Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔ تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ بیشک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں
(1) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن عساکر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے نبی نوح کو بنا کر بھیجا گیا۔ (2) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابو نعیم اور ابن عساکر نے یزید رقاشی (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کو اپنی ذات پر لمبا نوحہ کرنے کی وجہ سے نوح کہا گیا۔ (3) امام ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ نوح اس لئے کہا گیا کیونکہ وہ نوحہ کرتے تھے اپنی ذات پر۔ (4) امام اسحاق بن بشیر ابن عساکر نے مقاتل و جویبر (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جب بوڑھے ہوگئے اور کمزور ہوگئیں ان کی ہڈیاں تو فرمایا اے میرے رب کب تک میں سخت محنت اور مشقت کرتا رہوں گا۔ فرمایا اے آدم یہاں تک تیرا ایک لڑکا ختنہ کیا ہوا پیدا ہوگا تو نوح (علیہ السلام) کے دس قبیلوں کے بعد پیدا ہوئے اور وہ اس دن نو سو چالیس سال کے تھے نوح پر سلسلہ نسب اس طرح سے ہے نوح بن لامک بن متوشلخ بن ادریس اور وہ اخنوخ بن یردین مھلا بیل ابن قینان بن انوش ابن شیث بن آدم اور آپ کا اسم گرامی اسکن تھا آپ کو نوح السکن کہا جاتا ہے اس لئے آدم کے بعد لوگوں کو آپ کے پاس ہی سکون حاصل ہوا اور آدم (علیہ السلام) سب کے باپ ہیں۔ اور ان کو نوح اس لئے کہا گیا کیونکہ وہ اپنی قوم پر نو سو پچاس سال تک نوحہ کرتے رہے۔ اور ان کو اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ جب انہوں نے انکار کیا تو روئے اور ان پر نوحہ کیا۔ (5) امام ابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ نوح اور آدم (علیہ السلام) کے درمیان دس آباء کا واسطہ ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان بھی دس آباء کا واسطہ ہے۔ (6) امام ابن ابی حاتم اور حاکم نے (اور حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم اور نوح کے درمیان صدیاں تھیں اور وہ سب کے سب دین حق پر قائم تھے۔ (7) امام ابن عساکر نے نوف شامی (رح) سے روایت کیا کہ پانچ انبیاء عرب میں سے تھے محمد، نوح، ھود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی پیدائش (8) امام اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) دوسرے ہزار میں بھیجے گئے اور آدم کا وصال نہیں ہوا تھا یہاں تک کہ نوح (علیہ السلام) ہزار کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کے درمیان گناہ پھیل چکے تھے۔ اور ظلم و زیادتی کرنے والے جابر حکمران کثیر تعداد میں تھے اور ان میں تکبر اور رعونیت بڑھ چکی تھی۔ ان کو رات اور دن بلاتے تھے۔ خفیہ طور پر اعلانیہ طور پر صبر اور بردباری کے ساتھ انبیاء میں سے کسی کو بھی اتنے شدید اور سخت حالات پیش نہیں آتے جن کا سامنا نوح کو کرنا پڑا۔ جب وہ لوگ ان کے پاس آتے تو ان کا گلا گھونٹ دیتے اور مجلسوں میں ان کو مارتے پھر بھاگ جاتے اور ایسا سلوک کرنے پر بھی ان کے لئے بددعا نہ کرتے اور فرماتے اے میرے رب میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے مگر اس بات سے وہ اور زیادہ ان سے بھاگتے یہاں تک کہ جب وہ ان میں سے کسی آدمی سے بات کرتے تو وہ اپنے سر کو اپنے کپڑے سے لپیٹ لیتا اور اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں دے دیتا تاکہ ان کی بات میں سے کچھ بھی نہ سنے اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” جعلوا اصابھم فی اذانھم یستغشون ثیابھم “ (نوح آیت : 7) پھر وہ مجلس سے کھڑے ہوتے تو جلدی سے چلنے لگے اور کہتے جلدی سے چلے جاؤ کہ یہ بہت جھوٹا ہے۔ اور آپ پر انتہائی سخت آزمائش آتی رہی۔ اور آپ ایک زمانہ کے بعد دوسرے زمانہ کے لوگوں اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل کا انتظار کرتے رہے مگر جو نسل بھی آئی وہ پہلی سے زیادہ خبیث اور پہلی سے بڑھ کر متکبر اور سرکش نکلی۔ ان میں سے ایک آدمی کہتا کہ یہ آدمی ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ تھا یہ مسلسل جنون میں مبتلا ہے۔ ان میں سے کوئی آدمی جب وفات کے وقت وصیت کرتا تو کہتا اپنی اولاد سے اس مجنون سے بچ کر رہو کہ میرے باپ نے مجھ سے کہا تھا کہ لوگوں کی ہلاکت اور بربادی اس کے ہاتھوں پر ہے۔ وہ لوگ آپس میں اسی طرح وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ جب کوئی آدمی اپنے لڑکے کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوتا پھر اس کے ساتھ ٹھہرا رہتا اور اس سے کہتا اے میرے بیٹے اگر میں زندہ رہوں یا مرجاؤں تو میں اس بوڑھے سے تم کو ڈراتا ہوں پھر جب آپ کا ان کے ساتھ طویل زمانہ گزر گیا تو کہنے لگے لفظ آیت ” قالوا ینوح قدجدلتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین “ (ہود آیت 22) (9) امام ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ نوح جزیرہ میں بھیجے گئے۔ ھود (علیہ السلام) ارض الشجر اور ارض مھرۃ کی طرف بھیجے گئے اور صالح حجر میں بھیجے گئے اور لوط (علیہ السلام) سدوم کی طرف اور شعیب (علیہ السلام) مدینہ کی طرف بھیجے گئے اور ابراہیم آدم اسحاق اور یوسف (علیہم السلام) کا وصال فلسطین کی زمین میں ہوا اور یحییٰ بن زکریا (علیہم السلام) دمشق میں قتل کئے گئے۔ (10) امام ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کو اتنا مارتے تھے کہ وہ بیہوش ہوجاتے تھے جب افاقہ ہوتا تو فرماتے اے میرے رب میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ نہیں جانتے۔ (11) امام ابن ابی شیبہ احمد نے زھد میں، ابو نعیم اور ابن عساکر نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم اتنا مارتی تھی کہ وہ بیہوش ہوجاتے۔ پھر جب افاقہ ہوتا تو فرماتے (اے اللہ) میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نہیں جانتے شفیق نے کہا کہ عبد اللہ نے فرمایا میں نے نبی ﷺ کو دیکھا اور آپ اپنا چہرہ مبارک سے خون کو پونچھ رہے تھے اور انبیاء میں سے ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔ (12) امام عبد بن حمید نے عبید بن عمیر اللیثی سے اسی طرح روایت کیا عکرمہ (رح) سے کہ نوح کی قوم ان کا گلا گھونٹ دیتی تھی یہاں تک ان کی آنکھیں باہر نکل آتی جب وہ ان کو چھوڑتے تھے تو فرماتے اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ جاہل ہیں۔ (13) امام عبد بن حمید، بخاری، مسلم اور ابن ماجہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں جو انبیاء میں سے ایک نبی کی حکایت بیان فرما رہے تھے اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔ (14) امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابو مہاجر ؓ سے روایت کیا کہ نوح، اپنی قوم میں سے نوسو پچاس برس بالوں کے گھر میں رہے۔ ان سے کہا گیا اے اللہ کے نبی ! گھر بنائیے تو وہ فرماتے تھے میں آج پاگل مرجاؤں گا۔ (15) امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے وھیب بن ورد (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) نے ایک گھر کانوں سے بنایا ان سے کہا گیا آپ نے اس کے علاوہ کسی اور شے سے کیوں نہیں بنایا فرمایا یہ کافی ہے اس شخص کے لئے جس نے مرنا ہے۔ (16) امام ابن ابی الدنیا، عقیلی، ابن عساکر اور دیلمی نے عائشہ ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ نوح انبیاء میں بہت بڑے نبی تھے جب بھی وہ بیت الخلاء سے باہر آتے تو یہ دعا فرماتے کہ ” الحمدللہ الذی اذاقنی طعبہ وأبقی فی منفعتہ وأخرج منی أذاہ “ (سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں) جس نے اس کھانے سے مجھے لطف اندوز کیا پھر اس کی منفعت اور فوائد کو باقی رکھا اور اس کی اذیت اور تکلیف کو مجھ سے خارج کردیا۔ (17) امام بخاری نے تاریخ میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح کو بھیجا اور نہیں ہلاک کیا اس کی امت میں سے مگر زندیقوں کو پھر دوسرے نبی آتے رہے اور اللہ تعالیٰ اس امت کو نہیں ہلاک کریگا مگر زندیقوں کو۔ (18) امام ابو الشیخ نے سعد بن حسن (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم ایک ماہ میں دو مرتبہ کھیتی بوتے تھے اور ایک عورت دن کے اول حصہ میں بچہ جنتی تھی تو دن کے آخر میں اس کے پیچھے دوسرا بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ (19) امام ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کو عذاب دیا گیا یہاں تک کہ نہیں تھا زمین میں ہموار میدان یا پہاڑ مگر اس کے لئے کوئی آباد کرنے والا جو اس کو آباد کرتا یا اپنی ذات کے ساتھ مخصوص کرنے والا مخصوص کرتا ہو۔ (20) امام ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ نوح کے زمانہ میں میدان اور پہاڑ اپنے رہنے والوں کے سبب تنگ ہوچکے تھے۔ یہاں تک کہ میدانوں میں رہنے والے لوگ قدرت نہ رکھتے تھے کہ وہ پہاڑوں پر چڑھیں اور نہ میدانوں میں اتنی گنجائش تھی کہ پہاڑوں پر رہنے والے ان کی طرف اترآئیں نوح کے زمانہ میں اور فرمایا کہ تم اس پر یقین کرلو۔ (21) امام ابو نعیم نے حلیہ میں اور ابن عساکر نے وھب بن منبہ سے روایت کیا کہ نوح اپنے زمانہ کے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور وہ برقع پہنے رکھتے تھے کشتی میں سوار ہوتے وقت بھوک لگ گئی۔ اور نوح نے جب اپنے چہرہ کو ظاہر فرمایا تو ان کے پیٹ بھر گئے۔ انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقاتیں (22) امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حج کیا تو عسفان کی وادی سے گزرے اور فرمایا اس وادی سے ھود، صالح اور نوح (علیہم السلام) بھی اپنے سرخ اونٹوں پر گزرے اونٹوں کی لگام کھجور کی چھال کی تھی ان کا لباس ایک چغہ تھا اور ان کی دھاری دار چادریں تھیں۔ وہ تلبیہ پڑھتے ہوئے بیت عتیق کا حج کرنے کے لئے گئے۔ (23) امام ابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا نوح نے ہمیشہ روزے رکھے سوائے عید الفطر اور عید الاضحی کے۔ داؤد (علیہ السلام) نے آدھا زمانہ روزہ رکھا۔ (یعنی ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن) ابراہیم نے ہر ماہ سے تین دن کے روزے رکھے یعنی آپ نے بہت سا عرصہ روزے رکھے اور بہت سا زمانہ روزے نہ رکھے۔ (24) امام بخاری نے ادب المفرد میں بزار، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا نوح کو جب موت حاضر ہوئی تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایک پر اکتفا کر رہا ہوں۔ دو باتوں کا حکم کرتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں۔ تجھ کو ” لا الہ الا اللہ “ کا حکم دیتا ہوں۔ اس لئے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں ” لا الہ الا اللہ “ رکھ دیا جائے تو یہ ان پر بھاری ہوجائے گا کیونکہ یہ ہر چیز کی عبادت ہے اور اس کے ذریعہ ہر چیز کو رزق دیا جاتا ہے۔ اور میں تجھ کو شرک اور تکبر سے روکتا ہوں۔ (25) امام ابن ابی شیبہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو نہ بتاؤں جو نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو سکھایا تھا صحابہ ؓ نے فرماما ضرور بتائیے آپ نے فرمایا انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا میں تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ تو کہہ ” لا الہ اللہ وحدہ لا شریک لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر “ کیونکہ آسمان اگر ایک پلڑے میں ہوں یقینی طور پر یہ ان سے بھاری ہوگا۔ اور اگر یہ حلقہ ہوں تو اس کو توڑ دیں اور میں تجھ کو حکم دیتا ہوں ” سبحان اللہ وبحمدہ “ کے ساتھ کیونکہ یہ مخلوق کی نماز ہے اور مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔
Top