Dure-Mansoor - Nooh : 23
وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا١ۙ۬ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاۚ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَا تَذَرُنَّ : نہ تم چھوڑو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے ا لہوں کو وَلَا : اور نہ تَذَرُنَّ : تم چھوڑو وَدًّا : ود کو وَّلَا سُوَاعًا : اور نہ سواع کو وَّلَا يَغُوْثَ : اور نہ یغوث کو وَيَعُوْقَ : اور نہ یعوق کو وَنَسْرًا : اور نہ نسر کو
اور انہوں نے کہا کہ اپنے معبودوں کو ہرگز مت چھوڑو اور ہرگز مت چھوڑو ود کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اور سر کو
7۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے آیت ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا یغوث ویعوق ونسرا۔ اور ہرگز نہ چھوڑو ود کو، سواع کو، یغوث کو، یعوق کو اور نسر کو۔ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر، تمام بت ہیں کہ نوح کے زمانہ میں جن کی عبادت کی جاتی تھی۔ 8۔ بخاری وابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ بت اور معبودان باطلہ جو نوح ﷺ کی قوم میں تھے وہی بعد میں عرب میں آگئے۔ ود دومۃ الجندل کے قبیلہ بنی کلب کا بت تھا اور سواع ہذیل والوں کا بت تھا اور یغوث بنی مراد قبیلہ کے لیے تھا پھر بنی غطیف کے لیے سبا کے پاس تھا۔ اور یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ اور نسر آل ذی الکلاع کے قبیلہ حمیر کے لیے تھا۔ اور یہ سب قوم نوح میں سے نیک لوگوں کے نام تھے۔ جب یہ نیک لوگ فوت ہوئے تو شیطان نے ان کی قوم کو حکم دیا کہ وہ لوگ جہاں بیٹھا کرتے تھے وہ ان مقامات پر ان کے مجسمے نصب کردیں اور انہیں کے ناموں کے ساتھ ان کے نام رکھ دیں تو انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی یہاں تک کہ جب یہ لوگ مرگئے اور علم اٹھ گیا تو ان کی عبادت کی جانے لگی۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) بیمار ہوئے تو ان کے پاس ان کے بیٹے۔ ود، یغوث یعوق، سراع اور نسر موجود تھے اور وہ ان میں بڑا تھا اور سب سے بڑھ کر متقی اور نیک تھا۔ 10۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن مردویہ نے ابو عثمان (رح) سے روایت کیا کہ میں نے یغوث بت کو دیکھا جو شیشہ کا ایک بت تھا۔ اسے ننگے اونٹ پر اٹھایا جاتا تھا۔ جب وہ بیٹھ جاتا تو کہتے یقینی بات ہے کہ تمہارا رب اس منزل پر راضی ہوگیا۔ 11۔ الفاکہی نے عبیداللہ بن عبید بن عمیر رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں سب سے اول جو بت بنائے گئے تھے وہی اس طرح کہ بیٹے اپنے آباء کی اطاعت کرتے تھے۔ پھر ایک آدمی ان میں سے مرگیا تو اولاد پر گراں گزرا اور وہ اس صدمہ پر صبر نہیں کرسکا۔ تو اس نے اس کی صورت پر ایک مجسمہ بنا لیا جب بھی اسے دیکھنے کا شوق ہوتا تو اس کو دیکھ لیتا پھر وہ مرگیا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا جیسے اس نے کیا تھا پھر سب اس پر چلنے لگے جب آباء چلے گئے تو بیٹوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہمارے آباء نے یہ اس لیے بنائے تھے کہ یہی ان کے معبود تھے۔ چناچہ وہ ان کی عبادت کرنے لگے۔ 12۔ عبد بن حمید نے محمد بن کعب ؓ سے آیت ولا یغوث ویعوق ونسرا۔ وقد اضلوا کثیرا۔ اور تم نہ چھوڑو یغوث کو یعوق کو اور نسر کو۔ اور ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا کے بارے میں روایت کیا کہ یہ نیک اور صالح لوگوں کی ایک جماعت تھی حضرت آدم اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان زمانہ میں پھر ان کے بعد ایک قوم پیدا ہوئی تو وہ اسی طرح کرنے لگے جیسے وہ عبادت میں کرتے تھے ان کو ابلیس نے کہا گر تم ان کی تصویریں بنا لو۔ تم ان کی طرف دیکھتے رہوگے۔ تو انہوں نے تصویریں بنالیں پھر وہ مرگئے پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اور قوم کو پیدا فرمایا۔ ان کے بعد ابلیس نے ان سے کہا کہ وہ لوگ جو تم سے پہلے تھے ان کی عبادت کرتے تھے تو وہ بھی ان کی عبادت کرنے لگے۔ حضرت آدم ﷺ کے پانچ صلبی بیٹے 13۔ ابو الشیخ نے العظمہ میں محمد بن کعب قرضی (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کے پانچ بیٹے تھے۔ ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر، اور بہت عبادت کرنے والے تھے ان میں سے ایک آدمی مرگیا اس پر وہ سخت غمگین ہوئے۔ شیطان ان کے پاس آیا اور کہا اپنے اس ساتھی کی موت پر تم غمزدہ ہو ؟ انہوں نے ہا ! شیطان نے کہا کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ میں تمہارے لیے اس طرح کی ایک تصویر بنادوں تمہارے قبیلہ میں جب تم اس کی طرف دیکھو گے تو تم اس کو یاد کرلو گے ؟ انہوں نے کہا ہم ان کو ناپسند نہیں کریں گے کہ تو ہمارے یے ہمارے قبلہ میں کوئی چیز بنادے کہ ہم جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ شیطان نے کہا میں اس کو مسجد کے آخر میں بنا دوں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے تو شیطان نے ان کے لیے ایک تصویر بنا دی۔ یہاں تک کہ وہ پانچوں فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی تصویریں مسجد کے پچھلے حصہ میں بنادیں۔ پھر اس نے ایسی چیزیں نکالیں یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کی عبادت کو چھوڑدیا۔ اور ان بتوں کی عبات کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو نبی بناکر بھیجا تو ان لوگوں نے کہا آیت ولا تذرن ودا آیت کے آخرتک۔ 14۔ عبد بن حمید نے ابو مطہر (رح) سے روایت کیا کہ ابو جعفر یزید بن مہب رحمہم اللہ کے پاس ان کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جس زمین میں سب سے پہلے قتل ہوا۔ اسی میں غیر اللہ کی عبادت کی گئی۔ پھر انہوں نے ود کا ذکر کیا اور کہا کہ ود ایک مسلمان آدمی تھا اور وہ اپنی قوم میں محبوب تھا۔ جب وہ مرگیا تو اس کی قبر کے ارد گرد لوگ اکٹھے ہوئے بابل کی زمین میں اور اس پر غم کرنے لگے۔ جب ابلیس نے ان کی گھبراہٹ یعنی بےصبری کو دیکھا تو انسانی صورت بنا کر ان کے پاس آیا اور کہا میں اس پر تمہاری جزع فزع دیکھ رہا ہوں کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہارے لیے اس طرح کی ایک تصویر بنادوں۔ پس وہ تمہاری مجلسوں میں ۃ وگی تو تم اس کے ذریعہ اس کو یاد کرتے رہو گے انہوں نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے تو اس نے ان کے لیے ایک تصویر بنا دی۔ تو ان لوگوں نے اس کو اپنی مجلسوں میں رکھ دیا اور اس کا ذکر کرنے لگے پس جب شیطا نے اس کے ذریعہ ان کے اس ذکر کو دیکھا تو کہنے لگا کیا تم یہ پسند کرو گے کہ میں تم میں سے ہر آدمی کے گھر میں تمہارے لیے اس طرح کا مجسمہ بنادوں جو تمہارے گھر میں ہوگا تو تم اس کو یاد کرتے رہو گے انہوں نے کہا ہاں۔ پس اس نے ہر گھر والے کے لیے اس کی مثل ایک مجسمہ بنادیا پس وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے سبب اس کا ذکر کرنے لگے راوی کا قول ہے اس کے بیٹوں نے اس کا ادراک کیا اور وہ سب کچھ دیکھتے رہے و کچھ وہ اس کے ساتھ کرتے تھے نسل بڑھنے لگی، انہوں نے اس کے ذکر کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ان کو خدا بنالیا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ان کی عبادت کرنے لگے۔ اور سب سے پہلے جس کی زمین میں عبادت کی جانے لگی وہ ود بت تھا جس کا نام انہوں نے ود رکھا تھا۔ 15۔ عبد بن حمید نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہیں یہ کئی بار کہتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ولا یغوث ویعوق ونسرا کے بارے میں کہ یہ ان کے معبودوں کے نام ہیں۔ 16۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا۔ وولدہ واؤ کے نصب کے ساتھ آیت ولا تذرن ودا واو کے نصب کے ساتھ ولا سواعا سین کے نصب کے ساتھ۔ حضرت آدم اور نوح (علیہما السلام) کی حسرت 17۔ ابن عساکر نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ مخلوق میں سے کسی ایک نے ایسی حسرت نہیں کی جیسے آدم اور نوح (علیہما السلام) نے حسرت کی۔ آدم (علیہ السلام) کو تو حسرت اور افسوس اس وقت ہوا جب وہ جنت سے نکالے گئے اور نوح (علیہ السلام) کو حسرت اور افسوس اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تو کوئی چیز باقی نہ رہی۔ سوائے ان افراد کے جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے غم کو دیکھا تو ان کی طرف وحی بھیجی اے نوح ! افسوس نہ کر کیونکہ تیری دعا میری تقدیر کے موافق ہے۔
Top