بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
یہ لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرے ہیں۔ آپ فرما دیجئے کہ انفال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو، اور آپس میں تعلقات کو درست کرو، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو۔
1:۔ ابن ابی شعبہ واحمد وابن جریر وابن مردویہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ جب بدر کا دن تھا میرا بھائی عمیر قتل کردیا گیا اور میں نے سعید ابن عاص کو قتل کردیا اور اس کی تلوار لے لی جس کو ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا میں رسول ﷺ کے پاس اس کو لے کر آیا آپ نے فرمایا جاؤ اور اس کو مال مقبوض (یعنی مال غنیمت) میں ڈال دو میں لوٹ آیا اور جو کچھ میرے ساتھ سازوسامان تھا اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا میرے بھائی کے قتل اور میرے مال کو لینے کے بارے میں، میں تھوڑا سا چلا تھا حتی کہ سورة انفال نازل ہوئی مجھ کو رسول ﷺ نے فرمایا چلا جا اور اپنی تلوار کو لے لے۔ 2:۔ احمد وابوداود والترمذی (اور اس کو صحیح کہا ہے) و نسائی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والحاکم نے (اس کو صحیح کہا ہے) والبیہقی نے اپنی سنن میں سعد ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ نے آج کے دن مجھے مشرکین سے نجات عطا فرمائی ہے یہ تلوار مجھے دے دیجئے آپ نے فرمایا یہ تلوار نہ تیرے لئے ہے نہ میرے لئے ہے اس کو رکھ دو میں نے اس کو رکھ دیا پھر میں لوٹ آیا میں نے دل میں کہا قریب ہے یہ تلوار آج اس شخص کو دے دی جائے گی جو میری طرح کی مصیبت میں نہیں آزمایا گیا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک آدمی مجھ کو پکاررہا تھا۔ میں نے پوچھا کیا کسی چیز کا حکم نازل ہوا ہے۔ تو آپ نے فرمایا تو نے اس تلوار کے بارے میں پوچھا ہے لیکن وہ میری نہیں ہے اب بیشک وہ مجھے عطا کی گئی ہے لہذا اب یہ تیرے لئے ہے تو اللہ تعالیٰ ۔ نے (یہ آیت) اتاری۔ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول “۔ 3:۔ ابن منذر اور ابن مردویہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئیں۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک، مال غنیمت تہائی حصہ کے بارے میں اور شراب کے حرام ہونے کے بارے میں۔ 4:۔ طیالسی نے اور بخاری نے الادب المفرد میں اور مسلم نے اور نحاس نے اپنی ناسخ میں اور ابن مردویہ نے اور بہیقی نے شعب میں سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ میرے بارے میں چار آیتیں قرآن مجید میں نازل ہوئی میری ماں نے قسم کھالی کہ وہ نہ کھائے گی نہ پیئے گئی یہاں تک کہ تو محمد ﷺ سے جدا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” وان جاھدک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم، فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا “۔ (لقمان آیت 15) اور دوسرا کہ میں نے ایک تلوار لے لی تھی جو مجھ کو پسند تھی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھ کو یہ تلوار دیے دیجئے تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ اور تیسرا یہ کہ میں بیمار ہوں ! میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے میں نے کہا یارسول اللہ میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنے مال کو تقسیم کردوں۔ تو میں آدھے کی وصیت کروں ؟ فرمایا نہیں میں نے عرض کیا تہائی کی وصیت کرودں ؟ آپ خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد تہائی جائز ہوگیا۔ اور چوتھی آیت کا یہ سبب بنا کہ میں نے انصار میں سے ایک قوم کے ساتھ شراب پی ان میں سے ایک آدمی نے میرے ناک پر اونٹ کی ہڈی دے ماری تو رسول اللہ ﷺ کے پاس میں آیا تو اللہ تعالیٰ نے شراب کے حرام ہونے کا حکم نازل فرمایا۔ 5:۔ عبدبن حمید اور نحاس اور ابوالشیخ نے اور ابن مردویہ نے سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کثیر تعداد میں مال غنیمت آیا اس میں ایک تلوار تھی میں نے اس کو لے لیا اور میں اس کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ میں نے عرض کیا یہ تلوار مجھے عنایت فرمادیجئے کیونکہ میں اس کے بارے میں جانتا ہوں آپ نے فرمایا اس کو واپس کردو جہاں سے تو نے اس کو لیا ہے میں اس کو لیا ہے میں اس کو لے کر واپس چلا گیا یہاں تک کہ جب میں نے اس کو مال مقبوض میں ڈالنے کا ارادہ کیا میرے دل نے مجھے روک لیا میں آپ کی طرف دوبارہ لوٹ آیا میں عرض کیا اس کو آپ مجھے عطا فرما دیں۔ آپ نے اپنی سخت آواز میں فرمایا اس کو واپس کردو جہاں سے تو نے اس کو لیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ کو نازل فرمایا۔ 6:۔ ابن مردویہ نے سعد ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن مجھے ایک تلوار عطا فرمائی اور حکم نازل ہوا۔ غنیمت کے مال کے بارے میں۔ مال غنیمت میں خیانت گناہ ہے : 7:۔ طیالسی نے اور ابونعیم نے معرفۃ میں مصعب ابن سعد کے راستہ سے سعد ؓ سے روایت کیا کہ بدر کے دن مجھے ایک تلوار ملی میں اس کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کو مجھے عطا فرما دیجئے آپ نے فرمایا اس کو رکھ دو جہاں سے تم نے لی۔ تو یہ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، نازل ہوئی اور یہ عبداللہ کی اسی طرح قرات ہے ”(آیت) ” الانفال “۔ 8:۔ احمد اور عبد حمید اور ابن جریر اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ اور حاکم نے اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عبادہ بن صامت ؓ سے انفال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا (یہ آیت) ہمارے درمیان نازل ہوئی جب اصحاب بدر نے مال غنیمت کے بارے میں اختلاف کیا اس میں ہمارا اختلاف برا ہوا (یعنی ہمارا اختلاف مناسب نہ رہا) اللہ تعالیٰ نے اس کو ہمارے ہاتھوں سے لے لیا اور اس کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم فرما دیا۔ 9:۔ سعید بن منصور اور احمد اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بہیقی اور مردویہ نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور میں بھی آپ کے ساتھ بدر میں حاضر ہوا مسلمانوں کا کافروں سے مقابلہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی۔ ایک گروہ نے شکست خوردہ لشکر کا تعاقب کیا کسی کو قید اور کسی کو قتل کرنے لگے۔ دوسرا گروہ میدان پر چھا گیا اور مال غنیمت جمع کرنے لگا اور تیسرے گروہ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھیرے میں لے لیا تاکہ دشمن دھوکہ سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے یہاں تک کہ جب رات ہوئی تو لوگ لوٹ کر آپس میں ایک دوسرے سے ملے تو جن لوگوں نے مال غنیمت جمع کیا تھا ان لوگوں نے کہا مال ہم نے جمع کیا ہے اس لئے ہمارے سوا کسی اور کا اس پر حصہ نہیں ہے۔ اور ان نے کہا جو دشمن کی تلاش میں نکلے تھے انہوں نے کہا ہم سے زیادہ کوئی حق دار نہیں ہم نے دشمن کو بھگایا۔ اور ان کو شکست دی۔ اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو گھیرے میں لئے رکھا ہم سے زیادہ کوئی حق دار نہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھیرے میں لئے رکھا اور ہم نے خوف کیا کہ دھوکہ سے کوئی دشمن آپ کو نہ پہنچ جائے۔ اور ہم آپ کی حفاظت میں لگے رہے تو (یہ آیت) (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول، فاتقوا اللہ واصلحو ذات بینکم “۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس مال غنیمت کو مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا۔ اور رسول اللہ ﷺ جب دشمن کی زمین میں دھاوا بولتے تو چوتھائی مال دینے کا اعلان کرتے اور جب واپس پلٹ کر آتے تو ایک مال غنیمت لوگوں کے سپرد کرتے۔ اور آپ مال غنیمت کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے طاقت ور مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے کمزوروں پر (مال غنیمت) کو لوٹا دیں۔ 10:۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اللہ تعالیٰ نے اس کو فتح دی ان کی مدد فرمائی اور وہ دشمن پر فتح یاب ہوئے۔ جو شخص کوئی سامان لے آتا تو اسے خمس میں سے عطا فرما دیتے۔ پھر جو لوگ لوٹ کر آئے جو آگے بڑھ گئے تھے اور وہ دشمن کو قتل کرتے تھے ان کو قیدی بناتے تھے لیکن انہوں نے غنیمت کے مال کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا تو انہوں نے غنیمت کے مال میں سے کچھ نہ پایا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ان لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ دشمن کی طرف سے آگے بڑھ گئے۔ اور اس کو قیدی بنایا۔ اور کچھ لوگ پیچھے رہ گئے جو جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ مگر آپ نے ان کو غنیمت عطا فرمادیا۔ رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ اور (یہ آیت) (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلاکر فرمایا جو تم نے لیا ہے وہ واپس کردو اور تم اس کو تقسیم کرو انصاف اور برابری کے ساتھ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کا حکم دیتے ہیں انہوں نے کہا ہم اس کا حساب کرلیں اور کھالیں ؟ آپ نے فرمایا اس کا حساب کرلو۔ مال غنیمت کی حلت : 11:۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے عمرو بن شعیب ؓ سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ بدر کے دن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھا۔ تو (یہ آیت) (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، نازل ہوئی۔ 12:۔ ابن مردویہ (رح) نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت ” یسئلونک عن الانفال، نازل ہوئی۔ نازل ہونے کے بعد غنیمت میں سے زائد تحفہ نہیں دیا مگر خمس میں سے کیونکہ آپ نے خیبر کے دن خمس میں سے زائد تحفہ دیا :۔ 13:۔ ابن مردویہ (رح) نے حبیب بن مسلمہ الفہری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک تہائی عطا کرنے کا اعلان فرماتے تھے خمس کے بعد۔ 14:۔ ابن ابی شیبہ اور ابوداود اور نسائی اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن حبان اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب بدر کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی آدمی کو قتل کیا تو اتنا اور اتنا اس کے لئے ہوگا اور جس شخص نے کسی قیدی کو قید کیا تو اس کے لئے اتنا اور اتنا ہواگ بوڑھے لوگ جھنڈوں کے نیچے کھڑے رہے اور جو نوجوان لوگ تھے وہ تیزی سے قتل اور غنیمت کی طرف بڑھے بوڑھے لوگوں نے نوجوانوں سے کہا ہم کو اپنے ساتھ شریک کرلو بلاشبہ ہم تمہارے لئے مددگار ہیں اگر کسی کو کوئی تکلیف لاحق ہوتی تو ضرور تم ہماری طرف ہی پناہ لیتے۔ تو یہ دونوں (فریق) رسول اللہ ﷺ کی طرف اپنا جھگڑالے گئے تو (یہ آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول “۔ نازل ہوئی تو آپ غنیمتوں کو ان کے درمیان برابر برابر تقسیم فرما دیا۔ امام کی طرف انعام کا اعلان : 15:۔ عبدالرزاق نے منصف میں اور عبدبن حمید اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب بدر کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مقتول کو قتل کرے گا اس کے لئے اتنا ہوگا۔ اور جو شخص کسی قیدی کو لے کر آئے گا اس کے لئے اتنا ہوگا الیسری بن عمر والا انصاری دو قیدی لے کر آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا یارسول اللہ اگر آپ نے ان لوگوں کو (غنیمت کا مال) دیا تو آپ کے اصحاب کے لئے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ بیشک ہم کو بےرغبتی نے اس سے نہیں روکا۔ اور نہ بزدلی نے ہم کو دشمن سے باز رکھا۔ ہم اس جگہ پر صرف آپ کی حفاظت کے لئے کھڑے رہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے پیچھے سے حملہ آور ہوجائیں تو (اس طرح سے) انھوں نے آپس میں جھگڑا کیا تو قرآن نازل ہوا۔ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، اور عبد اللہ کے اصحاب اس کو یوں پڑھتے تھے۔ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول۔ فاتقوا واصلحوا ذات بینکم فیما تشاجر تم بہ “ تو انہوں نے مال غنیمت کو رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیا پھر قرآن میں نازل ہوا (آیت) ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ “ آیت کے آخر تک۔ 16:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فوجی دستہ بھیجا تو ضعیف لوگ لشکر میں ٹھہر گئے فوجی دستہ والوں نے غنیمت کا مال پایا رسول اللہ ﷺ نے سارے مال کو ان کے درمیان تقسیم فرمادیا فوجی دستے والوں نے کہا کہ ان ضعفاء میں مال کو تقسیم کردیا گیا اور لشکر میں یہ لوگ ہمارے ساتھ نظر نہیں آئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے ضعفاء کی وجہ سے مدد کئے جاتے ہو تو اللہ نے (یہ آیت) اتاری (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ 17:۔ ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بدر سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورة انفال کو نازل فرمایا اور بدری غنیمت کے حلال کرنے میں عتاب فرمایا اور یہ اس وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو اپنے اصحاب کے درمیان تقسیم فرما دیا تھا جب ان کو اس کی طرف حاجت تھی اور مال غنیمت کے بارے میں ان لوگوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول۔ فاتقوا واصلحوا ذات بینکم اطیعوا اللہ ورسولہ ان کنتم مومنین (1) “۔ تو اللہ تعالیٰ نے (مال غنیمت کو) اپنے رسول پر لوٹا دیا تو آپ نے اس کو برابری کی بنیاد پر تقسیم فرمایا اور اس میں اللہ کا خوف اور اس اطاعت ہے اور اس کے رسول کی اطاعت بھی اور اپنے معاملات کی اصلاح بھی ہے۔ 18:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ان لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے پانچ حصوں میں سے چار کے بعد پانچویں کے بارے میں پوچھا تو (یہ آیت) ” یسئلونک عن الانفال، نازل ہوئی۔ 19:۔ عبد بن حمید نے عکرمۃ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ بدلہ کے دن نازل ہوئی۔ 20:۔ نحاس نے اپنی ناسخ میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ سعد ؓ اور انصار میں ایک آدمی دنوں مال غنیمت کی تلاش میں نکلے دونوں نے ایک تلوار پر پڑی ہوئی پائی۔ (اس کو لینے کے لئے) دونوں اکھٹے اس پر گرپڑے۔ سعد ؓ نے کہا یہ میری ہے انصاری نے کہا یہ میری ہے اس نے کہا میں نہیں دوں گا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آوں گا۔ دونوں آپ کے پاس آئے اور قصہ بیان کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے سعید نہ یہ تیرے لئے ہے اور انصاری کے لئے ہے لیکن میرے لئے ہے۔ تو (یہ آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول۔ فاتقوا واصلحوا ذات بینکم اطیعوا اللہ “ دونوں نے تلوار رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردی۔ پھر یہ آیت منسوخ ہوگئیں اور فرمایا ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل “۔ 21:۔ مالک اور ابن ابی شیبہ اور بخاری اور مسلم اور نحاس نے اپنی ناسخ میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا بہت اونٹ انہوں نے غنیمت میں پائے ان میں سے ہر ایک کے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور ایک ایک اونٹ بطور زائد تحفہ کے ان کو دیا گیا۔ 22:۔ ابن عساکر نے مکعول کے راستے سے حجاج بن سہیل نصری سے روایت کیا کہ بعض نے کہا وہ صحابی تھے انہوں نے کہا جب بدر کا دن تھا مسلمانوں میں سے ایک جماعت نے قتال کیا اور ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹھہری رہی۔ جس جماعت نے قتال کیا وہ چھینی ہوئی چیزیں اور دوسری چیزیں لے کر آئے جن تک وہ پہنچ سکے مال غنیمت کو ان کے درمیان تقسیم کردیا گیا اور اس جماعت میں تقسیم نہیں کیا گیا۔ جس نے قتال نہیں کیا تھا۔ اس جماعت نے کہا جس نے قتال نہیں کیا تھا کہ ہمیں بھی حصہ دیجئے۔ تو انہوں نے انکار کردیا اور اس بارے میں ان کے درمیان جھگڑا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول۔ فاتقوا واصلحوا ذات بینکم “۔ نازل فرمائی اور ان کے درمیان اپنے معاملات کی اصلاح ہوگئی کہ وہ ان چیزوں کو واپس کردیں جو ان کو دی گئیں ان بنیاد پر کہ انہوں نے (دشمن سے) لی تھیں۔ 23:۔ ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور مردویہ اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، قل الانفال للہ والرسول “۔ کے بارے میں روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ انفال سے مراد ہے غنیمتیں یہ رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص ہیں ان میں سے کوئی چیز کسی کے لئے نہیں ہے۔ مسلمانوں کا لشکر جو چیز بھی حاصل کریں آپ کے پاس لے آئیں اور جس نے اس میں ایک سوئی یا دھاگہ اس میں سے لیا اس نے خیانت کی ان لوگوں نے یہ آیت اتاری۔ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ مال میرے لئے ہے اور اس کا مالک رسول اللہ ﷺ کو بنایا۔ تمہارے لئے اس میں سے کوئی چیز نہیں (پھر فرمایا) (آیت) فاتقوا واصلحوا ذات بینکم سے لے کر ” ان کنتم مومنین “ تک پھر اللہ تعالیٰ نے اتارا ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ الآ یہ پھر اس خمس کو رسول اللہ ﷺ نے رشتہ داروں یتیموں مسکینوں اور اللہ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں میں تقسیم کردیا اور پانچ میں سے چار حصے لوگوں میں برابر تقسیم کردیئے۔ اس طرح گھوڑے کے لئے دو حصے اور اس کے مالک کے لئے ایک حصہ اور پیدل کے لئے بھی ایک حصہ رکھا۔ 24:۔ ابوعبید اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا (آیت) ” یسئلونک عن الانفال، سے مراد ہے غنیمتیں پھر اس حکم کو ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ سے منسوخ کردیا (الآیہ) 25:۔ مالک اور ابن شیبہ اور ابوعبید اور عبد بن حمید اور ابن جریر نے نحاس اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے قاسم بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ایک آدمی کو ابن عباس ؓ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہوئے سنا۔ تو انہوں نے فرمایا گھوڑا بھی مال غنیمت میں سے ہے (دشمن سے) چھینا ہوا ( مال) بھی غنیمت میں سے ہے اس نے دوبارہ مسئلہ کو لوٹایا تو ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ اسی طرح ہے پھر آدمی نے کہا اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتاب میں انفال فرمایا وہ کیا ہے ؟ وہ برابر اس کا سوال کرتا رہا۔ یہاں تک قریب تھا وہ ان کو تنگ کردیتا۔ ابن عباس نے فرمایا یہ مثال اس صبیغ کی ہے جس کو عمر ؓ نے مارا تھا اور دوسرے لفظ میں یوں فرمایا تجھے اس کی زیادہ حاجت اور ضرورت ہے جو تجھے مارے۔ جیسے عمر ؓ نے صبیغ العراقی کے ساتھ کیا۔ اور حضرت عمر ؓ نے اس کو مارا تھا یہاں تک کہ اس کی ایڑیوں پر خون بہنے لگا۔ 26:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا ” الانفال “ سے مراد ہے غنیمتیں حکم دیا گیا کہ اس بارے میں باہمی تعلقات کی اصلاح کریں پس طاقتور کمزور کو لوٹا دے۔ 27:۔ عبد بن حمید اور نحاس اور ابن منذر اور ابن جریر اور ابو الشیخ نے عطا (رح) سے (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “ کے بارے میں روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ یہ وہ مال ہے جو مسلمان بغیر لڑائی کے مشرکین سے حاصل کریں غلام میں سے جانور میں سے یا دوسرے سامان میں سے اور یہ نبی ﷺ کے لئے ہے وہ جو چاہیں کریں۔ 28:۔ ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے محمد بن عمر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے سعید بن مسیب (رح) کی طرف ” الانفال “ کے بارے میں پوچھنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے فرمایا تم مجھ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نفل نہیں ہے۔ 29:۔ عبد الرزاق نے مصنف میں ابن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ غنیمت میں زائد تحفہ دیتے تھے مگر خمس میں سے۔ 30:۔ عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے ابن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ (یعنی صحابہ) زائد تحفہ نہیں دیتے تھے مگر خمس میں سے۔ 31:۔ عبدالرزاق نے ابن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ زائد تحفہ دینا صحیح نہیں ہے۔ مسلمانوں کے غنائم میں سے مگر پانچویں حصے میں سے۔ مال غنیمت کا خمس : 32:۔ عبدالرزاق نے انس ؓ سے روایت کیا کہ امرا میں سے ایک امیر نے یہ ارادہ کیا کہ اسے خمس نکالنے سے پہلے مال غنیمت سے زائد عطیہ دیا جائے۔ تو انس ؓ نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا یہاں تک کہ اس کا خمس نکالا گیا۔ 33:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ یہ ابن مسعود ؓ کی قرءت میں ہے (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ 34:۔ ابن مردویہ نے شقیق کے راستے سے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ پڑھا ہے۔ 35:۔ ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ سے فئی کا مال مراد ہے وہ مال جو مشرکین کے مالوں میں سے بغیر گھوڑے دوڑائے اور بغیر اونٹ دوڑائے مل جائے اور وہ خاص طور پر نبی کریم ﷺ کے لئے ہوتا ہے۔ 36ـ:۔ ابن شیبہ اور عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ سے وہ مال مراد ہے جو سرایا کے ذریعہ حاصل ہوا ہو۔ 37:۔ ابن ابی شیبہ نے اور نحاس نے اپنی ناسخ میں اور ابو الشیخ نے مجاہد اور عکرمۃ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا کہ غنیمت کا مال اللہ اور اس کے رسول کے لئے تھا۔ یہاں تک کہ خمس کی آیت نے اس کو منسوخ کردیا۔ یعنی (آیت) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “۔ 38:۔ عبد بن حمید اور ابن جریر نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ ؓ کے اصحاب اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ 39:۔ ابن ابی شیبہ اور بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الا ایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ” فاتقوا اللہ واصلحوا ذات بینکم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان والوں پر پابندی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور باہمی معاملات کی اصلاح کریں جب وہ غنیمت کے مال میں اختلاف کریں۔ 40:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ (آیت) واصلحوا ذات بینکم “۔ سے مراد ہے آپس میں گالی گلوچ نہ کرو۔ 41:۔ ابن ابی حاتم نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ باہمی معاملات کی اصلاح یہ ہے کہ غنیمت کے مالوں کو واپس کردیا جائے۔ پھر وہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے اور جنہوں نے قتال کیا اور مال غنیمت کو جمع کیا ان کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ 42:۔ ابن ابی حاتم نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واطیعوا اللہ ورسولہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے مراد ہے کتاب وسنت کی اتباع کرنا۔ 43:۔ ابو یعلی اور ابو الشیخ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور ذہبی (رح) نے اس کی گرفت کی انس ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ہم نے آپ کو ہنستے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہوئے عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا میری امت میں سے دو آدمی رب العزت کے سامنے دو زانو بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے کہا اے میرے رب میرے بھائی کی جانب سے مجھ پر کئے جانے والے مظالم کے بدلے اسے پکڑے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو اپنے بھائی کو اس پر کئے جانے والے مظالم کا بدلہ دے۔ اس نے کہا اے میرے رب میری نیکیوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی تو دوسرے نے کہا اے میرے رب میری جانب سے میرے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دیجئے اس وقت رسول اللہ ﷺ کے آنسو رونے سے بہہ پڑے۔ پھر فرمایا یہ بڑے دن (یعنی قیامت کے دن) کے لئے ہے جس دن لوگ محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہوں کا بوجھ ان سے اٹھا دیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ نے طالب (مطالبہ کرنے والا) کو فرمایا اپنی نظر کو اوپر اٹھا اور جنتیوں کو دیکھ اس نے اپنا سراٹھایا اور کہا اے میرے رب میں چاندنی کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں جو موتیوں سے جڑے ہوئے ہیں یہ کس نبی کے لئے ہیں یہ کس صدیق کے لئے ہیں یہ کس شہید کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ اس کے لئے ہیں جس نے قیمت ادا کی عرض کیا اے میرے رب کون مالک ہوسکتا ہے اس کی قیمت کا ؟ فرمایا تو مالک ہے عرض کیا وہ کیسے ؟ رب کریم نے فرمایا اپنے بھائی کو معاف کردینے سے اس نے کہا اے میرے رب میں نے اس کو معاف کردیا فرمایا اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو جنت میں داخل کر دے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرتے رہو اور باہمی معاملات کی اصلاح کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مومنین کے درمیان صلح کرا دے گا۔ 44:۔ ابن ابی حاتم نے حضرت علی ابی طالب ؓ کی بہن ام ہانی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تجھ کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن تمام اولین وآخرین کو ایک میدان میں جمع فرمائیں گے کون جان سکتا ہے کہ کنارے کہاں ہیں۔ ام ھانی نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں پھر ایک آواز دینے والا عرش کے نیچے سے آواز دے گا اے توحید والو تو وہ سراٹھا کر اوپر دیکھیں گے پھر اواز دے گا اے توحید والوں پھر وہ تیسری مرتبہ آواز دے گا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا ہے اور وہ لوگ کھڑے ہوں گے حالانکہ وہ دنیا کی تاریکیوں اور بےانصافیوں میں بعض بعض کو پکڑے ہوئے ہوں گے۔ پھر وہ آواز دے گا اے توحید والو تم آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردو اور ثواب اللہ پر ہے (یعنی معاف کردینے کا ثواب) اللہ تعالیٰ دیں گے ) ۔ 45:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا ایک آواز دینے والا آواز دے گا اے توحید والو اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا ہے تم کو چاہئے کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کو معاف کردے اور مجھ پر ( اس کا) ثواب ہے۔ (یعنی ثواب عطا فرمانا میرے ذمہ ہے )
Top