Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 73
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا١ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَ : اور اِلٰي : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آچکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : نشانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب هٰذِهٖ : یہ نَاقَةُ اللّٰهِ : اللہ کی اونٹنی لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيَةً : ایک نشانی فَذَرُوْهَا : سو اسے چھوڑ دو تَاْكُلْ : کہ کھائے فِيْٓ : میں اَرْضِ : زمین اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا تَمَسُّوْهَا : اسے ہاتھ نہ لگاؤ بِسُوْٓءٍ : برائی سے فَيَاْخُذَكُمْ : ورنہ پکڑ لے گا تمہیں عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ صالح نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔ تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل آچکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے نشانی ہے سو تم اسے اللہ کی زمین میں چھوڑے رکھو کھاتی پھرا کرے۔ اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگاؤ اور نہ تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا
(1) امام ابو الشیخ نے مطلب بن زیاد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبد اللہ بن ابی یعلی (رح) سے یہودی اور نصرانی کے بارے میں پوچھا کیا اسے بھائی کہا جاسکتا ہے ؟ فرمایا انہیں بھائی ایک دار میں رہنے کے سبب ہے لہٰذا اسے بھائی کہا جاسکتا ہے۔ کیا تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف نہیں دیکھتا لفظ آیت ” والی ثمود اخاھم صلحا “ (2) امام سنید اور ابن جریر اور حاکم نے حجاج کے طریق سے ابوبکر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے شہر بن خوشب سے اور انہوں نے عمرو بن خارجہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ثمود صالح کی قوم تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو آباد کیا دنیا میں انہیں بہت لمبی عمریں عطا فرمائیں۔ یہاں تک کہ ایک ان میں سے کوئی مٹی سے اپنا گھر تعمیر کرتا تو وہ گر جاتا اور وہ آدمی ابھی تک زندہ ہوتا۔ جب انہوں نے اس کو دیکھا تو پہاڑوں سے گھر بنانے لگے۔ وہ پہاڑوں کو کھودتے اور ان کو کاٹ کر ان میں غاریں بنا لیتے اور وہ اپنے معاشی اعتبار سے بھی خوشحال تھے۔ انہوں نے کہا اے صالح اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے کوئی نشانی نکالے۔ ہم جان لیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں صالح نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو ان کے لیے ایک اونٹنی پیدا فرما دی۔ اس کے لئے پانی پینے کا ایک دن تھا اور ایک دن ان کے لئے مقرر تھا۔ اور جب ایک دن اس کے پانی پینے کا ہوتا تو اسے کھلی فضا میں علیحدہ لے جاتے اور اس اونٹنی کا دودھ دوہتے تو اپنے سارے برتن اور مشکیزے بھر لیتے اور جب ان کے پینے کا دن ہوتا تو وہ اونٹنی کو اپنی سے دور بھگا دیتے اور وہ اس میں سے کچھ بھی نہ پیتی جبکہ وہ خود ہر برتن اور مشکیزے بھر لیتے اللہ تعالیٰ نے وحی فرمایا صالح کی طرف کہ تیری قوم عنقریب تیری اونٹنی کی کونچیں کاٹ دے گی جب ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کفر کو کرنے والے نہیں ہیں۔ صالح نے ان سے فرمایا اگر تم اس کو نہیں کاٹو گے تو تم سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دے گا۔ انہوں نے پوچھا کہ اس لڑکے کی کیا نشانی ہے۔ اللہ کی قسم ہم اس کو پائیں گے تو اس کو قتل کردیں گے فرمایا وہ ایک لڑکا ہے جو گہرے زرد رنگ نیلا اور سفید مائل سرخ رنگ کا ہوگا۔ اور شہر میں دو انتہائی طاقتور اور غلبہ رکھنے والے بوڑھے تھے۔ ان میں سے ایک کا بیٹا تھا جو نکاح کی رغبت رکھتا تھا۔ اور دوسرے کی بیٹی تھی جس کے لئے وہ ہم کفؤ مرد نہیں پا رہا تھا یہ دونوں ایک مجلس میں جمع ہوئے ان میں سے ایک نے کہا اپنے ساتھی سے کس چیز نے تجھ کو روکا ہے کہ تو اپنے بیٹے کا نکاح کرے۔ اس نے کہا کہ میں اس کے لئے کوئی ہم کفؤ لڑکی نہیں پاتا۔ اس نے کہا میری بیٹی اس کے لئے کم کفؤ ہے۔ میں تجھ سے شادی کردیتا ہوں تو اس نے اس سے شادی کردی ان دونوں کے ملنے سے وہ بچہ پیدا ہوا اور شہر میں گروہ تھے جو زمین میں فساد پھیلا رہے تھے جب اس سے صالح نے فرمایا کہ اس اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا تم میں سے پیدا ہوگا۔ ان لوگوں نے بستی کی آٹھ دایاں عورتوں کو چنا۔ ان کے ہاتھ پولیس مقرر کی کہ یہ لوگ سارے شہر میں پھریں بستی میں جب وہ کسی عورت کو درد میں مبتلا دیکھیں تو پھر نظر رکھیں کہ کیا پیدا ہوا اگر وہ لڑکا ہو تو اس کو الٹ پلٹ کر دیکھیں کہ وہ کس طرح کا ہے اور لڑکی ہو تو اس سے اعراض کریں۔ جب انہوں نے اس لڑکے کو پالیا تو عورتیں چیخیں کہ یہ وہی لڑکا ہے جس کی نشاندہی اللہ کے رسول صالح نے کی ہے۔ تو پولیس نے اسے اٹھانے کا ارادہ کیا لیکن اس کے دادا اس کے درمیان حائل ہوگئے اور انہوں نے کہا اگر صالح نے اس کا ارادہ کیا ہے تو ہم خود اس کو قتل کردیں گے۔ اور یہ ایک شریر بچہ تھا۔ وہ ایک دن میں اتنا بڑھتا جتنا دوسرے بچے ایک ہفتہ میں بڑھتے ہیں اور ایک ہفتہ میں اتنا بڑھتا تھا جتنے دوسرے بچے ایک ماہ میں بڑھتے ہیں اور یہ لڑکا ایک ماہ میں اتنا بڑھتا تھا جتنا دوسرے بچے ایک سال میں بڑھتے ہیں وہ آٹھ گروہ جو زمین میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے وہ جمع ہوگئے وہ دونوں بوڑھے بھی شامل ہوئے۔ انہوں نے کہا عامل بناؤ ہم پر اس لڑکے کو اس کے مقام و مرتبہ اور اس کے دادا کی عظمت و شرف کی وجہ سے اور یہ لوگ نو تھے اور صالح ان کے ساتھ نہ سوتے تھے بستی میں اور وہ اپنی مسجد میں رات گزارتے تھے جب صبح ہوتی ان کے پاس آتے ان کو ان کی نصیحت کرتے اور ان کو یاد دلاتے جب شام ہوتی تو اپنی مسجد کی طرف نکل جاتے اور وہیں رات گزارتے۔ حجاج اور ابن جریرج نے فرمایا جب ان سے صالح نے فرمایا عنقریب ایک لڑکا پیدا ہوگا کہ تمہاری ہلاکت اس کے ہاتھ پر ہوگی۔ انہوں نے کہا تو ہم کو کیا حکم کرتا ہے۔ صالح نے فرمایا میں تم کو ان کے قتل کا حکم دیتا ہوں انہوں نے ایک کے علاوہ سب کو قتل کردیا آپ نے فرمایا جب وہ بچہ بالغ ہو تو ان لوگوں نے کہا کاش کہ اگر ہم اپنی اولاد کو قتل نہ کرتے تو ہر آدمی کے لئے ہم میں سے اس کی مثل (نوجوان لڑکا) ہوتا یہ صالح کا عمل ہے۔ چناچہ انہوں نے آپس میں آپ کو قتل کرنے کا مشورہ کیا اور انہوں نے کہا ہم مسافر بن کر نکلیں گے اور لوگ ہم کو ظاہرا اس حالت میں دیکھیں گے پھر ہم لوٹیں گے فلاں مہینہ کی فلاں رات کو اور اس طرح ہم اس کی گھات لگائیں گے اس کی عبادت گاہ کے قریب اور ہم اس کو قتل کردیں گے۔ اور یہ لوگ یہ گمان کریں گے کہ ابھی ہم سفر پر ہیں جیسے ہم تھے وہ لوگ آئے یہاں تک کہ وہ لوگ ایک چٹان کے نیچے داخل ہوگئے تاکہ وہ اس کی گھات لگائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس چٹان کو ان پر گرا دیا اور ان کو کچل دیا انہوں نے کچلی ہوئی حالت میں صبح کی جیسے جیسے لوگوں کو اطلاع ہوئی۔ تو ان کی طرف چلے اور ان کو دیکھا کہ وہ سب کچلے پڑے ہیں۔ لوگ چیختے چلاتے گاؤں کی طرف لوٹے اے اللہ کے بندو ! کیا صالح اس پر راضی نہیں ہوا کہ اس نے انہیں اپنے بچوں کو قتل کا حکم دیا تو انہوں نے ان کو قتل کردیا چناچہ اونٹنی کو مارنے کے لئے بستی کے سب لوگ جمع ہوئے پھر ڈر کے مارے اس سے پیچھے ہٹ گئے مگر اس دس سالہ بچے نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی حدیث کی طرف لوٹتی ہے۔ اور فرمایا انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ صالح کے ساتھ کوئی تدبیر کریں وہ لوگ چلے یہاں تک کہ وہ صالح کے راستے میں ایک گھاٹ پر آئے۔ اور اس میں آٹھ آدمی چھپ گئے اور انہوں نے کہا جب وہ ہم پر نکلیں گے تو ہم ان کو قتل کردیں پھر ہم ان کے گھر والوں کے پاس آئیں گے اور ہم ان کے پاس رات گزاریں گے تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا تو وہ ان پر برابر ہوگئی (اور وہ زمین میں دھنس کر مرگئے) پھر وہ لوگ اکھٹے ہوئے اور اونٹنی کی طرف چلے۔ اور وہ اپنے حوض پر کھڑی ہوئی تھی ان میں سے ایک بدبخت نے کہا اس کے پاس جاؤ اور اس کی کونچیں کاٹ دے چناچہ وہ اس کے پاس گیا یہ کام اس کیلئے دشوار ہوگیا تو وہ اس کام سے رک گیا۔ اس نے دوسرا آدمی کو بلایا تو یہ کام اس کے لئے بھی دشوار ہوگیا۔ وہ جس آدمی کو بھی بھیجتے تھے تو یہ کام اس کے لئے دشوار ہوجاتا تھا یہاں تک وہ خود اس کی طرف گیا اور بڑی تیزی کے ساتھ جا کر اس کی کونچوں پر ضرب لگائی۔ جس کے نتیجہ میں اونٹنی گرگئی اور پاؤں کو زمین پر مارنے لگی تو اس دوران ان میں سے ایک آدمی کی نظر صالح پر پڑی تو آپ کو بلا کر کہا اپنی اونٹنی کو دیکھ لو اس کی کونچیں کاٹ دی گئیں۔ آپ آئے تو وہ نکل کر آپ سے ملاقات کرنے لگے اور آپ سے معذرت کرنے لگے اے اللہ کے نبی فلاں آدمی نے اس کی کونچیں کاٹی ہیں ہمارا کوئی گناہ نہیں۔ صالح نے فرمایا دیکھو کیا تم پالو گے اس کے بچے کو ؟ اگر تم نے اس کو پالیا تو قریب ہے اللہ تعالیٰ تم سے عذاب کو اٹھالیں گے وہ لوگ اس کو تلاش کرنے کے لئے نکلے۔ جب اس بچے نے اپنی ماں کو دیکھا کہ وہ تڑپ رہی ہے تو ایک پہاڑ پر آیا جس کو القارۃ قصیر کہا جاتا ہے۔ وہ بچہ اس پر چڑھ گیا۔ وہ لوگ اس کو پکڑنے کے لئے گئے تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کی طرف وحی بھیجی تو وہ آسمان کی طرف اتنا لمبا ہوگیا یہاں تک کہ اس پر پرندہ بھی نہ پہنچ سکتا تھا۔ صالح بستی میں داخل ہوئے۔ جب ان کو انٹنی کے بچے نے دیکھا تو رویا حتی کہ اس کے آنسو بہنے لگے پھر وہ صالح کی طرف توجہ ہوا۔ اور بلبلانے لگا۔ پھر دوسری دفعہ وہ بلبلایا پھر تیسیر مرتبہ بلبلایا صالح نے اپنی قوم سے فرمایا ہر بلبلانے کے بدلے ایک فوت ہے۔ تین دن تم اپنے گھروں میں نفع جو جھوٹا نہیں ہوسکتا خبردار عذاب کی نشانی یہ ہوگی کہ پہلے دن صبح کو تمہارے زرد ہوجائیں گے اور دوسرے دن سرخ ہوجائیں گے اور تیسرے دن کالے ہوجائیں گے جب وہ صبح کو اٹھے تو اچانک ان کے چہرے اس طرح زرد ہوچکے تھے گویا کہ ان پر زعفران کا طلا چڑھا دیا گیا۔ ان کے چھوٹے ان کے بڑے ان کے مرد ان کی عورتیں (سب کے چہرے اسی طرح تھے) جب شام ہوئی تو اکھٹے ہو کر چیخنے لگے کہ ایک دن موت کا گزر چکا اور تم پر عذاب آچکا ہے۔ جب دوسرے دن صبح کو اٹھے تو اچانک ان کے چہرے سرخ تھے گویا کہ خون سے رنگ دیا گیا ہو۔ وہ چیخ و پکار اور شور مچانے لگے اور رونے لگے اور سمجھ گئے کہ یہ عذاب ہے۔ جب شام ہوئی تو اکٹھے ہو کر چیخنے لگے کہ دو دن موت میں سے گزر چکے اب تمہارے پاس عذاب آچکا ہے۔ جب تیسرے دن صبح کو اٹھے تو اچانک ان کے چہرے کالے تھے گویا کہ تارکول کا طلا کردیا گیا وہ اکٹھے ہو کر چیخنے لگے کہ تم پر عذاب آچکا ہے۔ انہوں نے کفن پہن لئے اور خوشبو لگالی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کو پھیرنا شروع کیا اور وہ آسمان کی طرف کبھی دیکھتے اور کبھی زمین کی طرف دیکھتے۔ اور نہیں جانتے تھے کہ کس طرف سے ان پر عذاب آئے گا آسمان کے اوپر سے یا ان کے پاؤں کے نیچے زمین سے دھنسانے سے یا پتھر مارنے سے جب چوتھے دن صبح ہوئی تو ایک سخت آواز آسمان سے آئی اس میں سخت آواز تھی ہر قسم کی آواز بھی تھی۔ اور زمین میں بولنے والی ہر شے کی آواز بھی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے دل کٹ گئے ان کے سینوں میں اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے گرے ہوئے تھے۔ (3) امام عبد الرزاق، فریابی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابو الطفیل (رح) علیہ سے روایت کیا کہ قوم ثمود نے صالح سے کہا لے آہمارے کیلئے کوئی نشانی اگر تو سچے لوگوں میں سے ہے۔ انہوں نے فرمایا باہر نکلو وہ لوگ زمین میں سے ایک پہاڑی ٹیلہ کی طرف نکلے تو اس پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو حاملہ عورت پر درزہ کے وقت طاری ہوتی ہے۔ پھر وہ پہاڑی ٹیلہ پھٹ پڑا۔ اور اس کے درمیان میں سے ایک اونٹنی نکل آئی صالح نے ان سے فرمایا لفظ آیت ” ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ فذروھا تاکل فی ارض اللہ ولا تمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب الیم “ جب انہوں نے کہا کہ اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو پھر صالح نے فرمایا ” فقال تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام، ذلک وعد غیر مکذوب “ (یعنی تم نفع اٹھاؤ اپنے گھروں میں تین دن تک یہ اللہ کا وعدہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ (4) امام عبد الرزاق، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ صالح نے ان سے فرمایا جب انہوں نے اونٹنی کو ذبح کردیا تین دن تم فائدہ اٹھاؤ پھر ان سے فرمایا تمہارے عذاب کی نشانی یہ ہے کہ کل صبح کو تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے اور دوسرے دن سرخ ہوجائیں گے اور تیسرے دن کالے ہوجائیں گے تو اسی طرح ہوا جب تیسرا دن تھا تو انہوں نے اپنی ہلاکت کا یقین کرلیا تو کفن پہن لیے اور خوشبو لگا لی۔ پھر ان کو ایک چیخ نے پکڑا اور وہ مرگئے اور اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والے نے کہا : میں نے اس کو قتل کیا یہاں تک کہ سب لوگ راضی تھے پس وہ پردہ دار عورتوں کے پاس گئے اور ان کو کہا کیا تم اس پر راضی ہو تو انہوں نے کہا ہاں اور بچوں کے پاس بھی گئے یہاں تک کہ سب نے رضا مندی کا اظہار کردیا۔ تو انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ (5) امام احمد، بزار ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے الاوسط میں، ابو الشیخ اور حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح بھی قرار دیا اور ابن مردویہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب حجر کے مقام پر اترے تو آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اے لوگو اپنے نبی سے علامات اور معجزات کا سوال نہ کرو۔ اس لئے کہ صالح کی قوم نے اپنے نبی سے مطالبہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف کوئی نشانی بھیج دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک اونٹنی کو بھیجا وہ اس پہاڑی راستہ سے آتی تھی اور اپنی باری کے دن ان کا سارا پانی پی جاتی تھی جس دن وہ وہاں آتی تھی۔ اور وہ لوگ اس طرح اس کا دودھ دوہتے تھے جیسے اس سے پانی لے رہے ہیں اور وہ واپس جاتی تھی اس پہاڑی راستہ سے انہوں نے اپنے رب کا حکم کی نافرمانی کی اور اس کی کونچیں کاٹ دیں اللہ تعالیٰ نے تین دن کے بعد ان سے عذاب کا وعدہ کیا اور یہ وعدہ اللہ کی طرف سے تھا جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ پھر ان کے اوپر ایک کرخت چیخ آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا جو ان میں سے زمین کی مغربوں میں تھے۔ مگر ایک آدمی جو حرم شریف میں تھا (وہ بچ گیا) اللہ کے حرم نے اسے عذاب سے بچا لیا۔ کہا گیا یا رسول اللہ یہ کون تھا فرمایا یہ ابو رغال تھا جب وہ حرم سے نکلا تو اس کو بھی وہی عذاب پہنچ گیا جو اس کی قوم پر آیا تھا (6) امام ابن جریر، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابو الطفیل سے اسی طرح مرفوعا ذکر کیا۔ (7) امام احمد اور ابن منذر نے ابو کبشہ انماری (رح) سے روایت کیا کہ جب غزوہ تبوک کے وقت قوم اہل حجر کی طرف تیزی سے چلتے ہوئے ان کے پاس پہنچے۔ لوگوں میں پکارا گیا کہ نماز تیار ہے۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ فرما رہے تھے۔ کیوں وہ لوگ داخل ہوئے ہیں ایسی قوم پر کہ جن پر اللہ تعالیٰ نے غصہ فرمایا ایک آدمی نے کہا ہم تعجب کرتے ہیں ان پر یا رسول اللہ ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو اس سے زیادہ تعجب کی بات نہ بتاؤں۔ ایک آدمی تم میں سے تم کو خبر دیتا ہے ان واقعات کی جو تم سے پہلے تھے۔ اور ان کی بھی جو تمہارے بعد ہونے والے ہیں سیدھی راہ پر استقامت اختیار کرو ٹھیک ٹھیک رہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ تم پر کسی چیز کا عذاب آجائے عنقریب اللہ تعالیٰ ایسی قوم لائیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو نہیں ہٹا سکیں گے۔ اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کا واقعہ (8) امام ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ جب قوم ثمود نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرتے تھے۔ اور انہوں نے کہا تم پر لازم ہے کہ اس کے بچے کو پکڑ لو۔ وہ بچہ قارہ پہاڑ پر چڑھ گیا۔ یہاں تک کہ جب دن ہوا تو اس نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور کہا اے میرے رب میری ماں اے میرے رب میری ماں اے میرے رب میری ماں۔ اے میرے رب میری ماں تو اس وقت ان پر سخت چیخ بھیج دی گئی۔ (9) امام ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن ابی حنبل (رح) سے روایت کیا کہ جب اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی گئیں تو اس کا بچہ فرغ پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں بلبلایا جس شے نے بھی اس کی آواز کو سنا تو ہلاک ہوگئی۔ (10) امام ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ جب صالح کی قوم نے اونٹنی کو قتل کردیا تو صالح نے ان سے فرمایا عذاب تمہارے پاس آنے والا ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کی کیا نشانی ہوگی فرمایا پہلے دن صبح کو تمہارے چہرے سرخ ہوجائیں گے دوسرے دن زرد ہوجائیں گے اور تیسرے دن کالے ہوجائیں گے۔ جب پہلے دن صبح کو اٹھے تو ان کے چہرے سرخ تھے۔ جب دوسرا دن ہوا تو ان کے چہرے کالے ہوگئے ان کو عذاب آنے کا یقین ہوگیا۔ انہوں نے خوشبو لگائی اور کفن پہن لیا اور اپنے گھروں میں رہے تو جبرئیل نے ایک چیخ ماری تو ان کی روحیں چلی گئی۔ (11) امام ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے صالح کو ثمود کی طرف بھیجا۔ انہوں نے ان کو بلایا مگر انہوں نے ان کو جھٹلادیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا کہ ان کے پاس کوئی نشانی لے آؤ آپ ان کے پاس ایک اونٹنی لے آئے۔ ایک دن اس کے لئے پانی پینا مقرر تھا اور ایک دن ان لوگوں کے لئے پینا مقرر تھا۔ ان سب نے اس کا اقرار کیا۔ اس اونٹنی کے لئے پانی پینے کا ایک دن مقرر تھا۔ وہ اس میں پانی پیتی تھی۔ جو ایک نہر تھی دو پہاڑوں کے درمیان اور اس مقام سے دونوں پہاڑ بہت تنگ تھے اس نہر پر اونٹنی کا نشان قیامت تک باقی رہے گا۔ پانی پینے کے بعد وہ اونٹنی واپس آتی اور ان کے لئے کھڑی ہوجاتی یہاں تک کہ وہ لوگ دودھ کو دوہ لیتے اور ان کو خوب سیراب کردیتی۔ اور جس دن وہ لوگ پانی پیتے تو وہ ان کے پاس نہ آتی تھی۔ اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا۔ صالح نے ان سے فرمایا تمہارے ہاں اس مہینہ میں ایک بچہ پیدا ہوگا اس کے سبب تم ہلاک ہوجاؤ گے تو اس مینہ میں ان میں سے نو افراد کے گھر بچے پیدا ہوئے۔ ان لوگوں نے اپنے بیٹوں کو ذبح کرا دیا۔ پھر دسویں آدمی کے گھر بیٹا پیدا ہوا اس نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ اس کے پاس اس سے پہلے کوئی اولاد نہ تھی۔ اور دسویں کا باپ سرخ اور نیلا تھا۔ یہ بچہ بہت تیزی سے نشوونما پا تا رہا۔ جب کبھی یہ گزرتا نویں افراد کے پاس سے تو وہ اسے دیکھتے اور کہتے : اگر ہمارے بیٹے زندہ ہوتے تو اس کے مثل ہوتے۔ چناچہ یہ تمام افراد صالح پر غضب ناک اور ناراض ہوئے۔ (12) امام ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تمسوھا بسوء “ تم اس کی کونچیں نہ کاٹو۔ (13) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتنحتون الجبال بیوتا “ یعنی وہ پہاڑوں کو کھود کر گھر بنا لیتے تھے۔ (14) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعتوا عن امر ربھم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے باطل میں غلو کرنا اور فرمایا ” فاخذتھم الرجفۃ “ یعنی چیخ۔ (15) امام ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاصبحوا فی دارھم “ یعنی ہمارا لشکر اپنے اپنے گھروں میں زندہ ہوگیا۔ (16) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاصبحوا فی دارھم جثمین “ یعنی مرے ہوئے۔ (17) امام عبد حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاصبحوا فی دارھم جثمین “ یعنی وہ اپنے گھروں میں مردہ ہوگئے۔ (18) امام عبد الرزاق اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب قوم ثمود نے اونٹنی کو قتل کردیا تو اس کو بچہ بھاگا یہاں تک کہ ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور کہا اے میرے رب میری ماں کہاں ہے بلبلا رہا تھا۔ تو ایک چیخ نازل ہوئی اور اس نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ (19) امام احمد نے زھد میں عمار (رح) سے روایت کیا کہ صالح کی قوم نے اونٹنی کا سوال کیا پھر اس کے پاس آئے اور ان کی کونچیں کاٹ دیں قتل کردیا۔ اور بنی اسرائیل نے دستر خوان کا سوال کیا۔ وہ نازل ہوا مگر انہوں نے اس کا انکار کیا اور بلاشبہ تمہاری آزمائش دینار اور درہم میں ہے۔ (20) امام ابو الشیخ نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ جب صالح نے نجات پائی اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے۔ فرمایا اے میری قوم یہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں اس کے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور عذاب نازل ہوا ہے۔ لہٰذا تم یہاں سے کوچ کر جاؤ اور اللہ کے حرم اور ان کے امن کے ساتھ مل جاؤ۔ پس اس وقت میں انہوں نے حج کا چاند دیکھا اور چل پڑے۔ یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے پھر یہیں قدیم رہے یہاں تک کہ مقدس شہر میں فوت ہوگئے ان کی قبریں کعبہ کے غربی جانب میں ہیں۔
Top