Dure-Mansoor - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
نبی کو اور دوسرے مسلمانوں کو یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں۔ اس بات کے ظاہر ہوجانے کے بعد یہ لوگ دوزخی ہیں
مشرکین کے لئے دعائے مغفرت کی ممانعت : 1:۔ ابن ابی شیبہ واحمد والبخاری ومسلم والنسائی وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ والبیہقی رحمہم اللہ نے دلائل میں سعید بن مسیب (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو طالب کی موت قریب ہوئی تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے میرے چچا لا الہ الا اللہ کہہ لو اور میں شہادت دوں گا تیرے لئے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پاس۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابو طالب کیا عبدالمطلب کے دین سے اعراض کرو گے نبی کریم ﷺ اس پر (کلمہ کو) پیش کرتے رہے اور ابوجہل اور عبداللہ نے اس گفتگو کے بارے میں اس کی مدد کرتے رہے (یعنی بار بار اس کو عبدالمطلب کے دین پر قائم رہنے کی تاکید کرتے رہے) ابو طالب نے آخری بات جو ان سے کہی (وہ یہ تھی) وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں اور الا الہ اللہ کہنے سے انکار کردیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں ضرور تیرے لئے استغفار کرتا رہو گا جب تک مجھے تیرے لئے اس سے نہ روک دیا جائے تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری اور رسول اللہ ﷺ سے فرمایا (آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء “ 2:۔ الطیاسی وابن ابی شیبہ واحمد والترمذی والنسائی وابویعلی وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں الضیاء نے المختارہ میں علی ؓ سے روایت کیا کہہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنے والدین کے لئے بخشش کی دعا مانگ رہا تھا حالانکہ وہ دونوں مشرک ہیں اس لئے کہا کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے استغفار نہیں کیا یہ بات نبی کریم ﷺ کو بتائی گئی تو ( یہ آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ نازل ہوئی۔ 3:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے علی بن ابی طلحہ کے واسطہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لوگ ان (مشرکین) کے لئے استغفار کرتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی جب یہ آیت نازل ہوئی تو اپنے مردوں کے لئے استغفار کرنے سے رک گئے اور ان کو زندہ کے لئے استغفار کرنے سے نہیں روکا۔ یہاں تک کہ وہ مرگئے (شرک کی حالت میں) پھر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” وما کان استغفار ابراہیم “ یعنی آپ نے اس کے لئے مغفرت طلب کرتے رہے جب تک وہ زندہ تھا جب وہ مرگیا تو استغفار سے رک گئے۔ ابوطالب کے لئے بھی استغفار جائز نہیں : 4:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو مسلمانوں نے کہا یہ محمد ﷺ ہیں جو اپنے چچا کے لئے استغفار کررہے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے استغفار کیا تو اس لئے تم بھی مشرکین میں سے اپنے رشتہ داروں کے لئے استغفار کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” وماکان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا “ فرمایا کہ آپ اس کی زندگی میں اس کی امید رکھتے تھے۔ (آیت) ” فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرا منہ “ 5:۔ ابن جریر (رح) نے شبل کے واسطہ سے عمر وبن دینار (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے استغفار کیا حالانکہ وہ مشرک تھا اور میں بھی ابوطالب کے لئے استغفار کرتارہوں گا یہاں تک کہ میرا رب مجھے اس سے روک نہ دے۔ اور ان کے اصحاب نے کہا کہ ہم اپنے اجداد کے لئے استغفار کرتے رہیں گے جیسے نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا کے لئے استغفار کیا تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ سے لے کر (آیت) ” تبرا منہ “ تک۔ 