Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 72
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے نجات دی (بچا لیا) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَقَطَعْنَا : اور ہم نے کاٹ دی دَابِرَ : جڑ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات وَمَا : اور نہ كَانُوْا : تھے مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
پھر ہم نے ہود کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے اپنی رحمت سے نجات دے دی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ لوگ ایمان والے نہ تھے
قوم عاد پر ہوا کا عذاب (1) امام اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے عظیم (بےفائدہ) ہوا کی طرف وحی بھیجی کہ وہ قوم عاد پر چلے ان سے اس کا انتقام لے تو وہ بغیر ناپ کے بیل کے نتھنوں کے برابر نکلی یہاں تک کہ ساری زمین کے مشارق اور مغارب کے درمیان جو کچھ ہے سب کو ہلاک کر دے گی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی تو لوٹ جا تو وہ لوٹ گئی اور (پھر) وہ ایک انگوٹھی کے حلقہ کے سوراخ کی مقدار نکلی اللہ تعالیٰ نے ھود کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے ساتھ ایمان والوں کو ایک باڑہ میں الگ کرلے۔ انہوں نے الگ کرلیا۔ اور ان پر ایک خط کھینچ لیا۔ اور ساتھیوں سمیت قوم سے علیحدہ ہوگئے۔ پھر ہوا آئی اور داخل نہ ہوئی ہود کے باڑے میں اور نہ خط سے تجاوز کرتی۔ ان پر اتنی مقدار میں ہوا چلی کہ جس سے ان کے دل لطف اندوز ہوئے اور ان کی جسمانی جلدیں نرم رہیں لیکن قوم عاد سے زمین و آسمان کے درمیان پوری شدت کے ساتھ گزری۔ پتھروں کے ساتھ زخمی کرتی گئی (پھر) اللہ تعالیٰ نے سانپوں اور بچھوؤں کو حکم فرمایا کہ ان کے راستوں پر بیٹھ جائیں اور کسی عاد والے کو وہاں سے گزرنے نہ دیں۔ (2) امام ابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ قوم عاد پر جب اللہ تعالیٰ نے ہوا بھیجی تو ھود نے اپنے ساتھ ایمان والوں کو ایک باڑہ میں الگ کرلیا۔ ان کو ہوا نہیں پہنچتی تھی مگر جس سے ان کی جلدیں نرم رہیں۔ اور جو ان کی جانوں کو لذت پہنچاتی تھی۔ اور جب وہ عاد والوں میں سے کسی پر گزرتی تھی تو ان کو آسمان اور زمین کے درمیان اٹھا لیتی تھی اور پتھروں کے ساتھ ان کے سر کو پنچ دیتی تھی۔ (3) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقطعنا دابر الذین کذبوا “ سے مراد ہے کہ ہم نے اس کو جڑ سے اکھیڑ دیا۔ (4) امام ابو الشیخ نے عظمہ میں ھزین بن حمزہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اپنے رب سے سوال کیا کہ قوم عاد میں سے ایک آدمی ان کو دکھائیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پردہ کو ہٹا دیا تو اچانک (دیکھا) کہ اس کا سر مدینہ میں اور اس کی ٹانگیں ذوی الحلیفہ میں تھیں۔ چار میل اس کی لمبائی تھی۔ (5) امام ابن عساکر نے سالم بن ابی الجعد کی طریق سے عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے پاس انبیاء کا ذکر کیا گیا جب ھود کا ذکر فرمایا تو فرمایا کہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ (6) امام اور ابو یعلی اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ حج پر تشریف لے گئے۔ اور وادی عسفان سے گزرے تو فرمایا یہاں سے ہود اور صالح (علیہ السلام) اپنے سرخ اونٹوں پر گزرے کہ ان کی مہاریں کھجور کی چھال کی تھیں۔ وہ چغے پہنے ہوئے تھے۔ اور ان پر دھاری دار چادریں تھیں۔ لبیک پڑھتے ہوئے بیت عتیق کا حج کرنے کے لئے گئے۔ (7) امام ابن عساکر نے ابن سابط (رح) سے روایت کیا کہ مقام رکن اور زمزم کے درمیان اناسی انبیاء دفن کئے گئے اور نوح، ہود، شعیب، صالح اور اسماعیل (علیہم السلام) کی قبریں بھی اسی ٹکڑے میں ہیں۔ (8) امام ابن سعد اور ابن عساکر نے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروہ (رح) سے روایت کیا کہ تین نبیوں کے علاوہ کسی نبی کی قبر کو نہیں جانا گیا اسماعیل کی قبر میزاب کے نیچے رکن اور بیت اللہ کے درمیان ہے۔ اور ہود کی قبر کو کیونکہ وہ ریت کے تودہ میں ہے جو یمن کے پہاڑ میں سے ایک پہاڑ کے نیچے ہے اس پر ایک درخت ہے اور اس کی جگہ انتہائی سخت گرم ہے اور تیسری رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک ہے اور یہ ان کی قبریں سچی ہیں۔ (9) امام بخاری نے تاریخ میں، ابن جریر اور ابن عساکر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ھود کی قبر حضرموت میں ایک سرخ ریت کے ڈھیر میں ہے اس کے سر کے پاس بیری کا درخت ہے۔ (10) امام ابن عساکر نے عثمان بن ابی عاتکہ (رح) سے روایت کیا کہ دمشق کی مسجد کا قبلہ ھود کی قبر ہے۔ (11) امام ابو الشیخ نے ابوہریرہ سے روایت کیا کہ دمشق کی مسجد کا قبلہ ہود کی قبر ہے۔ دنیا کے چار عجائبات کا تذکرہ (12) امام زبیر بن بکار نے موفقیات میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ دنیا کے عجائب چار ہیں ایک شیشہ جو معلق تھا اسکندریہ کے منارہ سے ایک بیٹھنے والا اس کے نیچے جب بیٹھتا تھا۔ اور وہ دیکھتا تھا قسطنطنیہ اور دونوں شہروں کے درمیان سمندر کے عرض کو اور ایک گھوڑا ہے تانبا کا اندلس کی زمین میں وہ اپنی ہتھیلی کو جھکا کر اپنے ہاتھ کو پھیلائے ہوئے تھا یعنی اس کے پیچھے والے پاؤں نہیں تھے کوئی بھی ان شہروں تک نہیں پہنچا مگر چیونٹیوں نے اس کو کھالیا ہے۔ اور ایک منارہ ہے تانبے کا اس پر تانبے کا ایک سوار ہے۔ قوم عاد کی زمین میں جب عزت والے مہینے ہوتے ہیں تو اس سے پانی گرتا ہے۔ لوگ اس کو پیتے ہیں۔ خوب سیراب ہوتے ہیں۔ اور اپنے حوض بھر لیتے ہیں۔ جب عزت والے مہینے ختم ہوجاتے ہیں تو وہ پانی بھی ختم ہوجاتا ہے اور ایک درخت ہے تانبے کا اس پر تانبے کی ایک چڑیا ہے روم کے پانی میں جب زیتون کا موسم آتا ہے تو وہ تانبے والی چڑیا زرد پڑجاتی ہے۔ تو اڑنے والی چڑیا تین زیتون لے کر آتی ہے۔ دو زیتون اپنے پاؤں میں اور ایک زیتون چونچ میں یہاں تک کہ وہ ڈال دیتی ہے اس تانبے والی چڑیا پر تو روم والے ان کو نچوڑ لیتے ہیں جو ان کو کافی ہوجاتا ہے اپنے کھانے کے لئے اور چراغوں میں جلانے کے لئے آنے والے موسم سرما تک۔
Top