Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 99
اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ١ۚ فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
اَفَاَمِنُوْا : کیا وہ بےخوف ہوگئے مَكْرَ : تدبیر اللّٰهِ : اللہ فَلَا يَاْمَنُ : بےخوف نہیں ہوتے مَكْرَ اللّٰهِ : اللہ کی تدبیر اِلَّا : مگر الْقَوْمُ : لوگ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ اٹھانے والے
کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے نڈر ہوگئے۔ سو اللہ کی تدبیر سے بےخوف نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جن کو برباد ہونا ہی طے پاچکا ہو
(1) امام ابن ابی حاتم نے ہشام بن عروہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنے دوست کی طرف لکھا کہ جب اللہ تعالیٰ سے اس چیز کو پائے جو تیرے لئے خوشی کا باعث ہو امن میں نہ ہوجا کہ شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خفیہ تدبیر ہو۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تبارک نے فرشتوں سے فرمایا یہ کیا ڈرنا ہے حالانکہ میں نے تم کو اس مقام اور مرتبہ پر فائز کیا جس پر تمہارے علاوہ کسی کو نہیں کیا فرشتوں نے عرض کیا اے ہمارے رب ہم امن میں نہیں ہیں آپ کی خفیہ تدبیر سے اور آپ کی تدبیر سے نہیں امن میں ہوتی مگر وہ قوم جو خسارہ پانے والی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بےخوف نہ ہونا (3) امام عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں علی بن ابی حلیمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ذربن عبد اللہ خولانی (رح) سے روایت کیا کہ جب عشاء کی نماز پڑھتے تو مسجد ہی میں پڑے رہتے۔ جب مسجد سے نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس آیت کو بلند آواز سے پڑھتے یعنی لفظ آیت ” فلا یامن مکر اللہ الا القوم الخسرون “۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے اسماعیل بن رفع ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے امن میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا گناہ پر قائم ہونا حالانکہ وہ اللہ پر مغفرت کی امید رکھتا ہے۔
Top