Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور جب ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ اگر یہ آپ کی طرف سے واقعی حق ہے تو ہم آسمان سے پتھر برسا دیجئے یا ہم کو کوئی درد ناک عذاب واقع کردیجئے
1۔ البخاری وابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ ابوجہل بن ہشام نے کہا ( آیت) ” اللہم ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمائ اوائتنا بعذاب الیم (32) تب یہ نازل ہوا (آیت) وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون (34) “ 2:۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت ابوجہل بن ہشام کے بارے میں نازل ہوئی۔ 3:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) اذقالوا اللہم ان کان ھذا ھوالحق من عندک کے بارے میں فرمایا کہ (یہ آیت) نضربن حارث کے بارے میں نازل ہوئی۔ 4:۔ ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ نضر بن حارث کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (آیت) اذقالوا اللہم ان کان ھذا ھو الحق من اور قالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب (16) اور (آیت) ولقد جئتمونا فرادی کما خلقنکم اول مرۃ اور ” سال سائل بعذاب واقع (1) “ عطا (رح) نے فرمایا اس کے بارے میں دس کچھ اوپر آیات اللہ کی کتاب میں نازل ہوئی۔ کفار کی بدعائ اور اللہ کا عذاب : 5:۔ ابن مردویہ نے بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے احد کے دن عمرو بن عاص کو گھوڑے پر ٹھہرے ہوئے دیکھا اور وہ کہہ رہا تھا۔ اے اللہ جو کچھ محمد ﷺ فرماتے ہیں اگر یہ سچ ہے تو مجھ کو میرے گھوڑے کے ساتھ زمین میں دھنسا دے۔ 6:۔ ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے لبیک لاشریک لبیک۔ تو نبی ﷺ فرماے ہاں ہاں اسی طرح سے ہے پھر وہ کہتے تھے ” لاشریک لک الا شریک ھو لک تملکہ وما قلک “ اور وہ (یہ بھی) کہتے تھے۔ ہم آپ سے مغفرت چاہتے ہیں ہم آپ سے مغفرت چاہتے ہیں تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم “ ابن عباس ؓ نے فرمایا ان کی دو زبانیں ہیں ایک نبی ﷺ کی ذات گرامی اور دوسری استغفار نبی ﷺ (اس دنیا سے) چلے گئے۔ اور استغفار باقی رہ گیا (اور فرمایا) (آیت) ” وما لہم الا یعذبہم اللہ “ (اس آیت میں) آخرت کا عذاب مراد ہے اور وہ دنیا کے (عذاب کے بارے میں ) ۔ 7:۔ ابن جریر نے یزید بن رمعان اور محمد بن قیس دونوں حضرات سے روایت کیا کہ قریش کے بعض لوگوں نے بعض سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان محمد ﷺ کو عزت عطا فرمائی اور کہا ( آیت) ” اللہم ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء جب شام ہوتی تو جو کچھ نہیں نے کہا تھا اس پر نادم ہوئے اور کہنے لگے اے اللہ تو مغفرت فرما دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) سے لے کر لا یعلمون (34) “ تک نازل ہوئی۔ 8:۔ ابن جریر، وابن حاتم وابوالشیخ نے ابن زیدی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” آیت ” وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم “ پھر رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کی طرف تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری آیت ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ جب مسلمان مکہ سے خروج کرگئے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ومالہم الا یعذبہم اللہ “ پھر اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے بارے میں اطلاع دی اور یہ وہ عذاب تھا جو ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی عذاب سے مانع : 9:۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم ابو الشیخ نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس قول ”(آیت) وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم “ کے بارے میں فرمایا (یعنی) اللہ تعالیٰ مشرکین کو (اس وقت تک عذاب نہیں دے گا) یہاں تک کہ آپ کو ان میں سے نہ نکالے گا۔ (اور فرمایا) (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ یعنی جب تک مومنین استغفار کررہے ہیں (اللہ تعالیٰ ان کو عذاب والا نہیں ہے) پھر مشرکین کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا (آیت) وما لہم الا یعذبہم اللہ وھم یصدون عن المسجد الحرام “۔ 10:۔ ابن ابی حاتم سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ استغفار کرے اور گناہوں کا اقرار کرتے تو وہ ایمان والے ہوتے اور اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) وما لہم الا یعذبہم اللہ وھم یصدون عن المسجد الحرام “۔ کے بارے میں فرمایا کہ میں ان کو کیوں عذاب نہ دوں گا حالانکہ وہ استغفار نہیں کرتے۔ 11:۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ “ کے بارے میں فرمایا یعنی آپ ان کے درمیان موجود ہیں (اس لئے میں ان کو عذاب نہیں دوں گا) (اور فرمایا) (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والے نہیں ہیں اس حال میں کہ ان میں سے ایک آدمی ہمیشہ اسلام میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ 12:۔ عبد بن حمید وابن جریر نے عکرمۃ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ کے بارے میں فرمایا (کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والے نہیں ہیں) حالانکہ وہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ 13: ابن ابی حاتم نے عطائ بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ سعید بن جبیر ؓ سے استغفار کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ یعنی وہ مغفرت کی امید پر عمل کرتے ہیں اور میں نہیں جانتا ہوں کہ لوگ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ان لوگوں میں سے جو زبانوں میں استغفار کرتے ہیں اور اسلام اور سارے دینوں کا دعوی کرتے ہیں۔ 14۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ اور حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس قول (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا جو اس سے ملی ہوئی ہے۔ یعنی (آیت) ” وما لہم الا یعذبہم اللہ “ اس لئے ان کو مکہ میں قتل کیا گیا اور ان کو بھوک اور تنگی میں مبتلا کیا گیا۔ 15:۔ ابو الشیخ نے سدی سے بھی سب اسی طرح نقل کیا گیا۔ 16:۔ عبد بن حمید، ابن جریر نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم “۔ سے اہل مکہ مراد ہیں اور ”(آیت) ” وما کان اللہ لیعذبہم “ سے مراد ہے کہ ان میں ایمان والے ہیں جو استغفار کرتے ہیں (اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے) استغفار و توبہ سے عذاب رک جاتا ہے : 17:۔ بیہقی نے شعب الایمان میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ قرآن تمہاری رہنمائی کرتا ہے تمہاری بیماری پر اور تمہارے علاج پر تمہاری بیماری وہ تمہارے گناہ ہیں اور تمہاری دوا اور علاج استغفار ہے۔ 18۔ ابن ابی الدنیا والبیہقی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ بندہ کوئی چھوٹا گناہ کرتا ہے پھر اس کو حقیر سمجھتا ہے (اس لئے) اس پر نادم نہیں ہوتا اس سے استغفار نہیں کرتا اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک بہت بڑے ٹیلے کی طرح ہوجاتا ہے۔ اور آدمی بعض مرتبہ کوئی بڑا گناہ کرتا ہے پھر اس پر نادم ہوتا ہے اور اس سے استغفار کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چھوٹا ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتے ہیں۔ 19:۔ ترمذی نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے دو امانتیں نازل فرمائی۔ یعنی (آیت) ’ وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ جب میں (اس دنیا سے) چلا جاوں گا تو ان میں استغفار کو قیامت کے دن تک چھوڑ جاوں گا۔ 20:۔ ابوالشیخ والحاکم نے اس کو صحیح کہا والبیہقی نے شعب الایمان میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ تمہارے اندر دو امانتیں تھیں ان میں سے ایک گذر گئی اور دوسری باقی ہے۔ 21:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ، وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت میں دو امانتیں رکھی ہیں وہ برابر عذاب کی کڑک سے محفوظ رہیں گی۔ جب تک وہ ان کے اندر رہیں گی۔ ایک امانت کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضہ میں لے لیا (یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کو اللہ تعالیٰ نے دنیا سے اٹھا لیا) اور تمہارے درمیان ایک امانت باقی ہے۔ اسی کو فرمایا (آیت) ” وما کان اللہ لیعذبہم “ (الایہ) 22:۔ ابن جریر وابوالشیخ والطبرنی ابن مردویہ والحاکم وابن عساکر نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ تمہارے درمیان دو امانتیں تھیں ان میں ایک گزر چکی اور دوسری باقی ہے یعنی ’(آیت) ” وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ کہ رسول اللہ ﷺ وصال پا چکے ہیں لیکن استغفار اور وہ قیامت کے دن تک ہونے والا ہے۔ 23:۔ بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس امت میں دو امانتیں تھیں رسول اللہ ﷺ اور استغفار ایک امانت تو چلی گئی یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اور ایک امانت باقی ہے یعنی استغفار۔ 24:۔ احمد نے فضالہ بن عبیدؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بندہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے امن میں رہتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہے۔ 25:۔ احمد والبیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شیطان نے کہا اے میرے رب تیری عزت کی قسم ! میں برابر تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جبکہ ان کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں رب تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت اور جلال کی قسم میں برابر ان کو بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے۔ 26:۔ ابو داود والنسائی وابن ماجہ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے استغفار (پڑھنے) میں کثرت کی اللہ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دیں گے۔ اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ عنایت فرمائیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائیں گے کہ جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ 27:۔ حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں والنسائی وابن ماجہ نے عبد اللہ بن بسر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے اپنے اعمال نامے میں بہت استغفار کو پایا۔ 28:۔ حکیم ترمذی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم استغفار کو کثرت سے پڑھنے کی طاقت رکھتے ہو تو ایساکرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ نجات دینے والی نہیں۔ اور اس سے بڑھ کر اس کی طرف اس سے زیادہ محبوب بھی نہیں۔ 29:۔ احمد نے زہد میں مغیث بن اسماء (رح) سے روایت کیا کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی تھا جو گناہ کرتا تھا اور اس دوران کہ وہ خوشحال اور آسان دن گزار رہا تھا کہ اچانک وہ اپنے گذرے ہوئے اعمال کی غوروفکر کرنے لگا اور کہنے لگا اللہم غفرانک اے اللہ مجھ کو بخش دے ( تیری بخشش وسیع ہے) اس حال میں اس کو موت آگئی تو اس کی مغفرت ہوگئی۔ 30:۔ ابن ابی شیبہ واحمد نے زہد میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو اپنے اعمال نامے میں استغفار کی آواز کو پائے۔ (یعنی دنیا میں وہ بہت استغفار کرنے والا تھا) 31:۔ ابن ابی شیبہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ جس نے یہ الفاظ کہے۔ ” استغفر اللہ العظیم الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ “ پانچ مرتبہ اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔ 32:۔ ابوداود والترمذی نے شمائل میں والنسائی نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی آپ نے اتناطویل قیام فرمایا گویا آپ رکوع نہیں کریں گے۔ پھر اسی طرح ایک طویل رکوع کیا۔ پھر اس طرح ایک طویل سجدہ کیا گویا آپ اس سے سر مبارک نہیں اٹھائیں گے پھر آپ دوسری رکعت کے لئے اٹھے۔ اور پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت بھی انتہائی طویل کرکے پڑھائی۔ پھر آپ نے اپنے سجدوں کے آخر میں منہ سے پھونک ماری پھر اسی طرح دعا مانگی اے میرے رب کیا آپ نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ میں ان کو عذاب نہیں دوں گا جب تک میں ان میں موجود ہوں اے میرے رب کیا آپ نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ میں اس کو عذاب نہیں دوں گا جب تک وہ استغفار کریں گے اور ہم آپ سے مغفرت طلب کررہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہوچکا تھا۔ 33:۔ دیلمی نے عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمین میں دو امانتیں ہیں ایک امانت میں ہوں اور دوسری امانت استغفار ہے۔ اور میں دنیا سے جانے والا ہوں اور استغفار کی امانت باقی ہے۔ سو تم استغفار کو لازم پکڑو ہر گناہ اور مصیبت کے وقت۔ 34:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والنحاس نے اپنی ناسخ میں والبیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم۔ “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس حال میں عذاب نہیں دیتے کہ ان کے انبیاء ان میں موجود ہوں۔ یہاں تک کہ وہ انہیں ان سے نکال لے (اور فرمایا) (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ اور ان میں وہ لوگ تھے یہ معلوم تھا کہ یہ لوگ استغفار کرتے رہیں گے۔ جس سے سب لوگ عذاب سے بچے رہیں گے اور کافر کے لئے فرمایا (آیت) ” ماکان اللہ لیذر المومنین علی ماانتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب۔ “ (آل عمران آیت 179) یعن اللہ تعالیٰ بدبختوں میں سے نیک بختوں کو الگ کردیں گے (پھر فرمایا) (آیت) ” وما لہم الا یعذبہم اللہ “ اور ان کو تلوار کے ذریعہ بدر کے دن عذاب دیا گیا۔ 35:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ (کہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں عذاب نہیں دیں گے کہ وہ استغفار کرتے ہیں) پھر ان میں شرک کرنے والوں کو مستثنی کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” ومالہم الا یعذبہم اللہ “ 36:۔ عبد بن حمیدی وابن جریر والنحاس وابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم “ کے بارے میں فرمایا کہ مشرکین کو جو مکہ میں ہیں (ان کو آپ کے ہوتے ہوئے عذاب نہیں دیں گے) اور فرمایا (آیت) ” وما کان اللہ معذبہم وھم یستغفرون (33) “ یعنی ایمان والوں کی وجہ سے جو مکہ میں ہیں (ان کو عذاب نہیں دیں گے کیونکہ وہ لوگ استغفار کرتے ہیں) (آتی) وما لہم الا یعذبہم اللہ “ یعنی کفار مکہ کو ( اللہ تعالیٰ کیوں عذاب نہ دیں گے) 37:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومالہم الا یعذبہم اللہ “ سے مراد ہے کہ مکہ کا فتح ہونا 38:۔ ابن اسحاق وابن ابی حاتم نے عباد بن عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ومالہم الا یعذبہم اللہ “ کے بارے میں فرمایا کیا وجہ ہے ان کے لئے اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دیں حالانکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور ان کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اگرچہ ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو دعائیں مانگتے ہیں۔ 39:۔ ابن اسحاق وابن ابی حاتم نے عروہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وھم یصدون عن المسجد الحرام “ کے بارے میں فرمایا یعنی وہ لوگ روکتے ہیں مسجد حرام سے ان کو جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لائے حالانکہ آپ نے اور آپ کے متبعین نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ان کو روکتے ہیں پھر فرمایا ” (آیت) وما کانوا اولیاءہ ان اولیاوہ الا المتقون “ یعنی اس کے متولی وہ لوگ ہیں جن کو اس سے نکالا جاتا ہے اور وہ اس کے پاس نماز قائم کرتے ہیں یعنی آپ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ایمان لائے۔ 40:۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ”(آیت) ان اولیاوہ الا المتقون “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کے قول متقی لوگ ہیں وہ جہاں بھی ہوں۔ 41:۔ بخاری سے الادب المفرد میں والطبرنی الحاکم نے اس کو صحیح کہا رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عمر سے فرمایا میرے لئے اپنی قوم کو جمع کر۔ انہوں نے ان کو جمع کیا جب سب لوگ نبی کریم ﷺ کے دروازہ پر حاضر ہوئے تو حضرت عمر ؓ اندر داخل ہوئے اور عرض کیا میں نے اپنی قوم کو آپ کے لئے جمع کرلیا ہے یہ بات انصار نے جب سنی تو کہنے لگے قریش کے بارے میں وحی نازل ہوتی ہے۔ تو ہر سننے والا اور دیکھنے والا آیا کہ ان کے لئے کیا کہا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور ان کے درمیان ہمارے حلیف ہمارے بھانجے اور ہمارے موالی بھی ہم ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہمارے حلیف ہم میں سے ہیں ہمارے بہنوں کے بیٹے ہم میں سے ہیں۔ اور ہمارے موالی بھی ہم میں سے ہیں تم لوگ سن لو تم میں سے میرے دوست متقی لوگ ہیں۔ اگر تم اسی طرح ہو تو ایسا ہی ہے وگر نہ تم لوگ دیکھ لو کہ قیامت کے دن لوگ اعمال کے ساتھ نہیں آئیں گے اور تم آؤ گے اپنے بوجھوں کے ساتھ اور تم سے اعراض کرلیا جائے گا۔ متقی لوگ رسول اللہ ﷺ کے دوست : 42:۔ بخاری نے الادب المفرد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے دوست قیامت کے دن متقی لوگ ہوں گے اگرچہ نسب کے اعتبار سے کوئی زیادہ قریبی ہو۔ اور لوگ میرے پاس اعمال کے ساتھ نہیں آئیں گے اور دنیا لے کر میرے پاس آؤ گے جس کو وہ اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اور میں اس طرح اور اس طرح کہوں گا۔ مگر میں ہر ایک سے اس کے تکبر کی وجہ سے اعراض کروں گا۔ 43:۔ ابن مردویہ والطبرانی والبیہقی نے اپن سنن میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے آپ کی آل کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا ہر متقی (میری آل میں سے ہے) اور رسول اللہ ﷺ نے ( یہ آیت) تلاوت فرمائی۔ ان اولیاوہ الا المتقون۔ “ 44:۔ احمد والبخاری ومسلم نے عمروبن عاص ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ فلاں کی آل میں دوست ہیں بلاشبہ میرا دوست اللہ تعالیٰ اور صالح مومنین ہیں۔ 45:۔ احمد نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب متقی لوگ ہیں وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔
Top