Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّمَا : جو کچھ غَنِمْتُمْ : تم غنیمت لو مِّنْ : سے شَيْءٍ : کسی چیز فَاَنَّ : سو لِلّٰهِ : اللہ کے واسطے خُمُسَهٗ : اس کا پانچوا حصہ وَلِلرَّسُوْلِ : اور رسول کے لیے وَ : اور لِذِي الْقُرْبٰي : قرابت داروں کے لیے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافروں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اٰمَنْتُمْ : ایمان رکھتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلٰي : پر عَبْدِنَا : اپنا بندہ يَوْمَ الْفُرْقَانِ : فیصلہ کے دن يَوْمَ : جس دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : دونوں فوجیں بھڑ گئیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا ہے
اور تم جان لو کہ جو کوئی چیز تمہیں مال غنیمت سے ملے سو بلاشبہ اللہ کے لئے اس کا پانچواں حصہ ہے اور رسول کے لئے اور قرابت والوں کے لئے اور یتیموں کے لئے مسکینوں کے لئے اور مسافروں کے لئے، اگر تم ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اس چیز پر جو ہم نے نازل کی اپنے بندہ پر فیصلہ کے دن جس روز بھڑگئی تھیں دونوں جماعتیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
1۔ ابن اسحاق وابن ابی حاتم نے عباد بن عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ مال فئے حصے بیان کئے گئے اور ان کو بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ (اور یہ حکم) غزوہ بدر گزر جانے کے بعد نازل ہوا۔ (پھر فرمایا) ”(آیت) فان للہ خمسہ وللرسول “ آیت کے آخر تک۔ 2:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ کے بارے میں فرمایا کہ ” شئ “ سے مراد ہے کوئی چیز حتی کہ سوئی تک تم غنیمت میں پاؤ۔ 3:۔ ابن منذر نے ابن ابی نجیح (رح) سے روایت کیا کہ مال تین قسم کا ہے۔ غنیمت کا فئ کا اور صدقہ کا اس میں ایک دراہم بھی ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا محل اور مصرف بیان نہ فرمایا ہو۔ غنیمت کے مال کے بارے میں فرمایا (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ فان للہ خمسہ ولارسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل، ان کنتم امنتم باللہ “ یعنی مومنین کو گناہ سے بچانے کے لئے یہ بیان فرمایا اور فئی کے بارے میں فرمایا ”(آیت) کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم “ اور صدقہ کے بارے میں فرمایا (آیت) ” وابن السبیل فریضۃ من اللہ، واللہ علیم حکیم۔ (60) “ (التوبۃ آیت 8) 4:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والحاکم نے قیس بن مسلم الجدلی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن بن محمد علی بن ابی طالب بن حنیفہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ کلام کا آغاز ہے دنیا اور آخرت اللہ کے لئے ہے۔ (اور فرمایا) (آیت) ” وللرسول ولذی القربی “ لیکن ان دونوں حصوں میں رسول اللہ کے لئے ہے اور بعض نے کہا نبی کریم ﷺ کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کے لئے ہے اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی رائے اس بات پر جمع ہوئی ہوئی کہ ان دونوں حصوں کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ہوتا تھا۔ 5:۔ ابن جریر والطبرانی وابوالشیخ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی چھوٹا لشکر بھیجتے تھے تو وہ غنیمت کے مال میں سے خمس نکالتے تھے اور آپ ﷺ اس خمس کو پانچ حصوں میں تقسیم فرماتے پھر یہ آیت پڑھتے (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول “ پھر فرمایا (آیت) فان للہ خمسہ “ یہ کلام کا آغاز ہے اور فرمایا (آیت) ” للہ ما فی السموت وما فی الارض “ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اور رسول اللہ کے حصے کو ایک بنادیا اور (آیت) ” ولذی القربی “ ان دونوں حصوں کو اور ہتھیاروں میں قوت کا ذریعہ بنایا اور یتامی مساکین اور مسافر کا حصہ ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیا۔ اور باقی چار حصوں میں دو حصہ گھوڑے کے لئے اور ایک حصہ سوار کے لئے اور ایک حصہ پیدل والے کے لئے بنادیئے۔ 6:۔ عبدالرزاق نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فان للہ خمسہ “ کے بارے میں فرمایا کہ خمس اللہ کے لئے ہے پھر خمس کو پانچ حصوں میں تقسیم کردیا گیا (پھر فرمایا) (آیت) ” وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل “۔ 7:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اس میں چار حصے تو واضح ہیں کہ وہ جنگ لڑنے والوں کے لئے ہیں۔ اور اس میں سے ایک حصہ پانچ میں سے چار حصوں پر کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کی ایک چوتھائی اللہ اور اس کے رسول کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے یعنی رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کے لئے اور جو حصہ اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے تو وہ نبی کریم ﷺ کے رشتہ داروں کے لئے ہے اور نبی کریم ﷺ نے خمس میں سے کوئی چیز نہیں لی اور دوسرا چوتھائی یتیموں کے لئے اور تیسرا چوتھائی مساکین کے لئے اور چوتھا چوتھائی مسافروں کے لئے۔ اور وہ مہمان فقیر ہے جو مسلمانوں کے گھر آتا ہے۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ کے بارے میں فرمایا کہ غنیمت کے مال کو الگ رکھ دیا جاتا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس کو پانچ حصوں میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ اس میں سے ایک حصہ کو الگ کرلیتے تھے اور چار حصوں کو لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے تھے یعنی جو لڑائی میں حاضر ہوتا تھا پھر اپنے ہاتھ سے سارے حصوں کو اپنا ہاتھ مبارک مارتے پھر جس پر ہاتھ رکھتے تو اس کو کعبہ کے لئے مختص کردیتے اور وہ حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے مقرر کیا گیا تھا تم لوگ اللہ کے لئے کوئی حصہ نہ بناؤ۔ کیونکہ دنیا اور آخرت اللہ کے لئے ہے۔ پھر آپ باقی حصہ کی طرف ارادہ فرماتے اور اس کو پانچ حصوں میں تقسیم فرماتے ایک حصہ نبی کریم ﷺ کے لئے ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے ایک حصہ یتیموں کے لئے ایک حصہ مسکینوں کے لئے اور ایک حصہ مسافروں کے لئے۔ 9:۔ ابن جریر وابن منذر وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ کے بارے میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے رشتہ دار صدقات میں کچھ اور نہ کھاتے تھے اور انکے لئے حلال بھی نہیں تھا۔ اور نبی کریم ﷺ کے لئے پانچ حصوں میں پانچواں حصہ تھا اور آپ کے رشتہ داروں کے لئے بھی پانچ حصوں میں سے پانچواں حصہ تھا اور یتیموں کے لئے اسی طرح اور مسکینوں کے لئے اسی طرح اور مسافروں کے لئے اسی طرح۔ 10:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں وابن ابی شیبہ وابن منذر نے شبعی (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے حصہ کو صفی حصہ کہا جاتا تھا اور آپ غلام چاہیں گے یا تھوڑا چاہیں (جو بھی چاہیں) اسی خمس کو نکالنے سے پہلے آپ چن لیتے تھے آپ اسے اپنے حصے کے ساتھ ملا لیتے تاکہ وہ حاضر ہوتا یا غائب ہوتا اور ام المومنین صفیہ بن حیی صغی میں سے تھی۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم نے عطارحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ اور رسول کا خمس ایک ہی ہے اگرچہ نبی کریم ﷺ اسے اٹھا سکتے ہیں اور اسی میں جو اللہ تعالیٰ چاہے تعریف فرما سکتے ہیں۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ زمین کی چیز میں سے یا اونٹ کے بالوں میں سے لے لیتے تھے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے نہیں ہے میرے لئے ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عطا فرمائیں اور نہ اس کے مثل سوائے پانچواں حصے کے اور پانچواں حصہ بھی ہے تم پر لوٹا دیا جاتا ہے۔ مال غنیمت کا پانچ حصوں میں تقسیم کرنا : 13:۔ ابن منذر نے ابومالک کی سند سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مال غنیمت کو پانچویں حصوں میں سے چار ان کے لئے جو (لڑائی میں) حاضر ہوتے اور پانچواں حصہ آپ کے لئے لیتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا۔ اس کو آپ چھ حصوں میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ ایک حصہ اللہ کے لئے ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے ایک حصہ یتیموں کے لئے۔ ایک حصہ مسکینوں کے لئے اور ایک حصہ مسافر کے لئے اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے حصہ کو ہتھیار، دیگر سامان اور اللہ کے راستے کی مد میں خرچ کرتے تھے اور کعبہ کے غلاف صفائی اور دیگر اس کی ضروریات میں خرچ کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ ہتھیاروں اور دیگر ضروری سامان میں اور اہل و عیال کے نقد میں خرچ کیا جاتا تھا اور ذی القربی کا حصہ آپ کے قرابت داروں کے لئے تھا اور رسول اللہ ﷺ اللہ فقر و افلاس اور تنگی کی وجہ سے ان میں ان کا حصہ تقسیم فرماتاے تھے اور یتیموں اور مسکینوں کے لئے اور مسافر کے لئے یہ تین حصے تھے۔ رسول اللہ ﷺ یہ عطا فرمادیتے جس کو چاہتے اور جہاں چاہتے اور سو عبدالمطلب کے لئے ان تین حصوں میں کوئی نہ تھا رسول اللہ ﷺ کے ان کا حصہ لوگوں کے حصوں کے ساتھ تھا۔ 14:۔ ابن ابی حاتم نے حسین المعلم سے روایت کیا کہ میں نے عبد اللہ بن بریدہ ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس ” فان للہ خمسہ وللرسول “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ جو اللہ کے لئے ہے وہ اس کے نبی کے لئے اور جو رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے جو آپ کی ازواج کے لئے ہے۔ 15:۔ ابن ابی شیبہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولذی القربی “ سے مراد عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔ 16:۔ شافعی وعبدالرزاق نے مصنف میں وابن ابی شیبہ ومسلم وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نجدہ نے آپ کی طرف لکھا اور ان ذوی القربی کے بارے میں پوچھا جس کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا تو آپ نے اس کی طرف لکھا کہ بیشک ہم یہ خیال کرتے تھے کہ صرف ہم ان میں سے ہیں لیکن ہماری قوم نے اس کا انکار کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ قریش سب کے سب ذوالقربی میں شامل ہیں۔ 17:۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے ایک اور سند سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نجدہ نے ان سے ذوی القربی کے حصہ کے بارے میں پوچھا جن کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا آپ نے اس کی طرف لکھا کہ ہم یہ گمان کرتے تھے کہ ہم ہی وہ ہیں اس پر ہماری قوم نے انکار کیا ہے اور انہوں نے کہا وہ ان کے لئے بھی کہتا ہے جن کو تو گمان کرتا ہے۔ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ حصہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داری کے لئے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے وہ حصہ مخصوص فرمایا ہے اور ایک دفعہ عمر ؓ نے اس حصہ میں کچھ سامان ہم کو دیا تو ہم نے دیکھا کہ وہ ہمارے حق سے کم ہے تو ہم نے وہ سامان آپ کو واپس لوٹا دیا۔ اور ہم نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا آپ نے ان کے لئے جو کچھ مقرر کیا تھا۔ وہ یہ ہے کہ ان میں سے شادی کرنے والی عورتوں کی مدد کی جائے اور مقروض کے قرض ادا کردیئے جائیں اور ان کے فقرائ کو دیا جائے اور آپ نے اس سے زائد ان کو زیادہ دینے سے انکار کیا۔ 18۔ ابن منذر نے عبدالرحمن بن ابی یعلی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے علی سے پوچھا اور عرض کیا اے امیرالمومنین ! مجھے بتائیے ابوبکر وعمر ؓ نے تمہارے خمس والے حصے کے بارے میں کیا کیا ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ابوبکر ؓ کی خلافت میں اخماس نہیں تھے اور عمر ؓ برابر مجھ کو دیتے رہے ہر خمس میں یہاں تک سوس اور نیشاپور کے لشکر کا خمس بھی دیا اور انہوں نے کہا کہ میں ان کے پاس تھا تو آپ نے کہا یہ تمہارے گھر والوں کا حصہ ہے خمس میں سے اور بعض مسلمانوں کے لئے بھی حلال کردیا ان کی شدید ضرورت اور خفت کی وجہ سے میں نے کہا ہاں (یہ ٹھیک ہے) تو حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ کو دے دیئے اور فرمایا جو حصہ ہمارے لئے ہے اس میں تعارض نہ کرو۔ میں نے کہا کیا ہم امیر المومنین کی مدد کا اور مسلمانوں سے بڑھ کر حق نہیں رکھتے پھر انہوں نے وہ لے لیا اللہ کی قسم نہ ہم نے اس کو لیا اور نہ اس پر مطالبہ کیا عثمان ؓ کی خلافت میں پھر حضرت علیؓ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ کو حرام کردیا ہے اپنے رسول اللہ ﷺ پرا ور اس کے عوض خمس میں سے ایک حصہ ہے یہ عوض ہے ان چیزوں میں سے جو ان پر حرام کردی گئی اور صرف آپ کے اہل بیت پر صرف حرام کیا آپ کی امت پر نہیں اس لئے ان کے لئے بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک حصہ مقرر کیا گیا جو عوض ہے ان چیزوں سے جو ان پر حرام کی گئیں۔ 19:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہارے لئے ہاتھوں کے دھون یعنی صدقہ سے اعراض کرلیا ہے۔ کیونکہ ہمارے لئے خمس میں سے پانچواں حصہ ہے جو تم کو غنی کردے گا یا تم کو کافی ہوجائے۔ 20:۔ ابن اسحاق وابن ابی حاتم نے زہری و عبداللہ بن ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر سے حاصل ہونے والے مال میں سے ذوی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنو المطلب میں تقسیم فرمایا۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ نے جبیر بن معطم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوی القربی کے حصہ کو بن ہاشم اور بنی مطلب پر تقسیم فرمایا۔ راوی نے کہا کہ میں اور عثمان بن عفان ؓ چلے یہاں تک کہ ہم آپ کے پاس حاضر خدمت ہوئے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ آپ کے بھائی بنی ہاشم میں سے ہیں ہم ان کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے آپ کے اس مرتبہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان میں سے عطا فرمایا آپ کا ان بھائیوں کے بارے میں جو بنوالمطلب میں سے ہیں کیا خیال ہے ؟ آپ ان کو ہم سے کم عطا فرمایا ہے حالانکہ ہم اور وہ نسب میں ایک ہی درجہ میں ہیں آپ نے فرمایا انہوں نے ہم سے جدائی اختیار نہیں کی جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں۔ 22:۔ ابن مردویہ نے زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا کہ محمد ﷺ کی آل وہ لوگ ہیں جن کو خمس دیا گیا وہ علی کی آل عباس ؓ کی آل جعفر کی آل اور عقیل کی آل ہیں۔ 23:۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ محمد ﷺ کی آل کے لئے صدقہ حلال نہیں تھا۔ اس لئے ان کے لئے خمس کا خمس مقرر کردیا گیا۔ بنوہاشم کے لئے صدقہ حلال نہیں : 24:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ یعنی مشرکین سے (جو مال غنیمت ہاتھ آئے) تو وہ (آیت) فان للہ خمسہ ولارسول ولذی القربی “ یعنی نبی ﷺ کے ذوی القربی ” والیتامی ولمساکین وابن السبیل “ اوابن سبیل سے مراد مہمان ہے۔ اور نبی ﷺ کے عہد میں جب مسلمان غنیمت (کامال) پاتے تھے۔ تو وہ اس کا خمس نکالتے اور وہ اس ایک خمس نکالتے اور وہ اس ایک خمس کو چار چوتھائی بناتے تھے۔ اس کا ایک چوتھائی اللہ اور رسول اللہ ﷺ اور نبی ﷺ کے قرابت داروں کے لئے تھا اور نبی کریم ﷺ کا حصہ (گویا) قرابت داروں میں سے ایک آدمی حصہ ہوتا اور دوسرا چوتھائی نبی کریم ﷺ کے لئے تھا اور تیسرا چوتھائی مساکین کے لئے تھا۔ اور چوتھا چوتھائی مسافر کے لئے تھا۔ (پھر) وہ لوگ اس مال کی طرف ارادہ کرتے جو باقی بچ جاتا اور اس کو ان کے حصوں پر تقسیم کردیتے جب نبی کریم ﷺ وفات پاگئے۔ تو ابوبکر ؓ نے حصہ ختم کردیا۔ اور آپ اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں فی سبیل اللہ خرچ کرنے لگے۔ اور یتیموں اور مساکین اور مسافر کے حصے باقی رکھے۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ والبغوی وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں بلقیس کے ایک آدمی سے روایت کیا اور وہ چچا کے بیٹے سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ اس مال کے بارے میں کیا کہتے ہیں آپ نے فرمایا اس کا خمس اللہ کے لئے ہے۔ اور اس کے چار حصے ان لوگوں یعنی مسلمانوں کے لئے ہیں میں نے کہا کیا کوئی ایک زیادہ مقدار ہے کسی ایک سے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اگر میں کھینچ لوں اور ایک حصہ تیرے پہلو سے تب بھی تو اپنے مسلمان بھائی کی نسبت اس سے زیادہ حقدار نہ ہوگا۔ 