Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 7
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ
وَاِذْ
: اور جب
يَعِدُكُمُ
: تمہیں وعدہ دیتا تھا
اللّٰهُ
: اللہ
اِحْدَى
: ایک کا
الطَّآئِفَتَيْنِ
: دو گروہ
اَنَّهَا
: کہ وہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَتَوَدُّوْنَ
: اور چاہتے تھے
اَنَّ
: کہ
غَيْرَ
: بغیر
ذَاتِ الشَّوْكَةِ
: کانٹے والا
تَكُوْنُ
: ہو
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَ
: اور
يُرِيْدُ
: چاہتا تھا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ
: کہ
يُّحِقَّ
: ثابت کردے
الْحَقَّ
: حق
بِكَلِمٰتِهٖ
: اپنے کلمات سے
وَيَقْطَعَ
: اور کاٹ دے
دَابِرَ
: جڑ
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
اور جب اللہ تم سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت تمہارے لئے ہے اور تم خواہش کررہے تھے غیر مسلح جماعت کی وہ تمہارے لئے ہوجائے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کا حق ہونا ثابت فرما دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے
غزوہ بدر رمضان میں پیش آیا : 1:۔ بیہقی نے دلائل میں ابن شہاب اور موسیٰ بن عقبہ ؓ سے دونوں سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ابن الحضرمی کے قتل کے بعد دو ماہ تک ٹھہرے رہے۔ پھر ابوسفیان بن حرب کی قیادت میں قریش کا ایک قافلہ شام کی طرف سے آیا اور اس کے ساتھ ستر سوار تھے۔ اور ان کے ساتھ مکہ والوں کے خزانے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ان کا قافلہ ہزار اونٹ پر مشتمل تھا اور قریش میں سے کسی ایک کے پاس بھی ایک اوقیہ یا اس سے زیادہ ( سونا چاندی) تھا تو اس نے ابو سفیان کے ساتھ بھیج دیا تھا سوائے حویطب بن عبد العزمی کے اسی وجہ سے حویطب بدر سے پیچھے رہ گیا اور اس میں حاضر نہ ہوا۔ ان کا ذکر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کے پاس ہوا اور اس سے پہلے ان کے درمیان لڑائی ہوچکی تھی۔ ابن الحضرمی قتل کردئیے گئے اور دو آدمی عثمان اور حکم قیدی پناہ لئے گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا ابوسفیان کے قافلہ کا بتایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے عدی ابن ابی زغباانصاری کو بھیجا جو نبی غضم میں سے تھے اور ان کی اصل جھینسہ قبیلہ سے تھی۔ اور بسیس یعنی ابن عمرو کو قافلہ کی خبر لینے کے لئے بھیجا۔ وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جہینہ کے ایک قبیلہ کے پاس آئے۔ سمندر کے ساحل کے قریب۔ انہوں نے ان سے قافلہ کے بارے میں اور قریش کے تاجروں کے بارے میں پوچھا انہوں نے اس ( قوم) کے بارے میں ان کو بتایا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس آئے۔ اور آپ کو خبر دی۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو قافلے کے لئے جمع کیا اور یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ ابوسفیان قبائل میں آیا اور وہ لوگ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب سے ڈرتے رہے تھے اس نے پوچھا کیا انہوں نے محمد ﷺ کو دیکھا ہے ؟ اور انہوں نے ان کو دوسواروں عدی بن ابی زغباء اور بسیس کے بارے میں خبر دی اور انہوں نے ان دونوں کے اونٹ کے بیٹھنے کی جگہ کی طرف اشارہ کیا ابوسفیان نے کہا ان دونوں اونٹوں کی لید اٹھا کر لاؤ جب اس نے اس کو توڑا تو اس میں گٹھلی پائی اس نے کہا یہ یثرب والوں کا چارہ اور یہ محمد اور ان کے اصحاب کے جاسوس ہیں تو وہ تیز رفتاری سے چلنے لگے۔ تلاش کے ڈر سے ابو سفیان نے بنو غفار کے آدمی ضمضم بن عمرو کو قریش کے پاس بھیجا کہ جلدی سے آؤ اور اپنے قافلہ کو محمد ﷺ اور اس کے اصحاب سے بچاؤ کیونکہ آپ نے ہمارا راستہ روکنے کے لئے اپنے اصحاب کو جمع کیا ہے۔ اور عاتکہ بنت عبدالمطلب جو مکہ میں رہائش پذیر تھیں اور یہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی تھی اور اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے ایک خوب دیکھا غزوہ بدر اور ضمضم کے آنے سے پہلے اور وہ اس سے گھبرا گئی اس نے اپنے بھائی عباس بن عبد المطلب کو بلا بھیجا اس رات میں عباس ؓ تشریف لائے تو اس نے کہا میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے کہ اس سے میں ڈر گئی اور میں اس سے تیری قوم کی ہلاکت پر ڈرتی ہوں اس نے کہا تو نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا میں ہرگز تجھ کو بیان نہیں کروں گی یہاں تک کہ میں تجھ سے وعدہ لوں گی کہ تو اس کا تذکرہ نہیں کرے گا (کسی کو) کیونکہ اگر انہوں نے اس کو سن لیا تو وہ ہم کو تکلیف دیں گے اور ہم کو ایسی ایسی باتیں کہیں گے۔ جو ہم کو پسند نہیں ہوں گی جب عباس ؓ نے وعدہ کرلیا تو اس نے کہا میں ایک سوار کو دیکھا کہ وہ مکہ کے بلند حقہ سے اپنی سواروں پر آرہا ہے اور اپنی اونچی آواز کے ساتھ چیخ رہا ہے۔ اے دھوکہ دینے والونکل جاؤ دو راتوں میں یہ تین راتوں میں وہ چیخنے والا آیا یہاں تک کہ اپنی سواری پر مسجد میں داخل ہوگیا اور اس نے تین بار شدید آواز کے ساتھ چیخ کر کہا۔ مرد عورتیں اور بچے اس کے جمع ہوگئے۔ اور لوگ بہت گھبراگئے۔ عاتکہ نے کہا پھر میں نے اس کو اپنی سواری پر کعبہ کی چھت پر اس کو دیکھا پھر وہ تین مرتبہ چیخا اور کہا اے اہل غدر اے اہل فجر تم لوگ نکلو دو یا تین راتوں میں پھر میں نے اس کو ابو قیس (پہاڑ) پر اس طرح دیکھا اور وہ کہہ رہا تھا اے غدر اے اہل فجر یہاں تک کہ میں نے اس کو مکہ والوں سے اخشین کے درمیان سے یہ آواز سنی پھر اس نے چٹان کی طرف ارادہ کیا اور اس کو اس کی جڑ سے اکھیڑ دیا پھر اس کو مکہ والوں کی طرف بھیجا۔ اور پس وہ واپس چٹان آئی اس میں شدید حس موجود تھی۔ یہاں تک وہ اصل حیل کے پاس تھی تو وہ پھٹ گئی اور میں نہیں جانتی مکہ میں مگر میں یہ اس چٹان کا ٹکڑا اس میں جاگرا پس اس کے سبب مجھے تمام قوم کے بارے میں خوف اور ڈر لاحق ہوگیا ہے۔ عباس ؓ اس خواب سے گھبراگئے پھر وہ اس کے پاس سے باہر نکلا اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے اس رات کے آخری حصہ میں ملے اور ولید ابن عباس کا دوست تھا اس کو عاتکہ کا خواب سنایا اور اس کو حکم کیا کہ وہ کسی کو نہ بتائے ولید نے اپنے باپ عتبہ کو بتایا اور عتبہ نے اپنے بھائی شیبہ کو بتایا یہ بات چلتے چلتے ابو جہل بن ہشام کو پہنچ گئی۔ اور مکہ والوں میں یہ خبر پھیل گئی جب صبح ہوئی تو عباس ؓ بیت اللہ کا طواف کرنے لگے۔ اس نے مسجد میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ بن ربیعہ، امیہ، ابی بن خلف، رفعہ بن اسود ابو البخری اور قریش کے کچھ لوگوں کو پایا جو آپس میں باتیں کررہے تھے۔ جب انہوں نے عباس کی طرف دیکھا ابو جہل نے اس کو آواز دی اے ابو الفضل ( عباس کی کنیت ہے) جب تو طواف پورا کرچکے تو ہمارے پاس آجانا۔ جب انہوں نے اپنا طواف پورا کرلیا تو (ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ ابو جہل نے ان سے کہا وہ کیا خواب ہے جو عاتکہ نے دیکھا انہوں نے کہا کہ کوئی چیز نہیں دیکھی۔ ابوجہل نے کہا کیا تم راضی ہو اس بات سے اے ہاشم کی اولاد کیا تم مردوں کے جھوٹ پر راضی نہیں وہ یہاں تک کہ تم ہمارے پاس عورتوں کا جھوٹ بھی لانے لگے۔ بیشک میں اور تم دو گھوڑے کی طرح ہیں پس ہم کتنے وقت سے بزرگی اور شرف میں سبقت لے گئے ہیں جب سوار پیچھے رہ گئے تو تم نے کہا کہ ہم میں ایک نبی ہیں۔ اب اس کے سوا کچھ باقی نہیں تھا کہ تم یہ کہو کہ ہم میں سے نبیہ بھی ہے قریش کے گھروالوں کو میں نہیں جانتا ہوں جن میں سے کوئی عورت یا مرد تم سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ہو۔ اور اس کی اذیت اس اذیت سے بڑھ کر ہو۔ اور ابوجہل نے کہا کہ عاتکہ نے یہ خیال کیا کہ سوار نے کہا کہ نکل جاؤ دو یا تین راتوں میں اور اگر یہ تین راتیں گزر گئیں تو قریش کو تمہارا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا۔ اور کتاب میں لکھ دیا جائے گا کہ تم سارے عرب میں ہر گھر کے مرد و عورت سے بڑھ کر جھوٹ بولنے والے ہو۔ اے قصی کی اولاد کیا تم (اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم کو دربانی پر ندوۃ پر سقایہ (یعنی پانی پلاتے) پر لواء پر اور وفد بنانے کے لئے لے جانے پر یہاں تک کہ تم اپنے ہمارے پاس اپنے ہی سے نبی کو لے کر آئے۔ عباس ؓ نے فرمایا کیا تو رک جائے گا کیونکہ جھوٹ تیرے اور تیرے گھروالوں کی طرف ہے ؟ پھر اس آدمی نے کہا جو ان دونوں میں حاضر تھا اور اے ابو الفضل تو جاہل اور بیوقوف نہیں ہے۔ عباس عاتکہ سے اس حال میں ملے کہ وہ ان کو اس خواب کی بنا پر سخت تکلیف پہنچا چکے تھے۔ ابوسفیان کا قاصد مکہ پہنچا : جب اس رات (کے بعد) شام ہوئی جس میں عاتکہ نے خواب دیکھا تھا۔ ان کے پاس سوار آیا جس کو ابو سفیان نے بھیجا تھا اور وہ ضمضم بن عمر وغفاری تھا۔ اور اس نے چیخ چیخ کر کہا اے آل غالب بن فہر کی اولاد ! نکلو محمد ﷺ اور یثرب والے ابوسفیان کا راستہ روکنے کے لئے نکل چکے ہیں اپنے قافلے کو بچاؤ قریش سخت گھبرائے اور عاتکہ کے خواب سے ڈر گئے عباس ؓ نے فرمایا اس کو تم نے اس طرح گمان کیا تھا کہ عاتکہ نے جھوٹ بولا ہے۔ اور وہ ہر گھٹن اور پست راستے پر دوڑنے لگے ابو جہل نے کہا کیا محمد ﷺ گمان کرتے ہیں کہ وہ اس طرح قافلے کو پائے گا جیسے اس نے کھجور والوں کو پالیا ہے۔ عنقریب وہ جان لیں گے۔ کہ ہم اپنے قافلہ کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ یا نہیں (تو یہ لوگ) نو سو پچاس لڑنے والوں کے ساتھ نکلے ان میں سے ایک سو گھڑ سوار تھے انہوں نے کسی شخص کو پیچھے نہیں چھوڑا جو نکلنے کو ناپسند کرتا ہو اور یہ خیال کرتے تھے کہ ان کا یہ نکلنا محمد ﷺ اور ان کے اصحاب کے قہر وظلم کی بنا پر ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی مسلمانوں کو چھوڑا جس کے اسلام کے بارے میں وہ جانتے تھے اور نہ ہی بنو ہاشم میں سے کسی کو چھوڑا انہوں نے اپنے تمام افراد کو اپنے ساتھ لے جانے پر مجبور کیا پس وہ افراد جن کو انہوں نے مجبور کیا وہ عباس بن عبدالمطلب ؓ ، نوفل بن حارث، طالب بن ابی طالب اور عقیل بن ابو طالب آخر میں سے تھے وہاں طالب بن ابی طالب نے کہا۔ اما یخرجن طالب بمقنب من ھذہ المقانب : ترجمہ :۔ کیا ان چھتوں میں سے ایک چھتے کے ساتھ طالب (مجبور ہو کر نکلے) گا جنگجو وں کے اے گروہ کے ساتھ : فی نفر مقاتل یجارب و لیکن المسلوب غیر السالب : ترجمہ :۔ جو جنگ لڑے گا لیکن غنائم (چھینا ہوا سامان) چھننے والے سوار کے لئے ہوں گے۔ : والراجع المغلوب غیر الغالب : ترجمہ : اور مغلوب ہو کر لوٹنے والے غالب کے سوا ہوں گے۔ یہ لوگ چلے یہاں تک کہ حجفہ میں نازل ہوئے وہ عشاء کے وقت پہنچے اور پانی سے کھانا تیار کرنے لگے۔ ان میں سے ایک آدمی بنوالمطلب بن عبد المناف میں سے تھا جس کو جھیم بن خلت بن مخرمہ کہا جاتا ہے۔ جہیم (رح) نے اپنے سر کو رکھا اور اس کو اونگھ آگئی پھر گھبرایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کیا تم نے شہسوار کو دیکھا ہے۔ جو مجھ پر ابھی ابھی کھڑا تھا انہوں نے کہا نہیں بلا شبہ تو مجنون ہے اس نے کہا ابھی میرے پاس ایک گھوڑسوار کھڑا تھا اس نے کہا ابو جہل عتبہ شیبہ، زمعہ اور ابوالبختری اور امیہ خلف قتل کردئے گئے۔ اس نے کفار قریش کے بڑے بڑے لوگوں کو شمار کیا اور اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ تیرے ساتھ شیطان کھیل کر رہا ہے۔ جہیم کی بات ابوجہل تک پہنچا دی گئی اس نے کہا تم بنی ہاشم کے جھوٹ کے ساتھ بنی مطلب کے جھوٹ کو بھی لے لو کل کو تم دیکھوگے کون قتل کرتا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کو قریش کے قافلے کے بارے میں بتایا گیا جو شام سے آرہا ہے اور اس میں ابو سفیان بن حرب مخرعہ بن نوفل، عمرو بن عاص، اور قریش کی ایک جماعت تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کی طرف نکلے جس وقت اندر کی طرف نکلے تو آپ بنو دینار کے سوراخ تک چلے اور واپس لوٹے اور آپ لوٹ آئے ثنیہ الوداع سے اور جب رسول اللہ ﷺ نے مثلہ شروع کیا اس وقت آپ کے ساتھ تین سو سترہ آدمی تھے اور ابن ناسخ کی روایت میں ہے کہ وہ تین سو تیرہ آدمی تھے اور آپ کے بہت سے اصحاب آپ سے پیچھے رہ گئے اور انتظار کرتے رہے۔ اور یہ پہلا واقعہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دی اور آپ رمضان المبارک میں نکلے۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد اٹھارویں مہینے کا آغاز تھا۔ اور آپ کے ساتھ جو مسلمان تھے وہ صرف قافلے کا ارادہ رکھتے تھے آپ بنودینار کے نقب تک چلے اور مسلمان سخت راستے سے چلنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ وہ اونٹوں پر نکلے ان میں سے ایک آدمی اونٹ پر سوار کے پیچھے ہوا تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار ہونے والے علی بن ابی طالب اور مرشد بن ابی غنوی تھے اور مرشد، حمزہ کے حلیف تھے۔ وہ بھی آپ کے ساتھ تھے مگر ان کے پاس صرف ایک اونت تھا یہ لوگ چلتے رہے یہاں تک کہ جب عرق الظبیہ میں تھے تو ان کو ایک سوار آتے ہوئے ملا۔ اور مسلمان چل رہے تھے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ اس کے ساتھ ٹھہرگئے اور اس سے ابو سفیان کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ جب لوگ اس خبر کے بارے میں مایوس ہوئے تو انہوں نے اس آدمی سے کہا نبی ﷺ کو سلام کرو اس نے کہا تمہارے اندر اللہ کے رسول ہیں صحابہ نے کہا ہاں ! اس نے کہا وہ کون ہیں صحابہ نے آپ کی طرف اشارہ کیا تو دیہاتی نے کہا تو اللہ کا رسول ہے جیسے تو کہتا ہے آپ نے فرمایا ہاں اس نے کہا اگر تم اللہ کا رسول ہے جیسے تو گمان کرتا ہے تو مجھ کو بتا اس چیز کے بارے میں جو میری اس اونٹنی کے پیٹ میں ہے ؟ انصار میں سے ایک آدمی بنواشہل کے قبیلہ میں سے جس کو سلتہ بن سلامہ بن وقش کہا جاتا تھا وہ بہت غصہ ہوگئے اس نے دیہاتی سے کہا تو اپنی اونٹنی پر واقع ہوجاتا کہ وہ تجھ سے حاملہ ہوجائے رسول اللہ ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا جو کچھ مسلمہ نے کہا جب آپ نے اس کو سنا تو اسے فحش قرار دیا۔ آپ نے اس سے اعراض فرمایا پھر رسول اللہ ﷺ چلے آپ کو کوئی خبر موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی قریش کی تعداد کا علم ہوا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم کو مشورہ دو ہمارے کلام میں اور ہمارے سفر کے بارے میں ابوبکر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ میں لوگوں میں سب سے زیادہ زمین کی مسافت کے بارے میں جاننے والا ہوں۔ ہم کو خبر دی عدی بن ابی رغباء نے کہ اونٹ فلاں نامی وادی میں ہے۔ ہم اور وہ لوگ دو فرسخ پر ہیں بدر کی طرف پھر آپ نے فرمایا اپنی رائے کا اظہار اور میری رہنمائی کرو عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ یہ قریش ہیں جب سے انہوں نے عزت اور غلبہ حاصل کیا۔ وہ ذلیل نہیں ہوئے۔ اور جب سے وہ کافر ہوئے ہیں وہ ایمان نہیں لائے۔ اللہ کی قسم آپ ضرور اپنے خاندان کے افراد سے قتال کریں گے پس اس کے لئے جو یہ تیار کیجئے اس کے لئے اعداد شمار کرلیجئے (پھر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میری رہنمائی کرتے ہو مقداد بن عمرو نے فرمایا ہم آپ کو وہ بات نہیں کہتے جسے موسیٰ کے اصحاب نے کہی تھی۔ یعنی آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “ (المائدہ آیت 24) آپ اور آپ کا رب جانے اور دونوں لڑیں بیشک ہم آپ کے ساتھ آپ کے پیچھے ہوں گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اپنی رائے سے آگاہ کرو جب سعد بن معاذ ؓ نے دیکھا نبی ﷺ گے پھر رسول اللہ ﷺ کا کثرت سے اور بار بار اپنے اصحاب سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ لوگ مشورہ دے رہے ہیں۔ اور آپ فرما رہے ہیں ان کو آپ سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تو سعد بن معاذ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ شاید آپ ڈر رہے ہیں کہ انصار آپ کی غم خواری اور دلجوائی کا ارادہ نہ رکھتے ہوں اور وہ اسے اپنے اوپر حق خیال کرتے ہوں۔ مگر صرف اس صورت میں کہ وہ دشمن کو اپنے گھر میں اور اپنی اولاد کو اپنی عورتوں کے ساتھ اور میں انصار کی طرف سے یہ کہتا ہوں اور ان کی طرف سے جواب دیتا ہوں یا رسول اللہ ﷺ کوچ کریں جہاں آپ چاہیں اور ہمارے مالوں میں سے لے لیں جو آپ چاہیں پھر ہم کو عطا فرمائیں جو آپ چاہیں اور جو کچھ ہم سے لیں گے ہو ہم کو زیادہ محبوب ہے ان چیزوں سے جو آپ چھوڑ دیں اور جو حکم بھی آپ نے جاری کیا ہماری رائے آپ کے حکم کے تابع رہے گی۔ اللہ کی قسم اگر آپ چلتے رہے یہاں تک کہ ذی یمن کے تالاب تک پہنچ گئے ہم اور آپ کے ساتھ چلیں گے۔ جب یہ بات سعد نے فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چلو اللہ کے نام پر بیشک میں نے تحقیق دیکھ لیا ہے قوم کے مقتولین کے گرنے کو پس آپ نے بدر کے لئے ارادہ فرما لیا۔ ابوسفیان نے تھوڑا سا قیام کیا پھر ساحل سمندر کے ساتھ مل گیا اور اس نے قریش کی طرف دیکھا جب اس نے اپنا راستہ رسول اللہ ﷺ کے راستے سے بدل لیا اور ایسے یقین ہوگیا کہ اس نے محفوظ کرلیا۔ اس مال کو جو اس کے پاس ہے اور ان کو حکم دیا کہ وہ واپس لوٹ جائیں کیونکہ تم اس لئے نکلے ہوتا کہ اپنے مال اور سواروں کی حفاظت کرو اب قافلہ محفوظ ہوچکا ہے۔ اور ان کو یہ خبر جحفہ کے مقام پر پہنچی۔ ابو جہل نے کہا اللہ کی قسم ہم واپس نہیں لوٹیں گے کیونکہ کوئی بھی ہمارے بارے میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ وہ ہمارے ساتھ لڑے گا۔ اس بات کو اخنس بن شریق نے ناپسند کیا اور وہ اس بات کو پسند کرتا تھا کہ وہ واپس لوٹ جائیں اور ان کو لوٹ جانے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے انکار کیا اور نہ مانے اور ان کو جاہلیت کی غیریت نے پکڑ لیا۔ جب اخنس مایوس ہوگیا قریش کے لوٹنے سے تو وہ بنو زہرہ کی طرف جھک گیا اور انہوں نے کہنا مان لیا اور واپس لوٹ گئے اور ان میں کوئی ایک بھی بدر میں حاضر نہیں ہوا وہ لوگ خوش ہوئے اخنس کی رائے سے اور اس نے خوب برکت حاصل کی۔ چناچہ مسلسل ان میں اس کی اطاعت ہوتی رہی یہاں تک کہ وہ مرگیا اور بنوہاشم نے بھی لوٹنے کا ارادہ کیا ان لوگوں نے جو لوٹے تو ابوجہل نے ان پر سختی کی اور کہا اللہ کی قسم تم یہ جماعت ہم میں تفریق نہیں ڈال سکے گا۔ یہاں تک کہ ہم خود لوٹ جائیں۔ رسول اللہ ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ بدر کے قریب ایک جگہ پر اترے پھر آپ نے علی بن ابی طالب اور زبیر بن عوام انصاری ؓ کو بھیجا اپنے اصحاب میں سے ایک جماعت کے ہمراہ اور ان سے فرمایا ان ٹیلوں کے پاس جاؤ اور یہ (ٹیلہ) بدر کے ایک کنارے واقع ہیں۔ بلاشبہ میں امید کرتا ہوں کہ تم خبر کو پاؤ گے ان کنووں کے پاس جو ٹیلوں کے اوپر ہے وہ لوگ تلواروں کو لٹکائے ہوئے چلے۔ اور انہوں نے قریش کو اس کنویں کے پاس موجود پایا جس کا ذکر رسول اللہ ﷺ فرمایا تھا انہوں نے دو غلاموں کو پکڑا ان میں سے ایک حجاج بن اسود کا تھا۔ اور دوسرا ابوالعاص کا تھا جس کو اسلم کہا جاتا تھا ان کے مالک قریش کی جانب تھے ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا اور آپ اس وقت پانی کے قریب ایک خیمہ میں تے۔ انہوں نے غلاموں سے پوچھنا شروع کیا ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں کہ ان کا گمان یہ تھا کہ دونوں اس کے ساتھی ہٰں۔ اور وہ دونوں ان سے قریش کے متعلق پوچھنے لگے کہ ان میں کتنے لوگ ہیں۔ اور ان کو ان کے سردار شامل ہیں لیکن یہ لوگ ان کی باتوں کو جھٹلانے لگے کیونکہ جس شے کے متعلق خبر دے رہے تھے ان کے نزدیک وہ ناپسند یدہ تھی۔ کیونکہ یہ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں سننا چاہتے تھے کہ قریش کو ناپسند کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور اس کی گفتگو سن رہے تھے اور اس حالت کو دیکھ رہے تھے۔ جب غلاموں کو مار پیٹ کر خوب کمزور کردیا تو وہ کہنے لگے ہاں یہ ابو سفیان اور اس کا قافلہ ہے ؟ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ’ اسفل منکم “ (یعنی وہ تم سے نیچے ہے) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اذ انتم بالعدوۃ الدنیا وھم بالعدوۃ القصوی والرکب اسفل منکم ولو تواعدتم لاختلفتم فی المیعد ولکن لیقضی اللہ امر اکان مفعولا “۔ پس وہ اسی طرح کرتے رہے کہ جب غلام نے کہا یہ قریش تمہارے قریب آچکے ہیں۔ تو وہ ان کو جھٹلا دیتے اور جب ان دونوں نے کہا یہ ابو سفیان تو ان دونوں کو چھوڑ دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب ان (غلاموں) کے ساتھ معاملہ ہوتے دیکھا تو آپ نے اپنی نماز سے سلام پھیر دیا۔ اور فرمایا تم کو کیا خبر دی گئی ؟ انہوں نے کہا ہم کو یہ خبر دی گئی کہ قریش آچکے ہیں آپ نے فرمایا ان دونوں نے سچ کہا اللہ کی قسم تم نے ان دونوں کو مارا جب انہوں نے سچ بولا اور تم نے ان کو چھوڑ دیا جب انہوں نے دونوں نے سچ کہا اللہ کی قسم تم نے ان دونوں کو مارا جب انہوں نے سچ بولا اور تم نے ان کو چھوڑ دیا جب انہوں نے جھوٹ بولا قریش اپنے سواروں کی حفاظت کے لئے نکلے تھے اور تم اس پر خوف کررہے ہو۔ تو رسول اللہ ﷺ نے دونوں غلاموں کو بلایا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے قریش کے بارے میں خبردی اور کہا کہ ہم کو ابو سفیان کا کوئی علم نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے سوال کیا کہ کتنی قوم ہے ان دونوں نے کہا ہم نہیں جانتے اللہ کی قسم وہ بہت ہیں۔ انہوں نے گمان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گزشتہ دن کس نے ان کو کھانا کھلایا تو انہوں نے قوم میں سے ایک آدمی کا نام لیا ان کے لئے کتنے اونٹ ذبح ہوئے انہوں نے کہا دس اونٹ پھر پوچھا۔ بلاشبہ کل سے پہلے انہیں کسی نے کھلایا تو انہوں نے دوسرے آدمی کا نام لیا آپ نے پوچھا اس نے کتنے اونٹ ذبح کئے تھے ـ؟ انہوں نے کہا نو اونٹ یہ گفتگو سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان کے لشکر کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے نو اونٹوں کے ذریعہ اس کا اندازہ لگایا گیا جو انہوں نے ایک دن میں ذبح کئے تھے اور ایک دن میں دس اونٹ ذبح کئے تھے۔ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ : رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھ کو چلنے میں مشورہ دو ۔ بنوسلمۃ میں سے ایک آدمی حباب بن منذر کھڑے ہوئے اور کہا رسول اللہ ﷺ میں اس جگہ اور اس کے کنویں سے واقف ہوں اگر آپ مناسب سمجھیں کہ آپ اس میں سے کنویں تک چلیں۔ میں اس کو جانتا ہوں کہ پانی زیادہ اور میٹھا ہے۔ تو آپ اس کی طرف اتریں اور ہم قریش سے پہلے اس کنویں میں پہنچ جائیں گے اس کے سوا دوسرے کنووں کو تلاش کرلیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چلو ! کہ اللہ تعالیٰ نے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ کہ وہ تمہارے لئے ہے۔ لوگوں کے دلوں میں بہت خوف واقع ہوگیا۔ اور ان میں شیطان کی جانب سے خوف زدہ اور ذلیل ورسوا کرنے کے لئے وسوسہ بھی ڈالتا تھا اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمان تیز رفتاری کے ساتھ پانی کی طرف آگے بڑھ رہے تھے۔ اور مشرکین بھی جلدی جلدی چل رہے تھے پانی کا ارادہ کرتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اس رات میں ایک بارش کو اتارا۔ تو مشرکین پر ایک بڑی مصیبت تھی کہ ان کو چلنے سے روک دیا اور مسلمانوں پر وہ ہلکی بارش تھی کہ اس نے ان کے لئے راستے اور چیزوں کو ہموار اور پختہ کردیا وہ زمین چھوٹی چھوٹی کنکریوں اور ریت والی تھی۔ مسلمان پانی کی طرف سبقت کرگئے اور اس پر آدھی رات کے وقت اترے۔ قوم کے افراد کنویں میں اتر گئے اور اس کو صاف کیا یہاں تک کہ اس کا پانی بہت ہوگیا انہوں نے بڑا حوض بنایا اس میں پانی بھر دیا اور باقی پانی ضائع کردیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انشاء اللہ کل یہ مقامات ان کے مقتولین کے گرنے کی جگہ ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” اذ یغشیکم النعاس امنۃ منہ وینزل علیکم من السماء مآء لیطھرکم بہ ویذھب عنکم رجز الشیطن ولیربط علی قلوبکم ویثبت بہ الاقدام (11) “ پھر رسول اللہ ﷺ نے حوضوں پر صف بنالی۔ جب مشرکین سامنے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! یہ قریش آچکے ہیں اپنے تکبر اور اپنے فخر کے ساتھ آپ سے جھگڑا کرتے ہیں اور اپنے رسول کو جھٹلاتے ہیں اے اللہ میں آپ سے اس وعدہ کا سوال کرتا ہوں۔ جس کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ ابوبکر ؓ کا بازو پکڑے ہوئے تھے۔ اور فرمایا اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس چیز کا جس کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے ابوبکر ؓ نے فرمایا آپ خوش ہوجائیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے ضرور پورا فرمائیں گے۔ جو آپ سے وعدہ فرمایا ہے۔ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لئے اور مسلمانوں کے لئے دعا کو قبول فرمایا مشرکین آئے اور ان کے ساتھ سراقہ بن جعشم کی شکل میں ابلیس بھی تھا۔ وہ اس کو بتارہا تھا کہ بنوکنانہ ان کے پیچھے ہیں وہ اس کی مدد کے لئے آرہے ہیں۔ اور آج کے دن لوگوں میں سے تم پر کوئی غالب نہیں ہوسکتا اور میں تمہارے ساتھ ہوں جب ان لوگوں کو بنو کنانہ کے چلنے کی خبر دی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ( آیت) ” ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارہم بطرا ورئآء الناس “ یہ آیت اور جو اس کے بعد ہے اور مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے کہا جب انہوں نے محمد ﷺ کے ساتھ تھوڑی تعداد کو دیکھا کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکہ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری (آیت) ” ومن یتوکل علی اللہ فان اللہ عزیز حکیم (49) “۔ مشرکین میدان میں اترے اور جنگ کے لئے خوب کوشش کی اور شیطان ان کے ساتھ تھا ان سے جدا نہیں تھا اور ان کے خون کا اور اس قافلے کا بدلہ لے سکتا ہے۔ جس پر محمد ﷺ نے حملہ کی کوشش کی اور لوگوں کو مطالبہ بھی کیا یہ بدلہ لیا جائے بلاشبہ وہ لوگ محمد ﷺ سے طلب نہیں کرتے ہیں سوائے اس قافلے کے اور اس آدمی کے خون کے بدلے کے عتبہ نے کہا ہاں ٹھیک ہے تو نے خوب اچھا کہا ہے۔ اور اچھائی کی طرف دعوت دی ہے تو اپنے کنبے میں کوشش کر اور میں اس بارے میں کوشش کرتا ہوں تو حکیم بن حزام نے قریش کے سرداروں کے پاس جاکر اس کی کوشش کی کہ ان کو اس کی طرف بلایا جائے عقبہ اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور مشرکین کی صفوں میں اپنے ساتھیوں کی طرف نکلا اور کہا اے میری قوم میری اطاعت کرو۔ بلاشبہ تم نہیں طلب کرتے اس کے پاس سے سوائے ابن الخضرمی کو اور جو انہوں نے تمہارے قافلہ پر حملہ کیا اس کے بدلہ کو اور میں اہتمام کرتا ہوں اس کو پورا کرنے کے لئے اور تم اس آدمی کو چھوڑو اگر یہ جھوٹا ہے پھر دوسرے لوگ اس کو قتل کردیں گے سوائے عرب کے ان میں سے کچھ لوگ ہیں اور تمہارے لئے ان میں قریش رشتہ داری ہے۔ اور بلاشبہ تم اگر ان کو قتل کردیں گے سوائے عرب کے ان میں سے کچھ لوگ ہیں اور تمہارے لئے ان میں قریش رشتہ داری ہے۔ اور بلاشبہ تم اگر ان کو قتل کرو گے تو ایک آدمی تم میں سے برابر دیکھے گا اپنے باپ اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا چچا کے بیٹے کے قاتل کو جس کے سبب لوگوں میں ہلاکت اور بغض اور کینہ عام ہوجائے۔ اور اگر تم آدمی بادشاہ ہو تو تم اپنے بھائی کی حکومت میں ہوں گے اور اگر وہ نہیں بن سکتے یہاں تک کہ وہ اپنی تعداد کے برابر افراد کو قتل کردیں گے اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ تمہارے لئے ان کے خلاف شکست ہوجائے گی ابو جہل نے اس کی باتوں کو پسند نہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے فیصلہ ہو کر رہتا ہے۔ ابوجہل نے مقتول کے بھائی ابن حذمی سے ملاقات کی اس نے کہا یہ عتبہ ہے لوگوں کو جنگ نہ کرنے پر آمادہ کریں حالانکہ اپنے بھائی کی دیت پاسکتا ہے اس کا گمان ہے کہ تو اس کو قبول کرلے گا۔ کیا دیت قبول کرنے سے تم کو حیا نہیں آئے گی۔ گمان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اور وہ عتبہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قوم میں سے اگر کسی ایک کے پاس نیکی اور بھلائی ہے اور وہ اس طرح اونٹوں والوں کے پاس ہے اگر وہ لوگ اس کی اطاعت کریں گے تو ہدایت حاصل کرلیں گے۔ ابوجہل نے قریش کو لڑائی پر ابھارا اور عورتوں کو حکم دیا کہ وہ عمر نام کی دھائی دیں وہ کھڑی ہوئیں اور چیخ چیخ کر پکارنے لگیں واعمراہ واعمراہ اور یہ لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنے لگے۔ قریش لڑائی پر جمع ہوگئے اور عتبہ نے ابوجہل سے کہا عنقریب آج کے دن وہ جان لیں گے کہ دو کاموں میں سے کون سا کام صحیح اور سود مند ہے۔ قریش نے میدان جنگ میں صفیں باندھیں اور انہوں نے عبد بن وھب سے کہا سوار ہو کر جاؤ محمد ﷺ اور اس کے اصحاب کو دراؤ اور تعداد کا اندازہ لگاؤ عمیر اپنے گھوڑے پر بیٹھا رسول اللہ ﷺ اور اس کے اصحاب کے گرد چکر لگایا پھر وہ مشرکین کی طرف لوٹ آیا اور کہا میرے اندازے کے مطابق تین سو جنگجو ہیں (اس سے) کچھ زیادہ ہوں گے یا اس سے کچھ کم ہوں گے اندازا سترہ اونٹ ہیں یا اس طرح (کی تعداد ہوگی) لیکن وہ مجھ کو دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ میں دیکھ رہا تھا کیا ان کے لئے (کوئی اور) مدد ہے یا گھاٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ ان کے گرد گھوما اور انہوں نے اپنے گھڑ سوار ان کے ساتھ بھیجے تو انہوں نے بھی ان کے گرد چکر لگائے پھر وہ لوٹ آئے اور کہا نہ ان کی اور کوئی مدد ہے اور نہ کوئی گھات میں بیٹھے ہیں بیشک وہ تو اونٹوں کا نوالہ ہے۔ عمیر نے قریش سے کہا قوم میں قریش پیدا کرو ان کے جذبات کو للکارو۔ چناچہ عمیر نے سو شہسواروں کے ساتھ اسلامی لشکر کی صف پر حملہ کردیا۔ رسول اللہ ﷺ لیٹے ہوئے تھے اور آپ نے اصحاب سے فرمایا تم قتال نہ کرنا یہاں تک کہ تم کو اجازت دی جائے۔ آپ کو نیند نے ڈھانک لیا اور آپ پر غلبہ کرلیا جب لشکر کے بعض لوگوں نے بعض کی طرف دیکھا تو ابوبکر ؓ نے کہنا شروع فرمایا یا رسول اللہ ﷺ (مشرک) قوم قریب آگئی اور ہم کو انہوں نے پالیا رسول اللہ ﷺ جاگے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی نیند میں دکھایا (کافروں کو) تھوڑی تعداد میں اور مشرکین کی آنکھ میں مسلمانوں کو بھی تھوڑا دکھایا۔ یہاں تک کہ قوم کے بعض افراد بعض میں حرص اور لالچ کرنے لگے (یعنی وہ ان کو قتل کرنے کا ارادہ کرنے لگے) کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو ان کی کثیر تعداد دکھاتا تو وہ بزدل ہوجاتے اور (لڑائی کے) حکم میں آپس میں جھگڑتے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے درمیان کھڑے ہوائے اس کو وعظ فرمایا اور ان کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کردی ہے اس شخص کے لئے جو آج شہادت پائے گا عمیر بن حجام آٹا گوندھتے ہوئے کھڑے ہوئے اور وہ صحابہ ؓ کے لئے آٹا گوندھا کرتے تھے جب نبی ﷺ کا قول سنا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے جنت ہے مگر میں قتل کردیا جاوں فرمایا ہاں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں پر دھاوا بول دیا اپنی جگہ پر اور شہید ہوگئے یہ پہلا مقتول تھا جو قتل ہوا پھر اسود بن عبدالاسد مخزن سامنے آیا اور اپنے معبودوں کی قسم کھاتے ہوئے کہا میں ضرور اس حوض میں پانی پیئوں گا جس کو محمد ﷺ نے بنایا ہے۔ اور میں ضرور اس کو گراوں گا جب حوض کے قریب ہوا حمزہ بن عبد المطلب ؓ اس سے ملا اور اس کے پاوں کو کاٹ دیا پھر وہ سرین کے بل چلتا ہوا سامنے آیا یہاں تک کہ حوض کے اندر گرپڑا حمزہ اس کے پیچھے لگے یہاں تک کہ اس کو تقل کردیا پھر عتبہ بن ربیہ اپنے اونٹ سے اترا اور اس نے آواز لگائی : ہے کوئی مقابلہ کے لئے نکلنے والا۔ اس کو اس کے بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بھی پیچھے سے آملے۔ دونوں نے آواز لگائی اور دونوں مقابلے کا سوال کررہے تھے انصار میں سے تین آدمی ان کی طرف اٹھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھ کر حیا محسوس کی۔ اور ان کو آواز دی کہ تم لوٹ آؤ اپنی صفوں کی طرف اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کے چچا کے بیٹوں کو آنا چاہئے۔ حمزہ، علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہوئے حمزہ نے عتبہ کو قتل کیا۔ عبیدہ نے شیبہ کو قتل کیا علی نے ولید کو قتل کیا اور شیبہ نے عیبدہ کی ٹانگ پر ضرب لگائی اور اس کو کاٹ دیا، حمزہ اور علی نے ان کو بچا لیا اور ان کو اٹھالیا یہاں تک کہ وہ صفرا کے مقام پر وفات پاگئے اور اس کے پاس ہندبنت عقبہ نے نذر مانی کہ وہ ضرورچبائے گی۔ حمزہ کے جگر کو اگر میں نے اس پر قدرت حاصل کرلی پس دونوں لشکروں کے آپس میں جنگ کرنے سے پہلے یہ افراد قتل ہوگئے مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف گڑ گڑائے اور اس سے مدد مانگی جب انہوں نے لڑائی کو دیکھا کہ وہ شروع ہوچکی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھایا اور اللہ تعالیٰ سے اس (فتح) کا سوال کیا جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اور اس سے مدد کا بھی سوال کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ اگر شرک والی جماعت اس ایمان والی جماعت پر غالب آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ضرور مدد فرمائیں گے اور آپ کے چہرہ کو ضرورروشن فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے اطراف میں فرشتوں کا لشکر اتارا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کو نازل فرما دیا ہے۔ اے ابوبکر ؓ خوش ہوجاؤ فرشتے نازل ہوگئے میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو پگڑی باندھے ہوئے دیکھا ہے۔ جو گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔ آسمان و زمین کے درمیان جب وہ زمین کی طرف اترے تو اس گھوڑے پر بیٹھ گئے۔ مجھ سے ایک لحظہ میں غائب ہوگئے اور میں نے ان کے چہرہ پر غبار کو دیکھا ابو جہل نے کہا اے اللہ دو دینوں میں بہتر دین کی مدد فرما۔ اے اللہ ہمارا دین پرانا ہے اور محمد ﷺ کا دین نیا ہے۔ اور شیطان کے بل الٹے پاوں بھاگا جب اس نے فرشتوں کو دیکھا اور اپنے دوستوں کی مدد سے دست بردار ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہتھیلی کو کنکریوں سے بھر کر مشرکین کے چہروں کی طرف پھینکا اللہ تعالیٰ نے ان کنکریوں کو عظیم مثال عطا فرمائی۔ اور ان کنکریوں نے مشرکین میں سے کسی مرد کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ ان کی آنکھوں کو بھر دیا اور فرشتے ان کو قتل کررہے تھے اور ان کو قید کررہے تھے اور ان میں سے ہر آدمی چہرے کے بل گرتا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ جدھر منہ کرتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں مٹی پڑجاتی ہے۔ بدر میں مشرکین و منافقین ذلیل ہوئے : (لڑائی ختم ہونے کے بعد) قریش مکہ کی طرف لوٹے شکست کھاتے ہوئے اور مغلوب کئے ہوئے بدر کے واقعہ سے اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور منافقین کو ذلیل ورسوا کردیا۔ مدینہ منورہ میں کوئی یہودی اور کوئی منافق باقی نہیں رہا۔ مگر وہ واقعہ بدر کی وجہ سے اپنی گردن کو جھکائے ہوئے تھا۔ اور یہ حق و باطل کے درمیان امتیاز کا دن تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے شرک اور ایمان کے درمیان فرق کردیا۔ اور یہودیوں نے یقین کرلیا کہ یہ وہی نبی ہیں کہ جن کی صفت ہم تورات میں پاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی قسم آج کے بعد سے جو علم کو بلند کرے گا وہی غالب آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئے اور تثنیۃ الوداع سے داخل ہوئے۔ قرآن نازل ہوا کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اپنی ایسی نعمت کا تذکرہ فرمایا جنہوں نے ناپسند کیا تھا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بدر کی طرف نکلنے کو اور فرمایا (آیت) ” کما اخر جک ربک من بیتک بالحق، وان فریقا من المومنین لکرھون (5) یہ آیت اور اس کے ساتھ اور تین آیات نازل ہوئی اور اس سے دعا قبول کرنے کا کرتے ہوئے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ اور ایمان والوں کے لئے (اور فرمایا) (آیت) ” اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم “ (الا یہ) اور دوسری آیات بھی نازل فرمائی اس کے ساتھ ہے جب اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کردی، تو یہ آیت نازل فرمائی۔ یعنی (آیت) اذ یغشیکم النعاس “ الایہ بھی ان کو خبر دی اس بات کی جو فرشتوں کی طرف وحی کی گئی ان کی مدد کرنے سے (اسی کو فرمایا) (آیت) ” اذ یوحی ربک الی الئکۃ انی معکم “ الا یہ اور جو اس کے بعد وہ بھی نازل فرمائی اور مشرکین کے قتل میں نازل فرمائی اور مشرکین کے قتل میں نازل فرمایا اور جو رسول اللہ ﷺ نے ایک فیصلہ کے مطابق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ (آیت) ” ان تستفتحوا جاء کم الفتح “ اللہ تعالیٰ نے (آیت) یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ ورسولہ “ کا حکم نازل فرمایا سات آیات میں سے اور اس کا حکم کا تذکرہ فرمایا (آیت) اذ انتم بالعدوۃ الدنیا “ نازل فرمایا اور اس کے بعد والی آیت مجروسی کے بارے میں نازل فرمایا اور اس میں اس آدمی کی بات کو بھی اتارا جس نے مسلمانوں کو تھوڑی تعداد میں دیکھ کر کہا (آیت) ” غر ھولاء دینہم “ (یہ ان کو ان کے دین نے مغرور کردیا) اور مشرکین کے مقتولین اور اس کے تابعداری کرنے والوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولو تری اذ یتوفی الذین کفروا “ (آخرتک) اور اس کے ساتھ آٹھ آیات اور بھی ہیں۔ : 2۔ ابن اسحاق اور ابن جریر نے اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ابوسفیان کے بارے میں سنا کہ وہ شام سے آرہا ہے تو مسلمانوں کو ان کی طرف بلایا اور فرمایا یہ قریش کا قافلہ ہے جس میں ان کا مال تجارت کثرت سے ہے۔ ان کی طرف نکلو اور اللہ تعالیٰ اس کے سبب تمہاری مشکل کھول دے گا۔ اور لوگوں نے اس رائے کو قبول کیا ان میں سے بعض نے حقیر جانا۔ اور ان میں سے بعض کے لئے ابو جہل ثابت ہوا کہ ان کو یہ خیال نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ لڑائی کریں گے۔ ابوسفیان جب حجاز سے قریب ہوا تو اس نے خبروں (کے حاصل کرنے) میں کوہ لگائی اور جو سوار ملتا اس سے پوچھتا تھا لوگوں کے معاملے کے بارے میں خوف کرتے ہوئے یہاں تک کہ ایک سور نے اسے یہ خبر پہنچا دی کہ محمد ﷺ نے اپنے اصحاب کو تیرے لیے جمع کیا ہوا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی وہ خوف زدہ ہوگیا ابوسفیان نے ضمضم بن عمرو غفاری کو مزدوری پر لیا اور اسکو مکہ بھیجا اور اس کو حکم کیا کہ وہ قریش کو ساتھ لے کر آئے اور ان کو اپنے مالوں کے لئے جمع کرے اور ان کو خبردے کہ محمد ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ قافلہ کو روکا ہے۔ وہ جلدی جلدی مکہ کی طرف نکلا اور رسول اللہ ﷺ جب وہ جبران میں پہنچے آپ کے پاس خبرآئی کہ قریش بھی اپنے قافلے کی حفاظت کے لئے چل پڑے ہیں نبی ﷺ نے لوگوں سے مشورہ طلب فرمایا ابوبکر ؓ کھڑے ہوگئے اور بہت اچھی گفتگو فرمائی پھر عمر کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی بہت اچھی گفتگو فرمائی پھر مقداد بن عمرو ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ حکم نافذ کیجئے جو کچھ اللہ نے حکم فرمایا ہے اور ہم آپ کے ساتھ ہیں اللہ کی قسم ہم آپ کو ہرگز ایسا نہیں کہیں گے جیسے بنواسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا (آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “ (المائدہ آیت 24) آپ اور آپ کا رب لڑے بلکہ ہم تمہارے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے اگر آپ ہم کو برک الغماد تک لے چلیں تو ہم وہاں پہنچنے تک آپ کے ساتھ رہیں گے۔ اس کے آگے بھی یہاں تک کہ ہم اس (دشمن) کو پہنچیں گے رسول اللہ ﷺ نے دعائے خیر سے نوازا اور اس کو دعا دی۔ سعد بن معاذ ؓ نے آپ سے فرمایا اگر آپ ہم کو اس سمندر پر لے جائیں اور آپ اس میں کود جائیں تو ہم بھی اس میں چھلانگ لگا دیں گے آپ کے ساتھ اور ہم میں سے کوئی آدمی پیچھے نہیں رہے گا۔ اور ہم کل کو اپنے دشمن سے ملنے کو ناپسند نہیں کرتے ہم البتہ جنگ کے دوران جبر کرنے والے ہیں اور ملاقات میں سچ بولنے والے ہیں۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہم سے وہ چیز دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت پر بھروسہ کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ سعد ؓ کی گفتگو سے بہت خوش ہوئے اور انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا۔ چلو اور تم کو خوشخبری ہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دو جماعتوں میں سے ایک جماعت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے اللہ کی قسم گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں قوم کے مقتولین کی جگہوں کو۔ دو جماعت میں سے ایک پر فتح کا وعدہ : 3:۔ ابن جریر اور ابن منذر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) واذیعدکم اللہ احدی الطائفتین “ کے بارے میں فرمایا کہ شام سے مکہ والوں کا قافلہ آیا مدینہ والوں کو یہ خبر پہنچی چناچہ وہ قافلے کی راہ روکنے کے ارادہ سے باہر نکلے۔ اور ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ بھی تھے یہ خبر مکہ والوں کو پہنچی تو جلدی جلدی قافلہ کی جانب نکل پڑے تاکہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب غالب نہ ہوجائیں وہ قافلہ رسول اللہ ﷺ سے آگے نکل گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان دو جماعتوں میں سے ایک جماعت کا وعدہ فرمایا تھا اور قافلہ سے ملنا اور ان کو زیادہ پسند تھا اس کے ساتھ مقابلہ نسبتا آسان تھا اور تعداد کے لحاظ سے بھی مختصر تھا جب قافلہ نکل گیا اور رسول اللہ ﷺ کی گرفت سے آگے بڑھ گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ قوم ( یعنی قریش) کے ارادہ سے مسلمانوں کو لے کر چلے تو قریش کی قوت اور طاقت کے سبب بعض لوگوں نے ان کے چلنے کو ناپسند کیا۔ نبی کریم ﷺ اور مسلمان اترے کہ ان کے اور پانی کے درمیان ریت کا ٹیلہ تھا۔ مسلمانوں کو سخت تکلیف پہنچی اور شیطان نے ان کے دلوں میں غصہ ڈال دیا تو ان کے درمیان وسوسہ ڈالنا شروع کردیا وہ ان کے یہ وسوسہ ڈالنے لگا کہ تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تم اللہ کے دوست ہو اور تمہارے اندر اللہ کے رسول ہیں حالانکہ مشرکین پانی پر غالب ہیں اور تم ایسے مقام میں پہنچے جو پانی سے انتہائی دور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش کی وجہ سے ریت جم گئی۔ لوگ اور جانور اس پر چلتے گئے اور قوم (قریش) کی طرف وہ روانہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد فرمائی اور ایمان والوں کی ہزار فرشتوں کے ساتھ اور جبرائیل (علیہ السلام) کی قیادت میں یہ فرشتے تھے۔ اور میکائل (علیہ السلام) بھی پانچ سو فرشتوں میں تھے اور ابلیس ایک لشکر میں آیا اس کے ساتھ ایک جھنڈا تھا بنومدلج کے لوگوں کی صورت میں اور شیطان سراقہ بن جعشم کی صورت میں تھا شیطان نے مشرکین سے کہا (آیت) لاغالب لکم الیوم من الناس وانی جارلکم “ جب قوم نے صفیں بنائی تو ابوجہل نے کہا اے اللہ ہم حق کے ساتھ زیادہ حق دار ہیں پس ہماری مدد فرما رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور فرمایا اے میرے رب ! اگر تو نے زمین میں اس (مسلمان) کی جماعت کو ہلاک دیا تو ہرگز تیری زمین میں کبھی کوئی عبادت نہیں کرے گا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا ایک مٹھی مٹی لیجئے۔ اور ان کے چہروں پر پھینکے پس مشرکین میں سے ایسا کوئی نہیں تھا جس کی آنکھوں اور ناک اور اس کے منہ میں اس مٹھی میں سے ( مٹی) نہ پہنچی ہو تو (مشرک) پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے جب ابلیس نے اس کو دیکھا اور اس کے ہاتھ مشرکین میں سے ایک آدمی کے ہاتھ میں تھا۔ ابلیس نے اپنے ہاتھ کو کھینچا پھر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس کے گروہ میں بھی (بھاگا) ایک آدمی نے کہا اے سراقہ کیا تو یہ نہیں کہتا تھا کہ تو تو ہمارا نگہبان ہے۔ اس نے کہا جو میں دیکھ رہا ہے وہ تم نہیں دیکھ رہے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کا عذاب سخت ہے اور یہ اس نے اس وقت کہا جب اس نے فرشتوں کو دیکھا۔ : 4۔ عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) واذیعدکم اللہ احدی الطائفتین “ کے بارے میں فرمایا دو جماعتوں میں سے ایک تو ابوسفیان کا وہ قافلہ ہے۔ جو شام سے واپس آرہا تھا۔ اور دوسری جماعت ابوجہل بن ہشام کی تھی کہ اس کے ساتھ قریش کی ایک خاص تعداد تھی۔ مسلمانوں نے اور قتال کرنے کو ناپسند کیا اور وہ قافلہ سے ملنے کو محبوب رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا وہی کچھ ہوا۔ 5 :۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) وتودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ابو سفیان کا قافلہ تھا۔ محمد ﷺ کے اصحاب نے اس کو پسند کیا۔ کیونکہ قافلہ ان کے لئے مفید تھا۔ اور لڑائی لڑنے سے انہوں نے اعتراض کیا۔ 6۔ : عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویقطع دابر الکفرین “۔ یعنی کافروں کی جڑ کاٹ دینا اور ان کو نیست ونابود کردینا۔ 7:۔ فریابی اور ابن ابی شیبہ اور احمد اور عبد بن حمید اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا اور ابویعلی اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور طبرانی اور ابوالشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا جب آپ بدر سے فارغ ہوگئے کہ آپ پر قافلہ (کو پکڑنا) لازم ہے اس کے سوا کوئی چیز قبول نہیں۔ تو عباس ؓ نے آپ سے کہا اور وہ آپ کی قید میں قید تھے کہ یہ آپ کے لئے مفید نہیں ہوگا آپ نے فرمایا کیوں ؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ سے دو جماعتوں میں سے ایک جماعت کا وعدہ فرمایا تھا اور جو آپ سے وعدہ فرمایا تھا وہ آپ کو عطا فرما دیا آپ نے فرمایا تو نے سچ کہا۔
Top