Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور بیت اللہ کے نزدیک ان کی نماز بن یہی تھی کہ سٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے تھے۔ سو عذاب چکھ لو اس وجہ سے کہ تم کفر کرتے تھے
1۔ عبد بن حمید وابن جریر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ قریش طواف میں نبی کریم ﷺ سے بدتمیزی کرتے تھے۔ مذاق اڑاتے تھے سیٹیاں بجاتے تھے اور تالیاں بجاتے تھے اور تالیاں پیٹتے تھے تو (یہ آیت) نازل ہوئی (آیت) ” وما کان صلاتہم عند البیت الا مکاء وتصدیۃ۔ “ 2:۔ ابو الشیخ نے نبی ط ؓ سے روایت کیا کہ جو صحابہ ؓ میں سے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس قول (آیت) ” وما کان صلاتہم عند البیت “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ یعنی صحابہ کرام ؓ بیت الحرام کا طواف کررہے ہوتے تھے جبکہ قریش سیٹیاں بجاتے تھے۔ 3:۔ ابان ابی حاتم وابوالشیخ، ابن مدویہ والضیاء نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ لوگ (یعنی مشرکین) بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے سیٹیاں بجاتے ہوئے اور تالیاں پیٹتے ہوئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” وما کان صلاتہم عند البیت الا مکاء وتصدیۃ۔ “ فرمایا یا مکاء سے مراد ہے سیٹیاں بجانا۔ اس میں ان کو یہ برساتے ہیں مارنے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور تصدیۃ سے مراد ہے تالیاں بجانا اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” قل من حرم زینۃ اللہ “ (الاعراف آیت 32) 4:۔ طستی نے نافع بن ازرق (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” (آیت) الا مکاء وتصدیۃ “ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا ” المکاء “ سے مراد ساز کی آواز ہے اور ” تصدیہ “ سے مراد ہے چڑیوں کی آواز اور وہ تالیاں بجانا اور یہ اس وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ میں نماز کے لئے کھڑے ہوئے تھے اور حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے تو بنو سہیم میں سے دو آدمی آتے ایک آپ کے داہنی جانب اور دوسرا بائیں جانب کھڑے ہو کر ایک ان میں سے سیٹی بجاتا اور دوسرا اپنے ہاتھ سے تالی بجاتا تاکہ آپ پر آپ کی نماز خراب ہوجائے ازرق (رح) نے پوچھا کیا آپ کے لوگ معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں تو حسان بن ثابت کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔ نقوم الی الصلاۃ اذا دعیفا وھمتک التقوی والمکاء ترجمہ : ہم کھڑے ہوجاتے ہیں جب نماز کے لئے بلایا جاتا ہے جبکہ تمہارا کام تالیاں بجانا اور سیٹیاں بجانا ہوتا ہے۔ اور شعراء میں سے دوسرے شاعر نے کہا تصدیہ کے بارے میں کہا۔ حتی تبنھنا سحیرا قبل تصدیۃ العصافیر ترجمہ : یہاں تک کہ ہم بیدار ہوجاتے ہیں صبح سویرے چڑیوں کے چہچہانے سے پہلے۔ 5:۔ ابن منذر نے عطیہ کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ روایت کیا کہ ” المکاء “ سے مراد ہے سیٹی بجانا ان میں سے ایک اپنے ہاتھ کو دوسرے پر رکھتا اور سیٹی بجاتا۔ 6:۔ الفریافی وعبدبن حمید وابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا مکاء وتصدیۃ “ میں ” مکاء “ سے مراد ہے سیٹی بجانا اور تصدیہ سے مراد ہے تالیاں بجانا۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ” مکاء “ سے مراد ہے سیٹی بجانا اور ” تصدیۃ “ سے مراد ہے تالیاں بجانا۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” مکاء “ سے مراد ہے اپنی انگلیوں کو اپنے منہ میں داخل کرنا اور ” تصدیۃ “ سے مراد ہے سیٹی بجانا اس سارے عمل کے ساتھ وہ محمد ﷺ کی نماز میں خلل اندازی کی کوشش کرتے تھے۔ 9:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” المکاء “ سے مراد ہے سیٹی بجانا سفید پرندے کی طرح جس کو ” مکاء “ کہا جاتا ہے جو حجاز کی سرزمین میں ہوتا ہے اور ” التصدیہ “ سے مراد ہے تالیاں بجانا۔ 10:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس قول ” مکاء “ کے بارے میں فرمایا کہ اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کرکے ان میں سیٹیاں بجاتے تھے اور ” تصدیۃ “ سے مراد ہے ان کو لوگ (اس کام سے) روکتے تھے۔ مشرکوں کا الٹا طواف کرنا : 11:۔ عبد بن حمید نے عکرمۃ (رح) سے روایت کیا کیا کہ مشرکین بائیں جانب سے بیت اللہ کا طواف کرتے تھے (اور ان کی نماز اس طرح ہوتی تھی) جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وما کان صلاتہم عند البیت الا مکاء وتصدیۃ۔ “ (یعنی ان کی نماز بیت اللہ کے نزدیک سیٹیاں اور تالیاں بجانا ہے ” الماء “ بگل میں پھوکنے کی طرح آواز پیدا کرنا اور ” تصدیہ “ سے مرادا ان کا بائیں جانب پر طواف کرنا ہے۔ 12:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون (35) “ سے مراد ہے یعنی یہ خطاب غزوہ بدر میں شریک ہوئے کفار مکہ کو ہے۔ کہ بدر کے کافروں اب عذاب چکھو اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل ہونا اور قید ہونے کے ذریعہ عذاب دیا۔
Top