بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک ! انسان پر ایک ایسا وقت آچکا ہے جس میں وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
1۔ النحاس نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة انسان مکہ میں نازل ہوئی۔ 2۔ ابن مردویہ نے ابن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ سورة ہل اتی علی الانسان مکہ میں نازل ہوئی۔ 3۔ ابن الضریس وابن مردویہ والبیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة الانسان مدینہ میں نازل ہوئی۔ لا الہ الا اللہ کے اقرار پر جنت کا وعدہ 4۔ طبرانی وابن مردویہ وابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حبشہ سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو اس کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوال کر اور پوچھ تو اس نے کہا یا رسول اللہ ! تم ہم پر فضیلت دئیے گئے۔ رنگ میں شکل و صورت اور نبوت میں۔ آپ بتائیے اگر میں اس پر ایمان لے آؤں۔ اور میں اس طرح عمل کروں جیسے آپ کرتے ہیں کیا میں آپ کے ساتھ جنت میں ہوجاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلاشبہ جنت میں سیاہ آدمی کی سفیدی ایک ہزار سال کے فاصلے سے دیکھی جائے گی پھر فرمایا جس نے کہا لا الہ الا اللہ۔ تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور جس نے کہا ” سبحان اللہ وبحمدہ “ تو اس کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور پھر آپ پر یہ سورة نازل ہوئی آیت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر سے آیت وملکا کبیرا تک۔ تو حبشی نے کہا اور میری آنکھ البتہ وہی دیکھے گی جو آپ کی جنت میں دیکھے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پس وہ بیمار ہوا یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کرگئی۔ ابن عمر ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے ہاتھوں مبارک سے اسے قبر میں اتارتے ہوئے دیکھا۔ 5۔ احمد نے الزہد میں محمد بن مزرط (رح) سے روایت کیا کہ مجھے ایک ثقہ آدمی نے بیان کیا کہ ایک سیاہ رنگ والے آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے تسبیح اور تہلیل کے بارے میں سوال کیا۔ تو عمر بن خطاب ؓ نے اس سے فرمایا ٹھہر جا تو نے رسول اللہ ﷺ پر سوالات کی کثرت کردی۔ تو اس نے جواب دیا اے عمر ! رک جا۔ تو یہ سورت۔ آیت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر لم یکن شیئا مذکورا۔ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہویء۔ یہاں تک کہ جب آپ جنت کے ذکر پر پہنچے۔ تو اس سیاہ رنگ والے آدمی نے لمبی آہ بھری اور اس کی جان نکل گئی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ آدمی جنت کی طرف شوق کرتے ہوئے مرگیا۔ جنت کے شوق میں جان نکلنا 6۔ ابن وہب نے ابن زید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر پڑھی۔ اور ہی سورة آپ پر جب نازل کی گئی تو ایک سیاہ رنگ والا آدمی آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ جب آپ جنت کی صفات والی آیات پر پہنچے تو اس آدمی نے ایک لمبی آہ بھری اور اس کی جان نکل گئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے ساتھی کی جان جنت کی طرف شوق سے نکل گئی۔ 7۔ الحاکم وصححہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت آیت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر پڑھی۔ یہاں تک کہ اس کو ختم فرمایا پھر فرمایا بیشک میں وہ دیکھتا جو تم نہیں دیکھتے۔ اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ آسمان چڑچڑایا۔ اور اس کے لیے حق ہے کہ وہ چڑچڑائے۔ چار انگلیوں کے برابر اس میں کوئی جگہ خالی نہیں۔ مگر کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ کے لیے سجدہ نہ کر رہا ہو۔ اللہ کی قسم ! اگر تم جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تھوڑے ہنستے اور زیادہ روتے اور تم عورتوں کے ساتھ بستروں پر لطف اندوز نہ ہوئے۔ اور البتہ تم پہاڑوں کی جانب پناہ لینے کے لیے نکل جاتے۔ 8۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے آیت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر کے بارے میں روایت کیا کہ یعنی انسان پر ضرور ایک ایسا وقت بھی آیا ہے۔ آیت لم یکن شیئا مذکورا جبکہ یہ کوئی قابل شے نہ تھا۔ پھر فرمایا کہ انسان یہاں نیا پیدا کیا گیا اور انسان کے سوا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کے بارے میں نہیں جانتا جس کی تخلیق اس کے بعد ہو۔ 9۔ ابن المبارک وابو عبید فی فضائلہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کو آیت اہل اتی علی الانسان حین من الدہر لم یکن شیئا مذکورا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کاش یہ مکمل ہوتی۔ 10۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کو یہ آت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر لم یکن شیئا مذکور اتلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا اے کاش یہ مکمل ہوتی اور پھر آپ کو اس قول کے بارے میں عتاب کیا گیا۔ تو آپ نے زمین سے ایک لکڑی اٹھائی اور فرمایا کاش کہ میں اس طرح ہوتا۔ 11۔ عبدالرزاق وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے آیت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر کے بارے میں روایت کیا کہ بیشک مخلوق میں آدم (علیہ السلام) کو سب سے آخر میں پیدا کیا گیا۔ 12۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے آیت ل اتی علی الانسان کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے ہر انسان مراد ہے۔ 13۔ عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ زمانے میں ایک ایسا وقت تھا جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ہل اتی علی النسان حین من الدہر لم یکن شیئا مذکورا۔ اللہ کی قسم وہ نہیں جانتا اس پر کتنا وقت گزرا یہاں تک کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمادیا۔ 14۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت آیت ہل اتی علی الانسان حین من الدہر لم یکن شیئا مذکورا کی تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا تیری عزت کی قسم ! اے میرے رب تو نے اس کو سننے والا۔ دیکھنے والا بنایا اور اسے زندگی اور موت عطا فرمائی۔
Top