6:۔ ابن جریر (رح) نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ ابو طالب کی جب موت حاضر ہوئی تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے میرے چچا میرے واسطے سے بڑھ کر آپ کا حق مجھ پر ہے آپ کلمہ کہہ لیجئے میں آپ کے لئے شفاعت کو محبوب رکھوں گا قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کہہ لیجئے پھر اسی طرح ذکر کیا (حدیث کو) جیسے گزر چکی۔ 7:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے بیان فرمایا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے کہا اے اللہ نے نبی کہ ہمارے باپوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ پڑوس سے اچھا سلوک کرتے تھے صلہ رحمی کرتے تھے قیدی کو چھڑاتے تھے اور ذمہ داریوں کو پورا کرتے تھے کیا ہم ان کے لئے استغفار کریں نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اپنے باپ کے لئے بھی استغفار کروں گا جیسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لئے استغفار کیا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ (الآیہ) پھر اللہ تعالیٰ ابراہیم (علیہ السلام) کو معذور قرار دیتے ہوئے فرمایا (آیت) ” وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ “ سے لے کر ” تبرا منہ “ تک اور ہم کو ذکر کیا گیا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری طرف ایسے کلمات وحی کئے گئے استغفار نہ کروں جو مشرک ہو کر مرا اور جس شخص نے اپنے بچے ہوئے مال کو دیا (غریب لوگوں کو) تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور جس شخص نے روک لیا وہ اس کے لئے برا ہے اور بقدر کفایت ماقال اللہ تعالیٰ ملامت نہیں کرے گا۔ 8:۔ بن سعد وابن عساکر (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ابو طالب کی موت کی خبر دی گئی تو آپ رو دئیے فرمایا تم جاؤ اس کو غسل اور کفن دو اور دفن کردو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرمائے جس میں نے ایسے دیکھا اور رسول اللہ ﷺ ان کے لئے کچھ دن استغفار رکتے رہے اور آپ گھر سے نہ نکلے تھے کہ جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوگئے (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ 9:۔ ابن منذر وابوالشیخ وابن عساکر رحمہم اللہ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ ابو طالب کی وفات ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے فرمایا اللہ مجھ پر رحم کرے اور تیری مغفرت کرے۔ میں تیرے لئے استغفار کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ مجھے منع نہیں فرمائیں گے تو مسلمانوں نے بھی اپنے ان مردوں کے لئے استغفار کرنا شروع کردیا جو مرگئے تھے اور مشرک تھے تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ پھر انہوں نے کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے استغفار کیا تھا تو یہ آیت نازل ہوئی (وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ “ (الآیہ) فرمایا جب وہ کفر پر مرگیا اور ان کے لئے ظاہر ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے (تو دعا کرنے کے لئے رک گا) 10:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر رحمہما اللہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب ابو طالب کی وفات ہوئی تو نبی کریم ﷺ فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے استغفار کیا حالانکہ وہ مشرک تھا اور میں اپنے چچا کے لئے استغفار کروں گا یہاں تک کہ میں اسے پالوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی “ یعنی ابو طالب کے لئے تو (یہ حکم) نبی کریم ﷺ پر بھاری گزراتو ( پھر) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو فرمایا (آیت) ” وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ “ یعنی جب انہوں نے کہا ” (آیت) ساستغفرلک ربی انہ کان بی حیفا (47) (پھر فرمایا) (آیت) ” فلما تبین لہ انہ عدو للہ “ یعنی وہ شرک پر مرا (آیت) ” تبرا منہ “ تو آپ اس سے بیزار ہوگئے۔ 