26:۔ ابن ابی شیبہ وابو الشیخ وابن مردو یہ والبیہقی نے اپنی سنن میں عمروبن شعیب (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ مال غنیمت میں سے زائد تحفہ دیتے تھے مال غنیمت میں خمس کے فریضہ کے نازل ہونے سے پہلے جب (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ نازل ہوئی۔ تو زائد تحفہ دینا ترک فرما دیا اور اس کو خمس کے پانچویں حصہ کے ساتھ مخصوص اور اس سے مراد اللہ کا اور نبی ﷺ کا حصہ ہے۔ 27:۔ ابن ابی شیبہ نے مالک بن عبداللہ الحنفی (رح) سے روایت کیا کہ ہم عثمان غنی ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پوچھا شام والوں میں سے کون ہے ؟ میں کھڑا ہوگیا۔ تو انہوں نے فرمایا معاویہ ؓ کو یہ بات پہنچا دو جب کوئی غنیمت کا مال ملے تو اس میں سے پانچ حصے بنالیں۔ پھر اس میں سے ہر حصہ پر لکھ دے ” للہ “ اللہ کے لئے پھر چاہئے کہ قرع ڈالے پھر جس کے بارے میں قرعہ نکل آئے اسے لے لیں۔ 28:۔ ابن ابی شیبہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ فان للہ خمسہ “۔ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کا حصہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ کا حصہ ایک ہے۔ 29:۔ ابن ابی شیبہ نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ غنیمت کے مال میں خمس اللہ کے لئے ہے اور نبی ﷺ کا حصہ غنیمت کے مال میں سے صفی (یعنی چناؤ) ہے آپ کو اختیار کامل ہے کہ مال غنیمت سے قیدیوں میں سے جو بہتر ہے اسے اپنے لئے چن سکتے ہیں۔ بشرطیکہ مال میں قیدی ہوں۔ ورنہ دوسرا مال بھی آپ چن سکتے ہیں۔ پھر خمس کو نکالا جائے پھر صفی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ آپ کے لئے حصہ نکالا جائے گا چاہے وہ میدان میں حاضر ہوں یا غائب ہوں۔ 30:۔ ابن ابی شیبہ نے عطائ بن سائب (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “ اور ” وما افاء اللہ علی رسولہ “ کے بارے میں پوچھا گیا کہ فئ کیا ہے اور غنیمت کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جب مسلمان مشرکین پر غالب ہوجائیں اور انکو بزور طاقت قوت پکڑلیں پس اس صورت میں جو کچھ انہوں نے مال لیا ان پر یہ غالب آئے۔ تو وہ غنیمت کا مال ہے اور وہ زمین فئ کہلائے گی۔ 31:۔ ابن ابی شیبہ نے سفیان ؓ سے روایت کیا کہ غنیمت کا مال وہ ہے جو مسلمانوں نے طاقت کے ذریعہ حاصل کیا تو اس مال کا پانچ میں سے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور چار حصے ان لوگوں کے لئے ہے جو اس (جہاد) میں شریک ہوئے۔ 32:۔ ابن ابی شیبہ وابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ خمس (مال) میں کیسے کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا ایک آدمی کو آپ ایک حصہ دیتے تھے اللہ کے راستے میں پھر دوسرا آدمی کو پھر تیسرے آدمی کو۔ 33:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے لئے غنیمت کے مال میں سے ایک ہی چیز ہوتی تھی جو وہ اپنے لئے چن لیتے تھے۔ چاہے وہ خادم ہو یا گھوڑا ہو پھر آپ کو حصہ خمس میں سے ہوتا ہے۔ 34:۔ ابن مردویہ نے عباد بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے غنیمت کے مال کو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کردیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے بدر کے موقعہ پر پانچواں حصہ نہیں نکالا اس کے بعد (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے بدر کے بعد ہر مال غنیمت میں سے مسلمانوں سے خمس قبول فرمایا۔ 35:۔ ابن ابی شیبہ وابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے اس خمس پر والی نہیں بنا دیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو خاص کیا ہے۔ تو آپ نے مجھ کو اس کا والی (یعنی نگرانی) مقرر فرما دیا۔ 36:۔ حاکم نے اس کو صحیح کہا حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو خمس کے پانچویں حصہ کا والی بنا دیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ اور ابوبکر ؓ کے عہد میں اس کے صحیح مواقع اور محل میں اسے خرچ کیا۔ 37:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں مکحول (رح) سے روایت کیا کہ جس کو انہوں نے نبی کریم ﷺ تک مرفوع ذکر کیا ہے۔ آپ نے فرمایا گھوڑے کا حصہ نہیں مگر دو گھوڑوں کے لئے۔ اگرچہ اس کے ساتھ ایک ہزار گھوڑے ہوں۔ دشمن کی سرحد عبور کرتے وقت راوی نے پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن گھوڑ سوار کے لئے دو اور پیدل کے لئے ایک حصہ مقرر فرمایا۔ 38:۔ عبدالرزاق نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑ سوار کے لئے دو حصے اور پیدل والے کے لئے ایک حصہ مقرر فرمایا۔ 39:۔ عبدالرزاق نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے خمس کی وصیت کی اور فرمایا کہ میں وصیت کرتا ہوں اس چیز کے ساتھ کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپن ذات کے لئے راضی ہوتے ہیں یہ آیت پڑھو (آیت ) ” واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ “ 40:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان کنتم امنتم باللہ “ یعنی اگر انہوں نے میرے حکم کے ساتھ اقرار کیا ّ (آیت) ” وما انزلنا علی عبدنا “ یعنی جو کچھ محمد ﷺ پر اتارا گیا تقسیم کے بارے میں (آیت) ” یوم الفرقان “ یعنی بدر کے دن (آیت) ” یوم التقی الجمعن “ یعنی جس دن مسلمانوں کا لشکر اور مشرکین کا لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے۔ 41:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ والحاکم نے اس کو صحیح کہا والبیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم الفرقان “ سے مراد ہے بدر کا دن اور بدر پانی کا ایک کنواں ہے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان۔ 42:۔ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم الفرقان “ سے مراد ہے بدر کا دن کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا۔ 43:۔ سعید بن منصور ومحمد بن نصر والطبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یوم الفرقان یوم التقی الجمعن “ کے بارے میں فرمایا کہ بدر کا واقعہ ہوا تھا (جب) رمضان کے مہینے میں سے سترہ دن گزر چکے تھے۔ 44:۔ ابن مردویہ نے علی بن ابی طالب سے روایت کیا کہ غزوہ بدر کی وہ رات جس کی صبح کو دونوں لشکر آپس میں ایک دوسرے کے سامنے آئے اور فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ وہ جمعہ کی رات تھی اور رمضان المبارک کی سترہ تاریخ تھی۔ 45:۔ ابن جریر نے حسن بن علی ؓ سے روایت کیا کہ حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی وہ رات تھی جس کے دن دونوں لشکروں نے آپس میں جنگ کی اور یہ رمضان کی سترہ تاریخ تھی۔ 46:۔ عبدالرزاق وابن جریر نے عروہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید کی ایک کتاب میں کافروں سے لڑنے کا حکم دیا گیا اور وہ پہلا معرکہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ اور اس دن مشرکین کا سردار عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس تھا۔ یہ دونوں جماعتیں آپس میں ملیں بدر کے مقام پر جب رمضان میں سے سولہ یا سترہ راتیں گزر چکیں تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے اصحاب سے تین سو اور کچھ اوپر دس تھے اور مشرکین ہزار اور نو سو کے درمیان تھے اور یہ دن حق میں فیصلہ کردینے والا تھا اس دن اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کے درمیان فیصلہ فرمادیا۔ سب سے پہلے اس دن قتل ہونے والا مھیحح، عمر کا آزادہ کردہ غلام تھا اور انصار میں سے ایک آدمی تھا اس دن اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی ان میں سے ستر آدمیوں سے زیادہ قتل کئے گئے اور اتنے ہی ان میں سے قیدی بنائے گئے۔ 47:۔ ابن ابی شیبہ نے جعفر (رح) سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بدر کا واقعہ سترہ رمضان المبارک کو جمعہ کے دن ہوا۔ 48:۔ ابن ابی شیبہ نے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث ہشام (رح) سے روایت کیا کہ میں ان سے پوچھا گیا کہ بدر کی رات کونسی تھی تو انہوں نے فرمایا یہ جمعہ کی رات تھی جبکہ رمضان میں سے سترہ راتیں باقی تھیں۔ 49:۔ ابن ابی شیبہ نے عامر بن ربیعہ بدر (رح) نے فرمایا کہ بدر کے دن پیر کا دن تھا رمضان المبارک کی سترہ تاریخ تھی۔
Top