “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ان میں سے ہر دن علیحدہ علیحدہ نام ہے ابو جاد، ھواز، حطی، کلمون، صعفص اور قرشات۔ (7) امام سمویہ نے فوائد میں زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا کہ اللہ جل شانہ نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اور فرمایا ہر دن کی مقدار ہزار سال تھی۔ (8) امام سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مخلوق کی ابتداء عرش پانی اور ہوا سے ہوئی اور زمین کو پانی سے پیدا فرمایا اور تخلیق کی ابتداء اتوار سے کی گئی۔ پھر پیر کے دن، منگل کے دن، بدھ کے دن اور خمس کے دن اور جمعۃ المبارک کے دن تخلیق کا عمل مکمل ہوگیا اور ہفتے کے دن یہودی یہودی بنے اور ان چھ دنوں میں ہر دن موجود دونوں کے اعتبار سے ہزار برس کے برابر تھا۔ (9) امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اتوار کے دن پھر عرش پر قرار پکڑا جمعہ کے دن تین ساعات میں۔ اور اس میں سے ایک ساعت میں عداوت پیدا فرمائی تاکہ لوگ رغبت کرتے رہیں اپنے رب کی طرف دعا میں اور سوال میں اور ایک ساعت میں بدبو کو پیدا فرمایا جو ابن آدم پر ظاہر ہوتی ہے تاکہ جب وہ مرے تو اس کے لئے قبر بنائی جائے۔ (10) امام بیہقی نے الاسماء والصفات میں حیان الاعرج (رح) سے روایت کیا ہے کہ یزید بن ابی مسلم نے جابر بن زید کی طرف لکھا کہ مخلوق کی ابتداء کس سے ہوئی انہوں نے فرمایا عرش پانی اور قلم سے واللہ اعلم اس میں کونسی پہلے پیدا کی اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ (11) امام ابن ابی شیبہ نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اتوار کے دن پیدا کرنا شروع فرمایا پھر پیر منگل بدھ خمس اور جمعہ کے دن یہ سلسلہ جاری رہا اور ہر دن کو ہزار سال کا بنا دیا۔ (12) امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ابوہریرہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا فرمایا پھر اپنی شان کے مطابق عرش پر متمکن ہوئے پھر مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا فرمایا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور آدم کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جمعرات کے دن چوپائے اور دیگر جانور اور آدم کو جمعہ کے دن، دن کے آخری ساعت میں تخلیق فرمایا۔ (13) امام ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ثم استوی علی العرش “ سے مراد ہے ساتویں دن اپنی شان قدرت کے مطابق عرش پر متمکن ہوا۔ (14) امام ابن ابی حاتم نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر متمکن ہوئے اور عرش نے اس کی تسبیح بیان کی۔ (15) امام ابن مردویہ اور الالکائی نے السنۃ میں ام سلمہ ام المومنین ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” شم استوی علی العرش “ کے بارے میں فرمایا کہ کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں ہے اور استواء غیر مجہول ہے اور اس کا اقرار کرنا ایمان ہے۔ اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ (16) امام الالکائی نے ابن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ ربیعہ (رح) سے لفظ آیت ” ثم استوی علی العرش “ کے بارے میں پوچھا گیا کہ استوی کس طرح ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ استواء غیر مجہول ہے۔ اور کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام پہنچانا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ پر لوگوں تک پہچانا لازم ہے اور ہم پر تصدیق کرنا واجب ہے۔ (17) امام الالکائی نے جعفر بن عبد اللہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی مالک بن انس کی طرف آیا اور اس نے کہا اے ابو عبد اللہ ” ثم استوی “ کس طرح ہے ؟ اس نے کہا میں نے مالک کبھی اس حال میں نہیں دیکھا کہ انہوں نے اپنے کلام میں اپنی ایجاد کی طرح کی کوئی چیز پائی اور ان پر پسینہ قوم نے سرجھکا لئے راوی نے کہا جب مالک سے یہ کیفیت دور ہوئی تو فرمایا کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ اور اس سے استوا غیر مجہول ہے۔ اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ تو گمراہ ہوجائے۔ آپ نے اسے یہ بتایا اور وہاں سے نکال دیا۔ (18) امام بیہقی نے عبد اللہ بن وھب (رح) سے روایت کیا کہ ہم مالک بن انس کے پاس تھے۔ ایک آدمی داخل ہوا اور اس نے کہا اے ابو عبید اللہ لفظ آیت ” الرحمن علی العرش استوی “ میں اس کا استواء کس طرح ہے ؟ (یہ سن کر) مالک خاموش ہوگئے اور پسینہ پسینہ ہوگئے۔ پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا لفظ آیت ” الرحمن علی العرش استوی “ کہ رحمن عرش پر متمکن ہوا جیسا کہ اس کی ذات کو زیبا ہے۔ اس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اس سے کیف اٹھا لیا گیا اور تو بڑا بدعتی آدمی ہے۔ (پھر فرمایا) اس کو نکال دو ۔ راوی نے کہا کہ اس کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ (19) امام بیہقی نے احمد بن ابو الحواری (رح) سے روایت کیا کہ میں نے سفیان بن عینیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنی ذات کے بارے میں کوئی صفت بیان فرمائی تو اس کی تفسیر اس کی تلاوت ہے اور اس پر خاموش رہنا ہے۔ (20) امام بیہقی نے اسحاق بن موسیٰ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عینیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں جو وصف بیان کیا ہے تو اس کی تفسیر اس کی قرات ہے کسی کے یہ لائق نہیں کہ اس کی تفسیر کرے مگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہم السلام۔ پوری زندگی سجدہ میں گزارنے کا ذکر (21) امام عبد بن حمید نے ابو عیسیٰ (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہوئے تو ایک فرشتہ سجدہ میں گرپڑا اور وہ قیامت قائم ہونے تک سجدہ میں پڑا رہے گا۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو اپنا سر اٹھائے گا اور کہے گا تیری ذات پاک ہے میں تیری عبادت کا حق ادا نہیں کرسکا مگر یہ کہ میں نے کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک نہیں بنایا۔ اور نہ تیرے سوا کسی کو ولی بنایا۔ (22) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یغشی الیل النھار “ کے بارے میں فرمایا کہ رات سے دن کو ڈھانکتا ہے۔ اور دن اپنی روشنی سمیٹ لیتا ہے۔ اور اس کو بڑی تیزی کے ساتھ طلب کرتا ہے کہ یہاں تک کہ اس کو پالیتا ہے۔ (23) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” حثیثا “ سے مراد ہے جلدی سے۔ (24) امام ابن ابی حاتم نے قتادۃ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دن کو رات کا لباس پہنا دیتا ہے۔ (25) امام طبرانی نے الاوسط میں ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چاند سورج اور ستارے عرش کے نور سے پیدا کئے گئے۔ (26) امام ابن ابی حاتم نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” الا لہ الخلق والامر “ کے بارے میں فرمایا ” الخلق “ سے مراد پیدا کرنا ” والامر “ سے مراد ہے کلام کرنا۔ (27) امام ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ ” الخلق “ سے مراد ہے مخلوق اور ” والامر “ سے کلام مراد ہے۔ (28) امام ابن جریر نے عبد العزیز شامی سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جو صحابی تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کی تعریف نہیں کرتا اس نیک عمل پر جو اس نے کیا۔ اور اپنی تعریف کرتا ہے تو اس نے کفر کیا اور ضایع کردیا جو اس نے عمل کیا۔ اور جس شخص نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے امر میں سے کچھ بندوں کے لئے بھی مقرر کیا ہے تو اس نے انکار کیا اس بات کا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء پر نازل فرمائی (یعنی) لفظ آیت ” الا لہ الخلق والامر، تبرک اللہ رب العالمین “ (خبر دار اسی کے لئے ہے پیدا کرنا اور حکم دینا) (29) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ چپکے چپکے (اپنے رب کو پکارو) پھر فرمایا لفظ آیت ” انہ لا یحب المعتدین “ (یعنی اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے حد سے زیادہ بڑھنے والوں کو) دعا میں اور اس کے علاوہ میں۔ (30) امام ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” تضرعا “ سے مراد ہے علانیہ اور ” الخفیہ “ سے مراد ہے چپکے سے دعا کرنا (31) امام ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ادعوا ربکم تضرعا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے عاجزی کرتے ہوئے ” وخفیۃ “ یعنی آہستہ آواز سے اور سکون سے اپنی دنیوی اور اخروی حاجات کے بارے میں اپنے رب سے دعا کرو لفظ آیت ” انہ لا یحب المعتدین “ یعنی مومن مرد اور مومن عورت کے لئے برائی کی دعا نہ کرو (جیسے) اے اللہ اس کو رسوا کرے یا اس پر لعنت کرے اور اس طرح کے اور الفاظ کے ساتھ کیونکہ یہ عداوت اور دشمنی کی علامت ہے۔ (32) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” انہ لا یحب المعتدین “ کے بارے میں فرمایا کہ انبیاء کے منازل اور مراتب (پر پہنچنے) کی دعا نہ کرو۔ (33) امام ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ دیکھا گیا کہ اونچی آواز سے دعا کرنا حد سے بڑھنا ہے۔ (34) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض “ سے لے کر ” تبرک اللہ رب العالمین “ تک اس سے مراد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی قدرت اپنی عظمت اور اپنے جلال کی خبر دیدی اور تمہارے لئے بیان فرما دیا کہ کس طرح تم اس سے دعا مانگو کہ وہ اس کے غصے اور ناراضگی کا سبب نہ بنے اور فرمایا لفظ آیت ” ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ، انہ لا یحب المعتدین “ فرمایا تم جان لو کہ بعض دعاؤں میں حد سے تجاوز کرنا ہے۔ پس بچو تم ظلم سے اور حد سے تجاوز کرنے سے اگر تم طاقت رکھتے ہو۔ اور طاقت نہیں ہے مگر اللہ کی مدد کے ساتھ راوی نے کہا اور ہم کو ذکر کیا گیا کہ مجالد بن مسعود بنو سلیم کے بھائی نے ایک قوم کے بارے میں سنا کہ وہ اپنی دعا میں چلاتے ہیں تو وہ اس کی طرف گئے اور فرمایا اے قوم ! البتہ تحقیق تم نے فضیلت پائی ہے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے۔ یا البتہ تحقیق تم ہلاک ہوگئے تو (یہ بات سن کر) ایک آدمی نے (وہاں سے) کھسکنا شروع کیا یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا جس میں وہ تھے۔ راوی نے کہا اور ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ ابن عمر ایک قوم کے پاس لائے جو اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھائے ہوئے تھے تو (ان کو دیکھ کر) فرمایا اس قوم نے کس چیز کا ارادہ کیا ہے ؟ اللہ کی قسم اگر یہ لوگ زمین میں پہاڑ سے بھی بڑھ کر لمبے ہوجائیں تو یہ اضافہ نہ کرسکتے اللہ تعالیٰ کے قرب میں قتادہ (رح) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اس کی اطاعت سے پس جو کوئی تم میں سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا ہو تو اس کو چاہئے کہ اس میں اطمینان اور وقار ہو اس میں خاموشی سے لباس اور ہدایت بھی ہو اور راحت اور آسانی بھی ہو۔ (35) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم اور بیہقی نے عبد اللہ بن مقفل (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو سنا کہ وہ کہہ رہا تھا اے اللہ میں آپ سے جنت کے دائیں طرف سفید محل کا سوال کرتا ہوں۔ جب میں جنت میں داخ (رح) ہوجاؤں انہوں نے فرمایا اے میرے بیٹے اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کر اور دوزخ سے پناہ مانگ۔ کیونکہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا عنقریب اس مات میں ایک ایسی قوم آئے گی جو حد سے تجاوز کرے گی دعا میں اور طہور (یعنی پاکیزگی حاصل کرنے) میں۔ دعاء کے الفاظ میں مبالغہ کی ممانعت (36) امام طیالسی، ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو سنا کہ وہ دعا کر رہا تھا۔ اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں جنت کا اور اس کی نعمتوں کا اور اس کی دیگر رونقوں اور خوبیوں کا اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں دوزخ سے اس کی زنجیروں سے اور ہتھکڑیوں سے۔ تو انہوں نے فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ سے خیر کا سوال کیا اور تو نے کثیر شر سے پناہ مانگی۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب ایک قوم ہوگی جو دعا میں تجاوز کرے گی پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ، انہ لا تحب المعتدین “ اور تجھ کو کافی ہے کہ تو یوں پڑھے اے اللہ میں آپ سے جنت کا سوال کرتا ہوں۔ اور جو اس کے قریب کر دے قول سے اور عمل سے اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں دوزخ سے اور جو اس کے قریب کر دے قول سے اور عمل سے۔ (37) امام ابو الشیخ نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا بچو تم اپنے رب سے ایسا سوال کرنے سے کہ جس سے منع کیا گیا یا جو میرے لئے لائق نہیں۔ (38) امام ابن مبارک، ابن جریر اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ مسلمان خوب کوشش کرتے تھے دعا کرنے میں اور اگر ان کی آواز ہوتی تو وہ سنائی نہ دیتی تھی مگر صرف اتنی کہ گویا ان کے اور ان کے درمیان ایک سرگوشی ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ “ اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا ذکر فرمایا اور اس کے قول کو پسند کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” اذ نادی ربہ نداء خفیا “۔ (39) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے ابن جریج سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ دعا میں حد سے تجاوز کرنا یہ ہے کہ آواز کا بلند کرنا اور چیخ و پکار کرکے دعا کرنا ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔ اور حکم دیا گیا دعا میں عجزو انکساری کا اور اطمینان اور وقار کا۔
Top