11:۔ ابن جریر (رح) نے عطیہ العوفی کے واسطے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ (الآیہ) کے بارے میں فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے والد کے لئے استغفار کرنے کا ارادہ فرمایا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ آپ نے (اللہ تعالیٰ سے) عرض کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے استغفار کیا تھا (تو مجھے کیوں منع فرمایا) تو (یہ آیت) نازل ہوئی ” وما کان استغفار ابرھیم لابیہ “ (الآیہ) میں کہتا ہوں یہ اثر ضعیف اور معلول ہے کیونکہ عطیہ ضعیف راوی ہے اور یہ روایت علی بن ابی طلحہ ابن عباس کے سابقہ روایت کے خلاف ہے وہ روایت واضح ہے ورعلی بہت تقہ راوی ہے۔ 12:۔ طبرانی وابن مردویہ (رح) نے عکرمہ (رح) کے واسطے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ جب غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے عمرہ ادا فرمایا جب آس عسفان کی گھاٹی سے نیچے اترے اپنے صحابہ ؓ کو حکم فرمایا کہ تم لوگ عقبہ کے پاس ٹھہرو، یہاں تک کہ میں تمہاری طرف لوٹ آوں آپ گئے اور اپنی والدہ آمنہ کی قبر کے پاس اترے اور اپنے رب سے طویل مناجات کی۔ پھر رونے لگے اور آپ کا رونا سخت ہوگیا آپ کے رونے کی وجہ سے یہ لوگ بھی رونے لگے اور کہا اے اللہ کے نبی ہمارا رونا آپ کے رونے کی وجہ سے ہے ہم نے کہا شاہد کہ آپ کی امت میں ایسی چیز ظاہر ہوچکی ہے جس پر اسے قدرت حاصل نہیں آپ نے فرمایا نہیں البتہ جو کچھ ہوا ہے وہ یہ کہ میں اپنی والدہ کی قبر پر حاضر ہوا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ مجھ کو اجازت دی جائے ان کی شفاعت کے بارے میں قیامت کے دن تو مجھے اجازت دینے سے انکار کردیا گیا پس مجھے ان کی حالت پر ترس آگیا کیونکہ وہ میری ماں ہے اور میں روپڑا پھر میرے پاس جبرائیل تشریف لائے اور فرمایا (آیت) ” وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ “ پس آپ بھی بیزار ہوجائیے اپنی ماں سے جب ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے بیزار ہوگئے پس مجھے ان پر رحم آگیا کیونکہ وہ ماں ہے میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت سے پتھر برسنے کو اٹھا لیا جائے اور زمین میں غرق ہونے کو اور ان کے مختلف گروہوں کو باہمی جھگڑا اور فساد میں مبتلا نہ کرے اور ان میں بعض کی تکلیف دوسرے بعض کو نہ چکھائے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے آسمان سے پتھر برسنے کو اور زمین میں غرق ہونے کو اٹھا لیا اور باہمی قتل اور فساد کو ان سے اٹھانے سے انکار کردیا راوی کا بیان ہے اور آپ واپس تشریف لے گئے اپنی ماں کی قبر کی طرف گو کہ وہ مدفون تھیں ایک چٹان کے نیچے اور عسفان (کا علاقہ) ان کا ہے اور اسی علاقہ میں نبی کریم ﷺ کی پیدائش ہوئی۔ 13:۔ ابن ابی حاتم والحاکم وابن مردویہ والبیہقی (رح) نے دلائل میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن قبرستان کی طرف تشریف لے گئے ہم بھی آپ کے پیچھے ہوئے آپ آئے اور ان میں سے ایک قبر کی طرف بیٹھ گئے آپ نے (اپنے رب سے) لمبی مناجات کی پھر آپ رونے لگے تو ہم بھی آپ کے رونے کی وجہ سے رونے لگے پھر آپ نے فرمایا تم کیوں روئے ؟ ہم نے عرض کیا آپ کے رونے کی وہ وجہ سے ہم بھی روئے آپ نے فرمایا قبر کہ جس کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا یہ قبر آمنہ کی تھی میں نے اپنے رب سے اس کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھ کو اجازت دے دی گئی اور میں نے اپنے رب سے ان کے لئے استغفار کی اجازت مانگی تو مجھ کو اجازت نہیں دی گئی۔ اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی “ تو مجھ پر رقت طاری ہوگئی بیٹے پر اپنی والدہ کے لئے رقت طاری ہوجاتی ہے (یعنی روتا ہے) پس اس چیز نے مجھے رلایا ہے۔ آپ (علیہ السلام) کا اپنی والدہ کے لئے رونا : 14:۔ ابن مردویہ (رح) نے بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا جب آپ عسفان پر ٹھہرے اور آپ نے دائیں اور بائیں دیکھ کر اپنے والدہ آمنہ کی قبرکو دیکھا پانی لایا گیا آپ نے وضو فرمایا پھر دو رکعت نماز پڑھی اور دعا مانگی اور ہم کو کسی چیز سے خوف زدہ نہیں کیا مگر یہ کہ آپ کے رونے کی آواز بلند ہوگئی اور ہمارے رونے کی آواز بھی بلند ہوگئی آپ کے رونے کی وجہ سے پھر آپ ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا کس چیز نے تم کو رلایا ہے انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ روئے تو ہم بھی رو دیئے فرمایا تم نے کیا گمان کیا تھا عرض کیا ہم نے گمان کیا تھا کہ عذاب ہم پر نازل ہونے والا ہے ان اعمال کی وجہ سے جو ہم نے کئے آپ نے فرمایا کوئی ایسی چیز نہیں صحابہ ؓ نے عرض کیا ہم نے گمان کیا کہ آپ کی امت کو ایسے اعمال کا مکلف اور پابند بنایا گیا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے آپ کو اس پر رحم آگیا آپ نے فرمایا اس میں سے کوئی چیز نہیں لیکن میں اپنی ماں آمنہ کی قبر سے گذرا میں نے دو رکعت نماز پڑھی میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ میں اس کے لئے استغفار کروں تو مجھے روک دیا گیا اس لئے میں رونے لگا پھر مجھے سخت ڈانٹا گیا تو میری آواز بلند ہوگئی پھر آپ نے اپنی سواری بلوائی اور اس پر سوار ہوگئے ابھی آپ تھوڑی ہی دیر چلے تھے یہاں تک کہ اونٹنی ٹھہر گئی وحی کے بوجھ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ 15:۔ ابن منذر والطبرانی والحاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور امام ذھبی (رح) نے آپ کا تعاقب کیا ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ملیکہ کے بیٹے آئے اور وہ انصار میں سے تھے دونوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ کہ ہماری ماں شوہر کے معاملہ پر حفاظت کرتی تھی اور مہمان کی عزت کرتی تھی اور زمانہ جاہلیت میں زندہ گاڑی گئی تھی ہماری ماں کہاں ہے آپ نے فرمایا تمہاری ماں آگ میں ہے وہ کھڑے ہوگئے اور یہ بات ان دونوں کو بھاری گزری رسول اللہ ﷺ نے ان کو بلایا وہ دونوں لوٹے آپ نے فرمایا خبردار میری ماں تمہاری ماں کے ساتھ ہے لوگوں میں سے ایک منافق نے کہا یہ اپنی ماں کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے جیسا کہ ملیکہ کے بیٹے اپنی ماں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے اور ہم ان کی اتباع میں ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اور انصار میں سے ایک نوجوان نے کہا میں نے کسی آدمی کو اس سے زیادہ سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ سے اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کے والد کہاں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے ان کے بارے میں اپنے رب سے سوال نہیں کیا کہ وہ ان کے بارے میں میری التجا قبول کرنے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ وہ مجھے ان کے بارے میں بتائے اس دن کھڑا ہوں گا مقام محمود کیا ہے ؟ پھر اس منافق انصاری سے کہا ان سے سوال کریں کہ مقام محمود کیا ہے ؟ اس نے کہا یارسول اللہ ﷺ مقام محمود کیا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ اس دن جس میں اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر نازل ہوں گے اس پر چڑچڑانا ہوگا جیسے نیا کجاوہ چڑچڑاتا ہے۔ اپنے بوجھ کی وجہ سے اور وہ زمین میں آسمان کی وسعت کی طرح اور تم کو لایا جائے گا ننگے پیر، ننگے بدن، غیر مختون سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے خلیل کو لباس پہناؤ تو وہ سفید چادریں لائی جائیں گی جنت کی چادروں میں سے، بلاشبہ آپ کے پیچھے مجھ کو لباس پہنایا جائے گا اور میں کھڑا ہوں گا اللہ تعالیٰ کے داہنی طرف ایک مقام پر جس میں اولین وآخرین سب مجھ پر رشک کریں گے اور میرے لئے کوثر میں سے ایک نہر میرے حوض تک کھودی جائے گی اس منافق نے کہا میں نے آج کے دن کی طرح نہیں سنا یقینی طور پر نہر جاری نہیں ہوسکتی مگر ایسا سخت زمین میں یہ جس میں بہاؤ ہو ان سے سوال کیجئے کس میں وہ نہر ان کی طرف جاری ہوگی۔ فرمایا کستوری کے بہاؤ اور جھوٹی کنکریوں میں منافق نے کہا میں نے آج کے دن کی طرح کبھی نہیں سنا اللہ کی قسم جہاں بھی نہر جاری ہوئی ہے وہاں سبزہ اگتا ہے آپ سے سوال کریں کہ کیا اس نہر پر سبزہ ہوگا انصاری نے کہا یارسول اللہ ﷺ کا اس نہر پر سبزہ ہوگا آپ نے فرمایا ہاں پوچھا گیا وہ کیا ہوگا سونے کی شاخیں ہوں گی منافق نے کہا آج کے دن کی طرح میں نے کچھ نہیں اللہ کی قسم کوئی شاخ نہیں اگتی مگر اس کا پھل بھی ہوتا ہے۔ آپ سے سوال کریں کہ ان شاخوں کو پھل ہوگا انصاری نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ان شاخوں کو پھل ہوگا فرمایا موتی اور جواہر ہوں گے۔ منافق نے کہا آج کے دن کی طرح میں نے کبھی نہیں سنا آپ ان سے سوال کریں حوض کے پانی کے بارے میں انصار نے کہا یارسول اللہ ﷺ حوض کا پانی کیسا ہوگا ؟ فرمایا دودھ سے زیادہ سفید ہوگا۔ اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ اس میں سے پلائیں گے پھر اس کے بعد وہ پیاسا نہیں ہوگا اور جو اس سے محروم ہوگا وہ اس کے بعد پھر کبھی نہیں ہوگا۔ 16:۔ ابن سعد (رح) نے کلبی اور ابوبکربن قیس دونوں سے روایت کیا کہ جعفی زمانہ جاہلیت میں دل کو حرام قراردیتے تھے ان میں سے دو آدمی قیس بن سلمہ اور سلمہ بن یزید رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے یہ دونوں ماں شریک بھائی تھے دونوں مسلمان ہوگئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ تم دل نہیں کھاتے انہوں نے کہا ہاں آپ نے نے فرمایا اس کے کھانے کے بعد تم دونوں کا اسلام مکمل نہیں ہوگا۔ آپ نے انکے لئے دل منگوایا اس کو بھونا اور ان کو کھلایا انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہماری ماں ملیکہ قیدی کو چھڑاتی تھی بھوکے کو کھانا کھلاتی تھی اور فقیر پر رحم کرتی تھی وہ مرگئی اور اس نے اپنی ایک چھوٹی بیٹی کو زندہ درگور کیا تھا اس کا کیا حال ہے ؟ آپ نے فرمایا زندہ درگور کرنے والے کو اور جس کے اشارہ پر درگور کیا گیا دونوں ہلاکت میں ہیں (یہ سن کر) دونوں غصے ہوتے ہوئے کھڑے ہوگئے آپ نے فرمایا لوٹ آؤ (اور سنو) میری ماں بھی تمہاری ماں کے ساتھ (آگ میں ہے) ان دونوں نے انکار کیا اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے اللہ کی قسم کہ اس آدمی نے ہم کو دل کھلایا اور اس نے گمان کیا کہ ہماری ماں آگ میں ہے وہ اس زیلی ہے کہ اس کی پیروی نہیں کی جائے دونوں چلے اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی سے ملے کہ اس کے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ تھا انہوں نے اس کو (رسیوں سے) باندھ دیا اور اونٹ ہانک کرلے گئے یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے ان دونوں پر لعنت فرمائی جیسا کہ وہ اپنے ارشاد میں لعنت کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ لعنت کرے رعل پر ذکوان پر، عصیہ پر لحیان پر اور ملکیہ کے بیٹے حریم اور حران پر۔ 17:۔ ابن منذر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ سے لے کر (آیت) ” رب ارحمھما کما ربینی صغیرا (124) “ تک کے بارے میں فرمایا کہ پھر (اس میں سے) استثنی کرتے ہوئے فرمایا۔ (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “ سے لے کر ” الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ “ تک۔ 18۔ ابن جریر وابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فلما تبین لہ انہ عدوللہ “ کے بارے میں فرمایا کہ آپ کے لئے اس وقت ظاہر ہوا جب وہ مرگیا اور آپ جان لیا کہ توبہ کا وقت اس سے ختم ہوچکا تھا۔ 19:۔ الفریابی وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ وابو بکر الشافعی نے اپنی فوائد میں والضیاد نے المختارہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) برابر اپنے والد کے لئے استغفار کرتے رہے یہاں تک کہ وہ مرگیا جب وہ مرگیا تو یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن تھا تو اس سے بیزار ہوگئے ( استغفار کرنا بند کردیا) 20:۔ عبدالرزاق (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فلما تبین لہ انہ عدوللہ “ یعنی جب وہ اپنے کفر پر مرگیا (تو ظاہر ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن تھا اب اس کے لئے استغفار کرنا بند کردیا۔ (اما قولہ تعالیٰ ) ان ابرھیم لاوا۔ حلیم : 21:۔ ابن جریر ابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ ایکآدمی بیت اللہ کا طواف کیا کرتا تھا۔ اور اپنی دعا میں یوں کہتا تھا اوہ اوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک وہ بہت ہی آہیں بھرنے والا ہے۔ 22:۔ عبداللہ بن احمد نے روائد میں وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والبیہقی (رح) نے شعب الایمان میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ان ابرھیم لاواہ حلیم “ کے بارے میں فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) جب آگ کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے (آیت) ” اتوہ من النار “ یعنی آپ آگ کے ذکر سے آہیں بھرتے۔ 23:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابوالشیخ (رح) نے ابو الجواز (رح) سے اسی طرح بیان کیا کہ جابر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی ذکر کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کرتا تھا۔ ایک آدمی نے کہا کاش کہ یہ اپنی آواز کو پست کردیتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسکو چھوڑ دو کیونکہ وہ اقرار ہے یعنی وہ آہیں بھررہا ہے۔ 24:۔ طبرانی وابن مردویہ (رح) نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کے لئے فرمایا جس کو ذوالبیجادین کہا جاتا تھا کہ وہ اواہ ہے اسی وجہ سے کہ وہ اللہ کا ذکر قرآن اور دعائیں کثرت سے کیا کرتے تھے۔ 25:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک میت کو قبر میں داخل کیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے بیشک تو تلاوت قرآن کی وجہ سے انتہائی کرم کیا تھا۔ 26:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے عبداللہ بن شدادبن الھاد (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الاوۃ سے مراد ہے خشوع کرنے والا عاجزی کرنے والا۔ 27:۔ ابن جریر وابن منذر والطبرانی ابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے دعا کرنا۔ 28:۔ ابو الشیخ (رح) نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ الاوۃ سے مراد ہے دعا اور سکون حاصل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے پاس اس مریض کی طرح ہے جو آہیں بھرتا ہے اپنے مرض سے۔ 29:۔ عبدالرزاق ولفریابی وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابوالشیخ (رح) نے ابو العبدبن (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے الاولۃ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے کہ مہربان رحیم۔ 30:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے علی (رح) کے واسطے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے توبہ کرنے والا مومن۔ 31:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ الاوۃ سے مراد ہے حلیم الطبع ومطیع مومن۔ 32:۔ ابن ابی حاتم (رح) سے ابو ایوب (رح) سے روایت کیا کہ الاوۃ سے مراد ہے جو شخص جب اپنی خطاوں کو یاد کرتا ہے تو اس سے استغفار کرتا ہے۔ 33:۔ ابن جریر (رح) نے العوفی کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ الاواۃ حبشہ کے رہنے والے مومن کو کہتے ہیں۔ 34:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) کے راستے میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا۔ 35:۔ ابن جریر وابوالشیخ نے ابو طیبان کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا حبشی زبان میں۔ 36:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا حبشی زبان میں۔ 37:۔ ابن جریر وابو الشیخ (رح) نے عکرمہ (رح) کے راستہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا حبشی زبان میں۔ 38:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا حبشی زبان میں۔ 39:۔ ابن جریر (رح) نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا حبشی زبان میں۔ 40:۔ ابن جیر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا حبشی زبان میں۔ 41:۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے یقین کرنے والا اور یہ کلمہ حبشی زبان کا ہے۔ 42:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ایک اور سند سے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے فقیہ یقین کرنے والا۔ 43:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ شبعی (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے فقیہ یقین کرنے والا۔ 44:۔ عبد بن حمید وابن منذر (رح) نے ابو میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے شیخ یعنی بوڑھا آدمی۔ 45:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہم اللہ نے عمر وبن شرجیل (رح) سے روایت کیا کہ الاواۃ سے مراد ہے رحم کرنے والا حبشی زبان میں۔ 46:۔ ابن منذر (رح) نے عمرو بن شرجیل (رح) نے فرمایا کہ الاواہ مراد ہے دعا کرنا حبشی زبان میں ہے۔ 47:۔ ابن جریر وابن منذر رحمہم اللہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ الاواہ سے مراد ہے مسیح (روزے دار) 48:۔ بخاری (رح) نے اپنی تاریخ میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ فرمایا الاواہ سے مراد وہ شخص جس کا دل اللہ تعالیٰ کی جانب لٹکا ہوا ہو (یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات سے لگا ہوا ہو) 49:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو الاواہ ان کی رقت اور رحمت کی وجہ سے کہتے تھے۔ 50:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ان ابرھیم لاواہ حلیم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے حلم والے اور رحم والے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایذاء دینے والے کو دعا دینا۔ 51:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان ابرھیم لاواہ حلیم “ سے مراد ہے کہ ان کے حلم میں سے یہ تھا کہ اگر کوئی آدمی ان کی قوم میں سے ان کو تکلیف دیتا تو اس سے فرماتے اللہ تعالیٰ تجھ کو ہدایت دے۔ 52:۔ عبدبن حمید (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو چیز قرآن میں نازل ہوئی میں اس کو جانتا ہوں چار آیات کے علاوہ (جن کو میں نہیں جانتا) رقیم کے بارے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے میں نے کعب سے پوچھا اور وہ گمان کرتے تھے اس سے مراد وہ بستی ہے کہ جس سے وہ (اصحاب کہف) نکلے تھے اور (آیت) ” وحنانا من لدنا وزکوۃ “ (مریم آیت 13) کے بارے میں نہیں جانتا کہ حنان کیا ہے لیکن اس سے مراد ہے ” رحمت والعسلین “ کے بارے میں نہیں جانتا وہ کیا ہے لیکن میں گمان کرتا ہوں کہ اس سے مراد زقوم ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ان شجرت الزقوم (43) طعام الاثیم (44) “ اور فرمایا الاواہ سے مراد ہے یقین کرنے والا حبشی زبان میں۔ 53:۔ ابو الشیخرحمۃ اللہ علیہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ الاواہ سے مراد ہے مومن۔ 54:۔ ابو الشیخ (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ الاواہ سے مراد ہے رجوع کرنے والا۔ 55:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے عتبہ بن عامر (رح) سے روایت کیا کہ الاواہ سے مراد ہے اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے والا۔
Top