Dure-Mansoor - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بلاشبہ تمہارے پاس رسول آیا ہے، جو تم میں سے ہے۔ تمہیں جو تکلیف پہنچے وہ اس کے لئے نہایت گراں ہے وہ تمہارے نفع کے لئے حریص ہے، مومنین کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کا برتاو کرنے والا ہے
رسول اللہ ﷺ کی شفقت و مہربانی : 1:۔ عبدبن حمید والحارث بن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں وابن منذر ابن مردویہ وابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں وابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ کے بارے میں فرمایا عرب میں کوئی قبیلہ نہیں ہے مگر یہ کہ اس نے نبی کریم ﷺ کو جنم دیا ہے چاہے وہ مضر (قبیلہ) ہو اور ربیعہ ہو اور یمانی ہو۔ 2:۔ عبدالرزاق (رح) نے مصنف میں ابن جریر وابن ابی حاتم و بیہقی نے اپنی سنن میں وابو الشیخ رحمہم اللہ نے جعفر بن محمد سے روایت کیا کہ اپنے والد سے (اس آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ آپ کو کوئی چیز جاہلیت کی والادت سے نہیں پہنچی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں پیدا ہوا ہوں نکاح سے اور میں پیدا نہیں ہوا زنا سے۔ 3:۔ ابن سعد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ یعنی اے عرب کی جماعت تم نے ہی آپ ﷺ کو چنا۔ 4:۔ ابن مردویہ (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہ آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ پڑھی علی بن ابی طالب ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ” انفسکم “ کا کیا معنی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہوں نسب کے لحاظ سے اور سسرالی رشتہ داری کے لحاظ سے۔ مجھ میں اور میرے آباؤ اجداد میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت مسلم سے لے کر کہیں بھی زنا نہیں ہے بلکہ سب کے سب نکاح سے پیدا ہوئے ہیں۔ 5:۔ حاکم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ (یہ آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ پڑھی یعنی تم میں سے سب سے بری قدر و منزلت والے ہیں۔ 6:۔ ابن سعد وابن عساکر رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نکاح سے پیدا ہوا ہوں نہ کہ زنا اور بدکاری سے۔ 7:۔ طبرانی (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری پیدائش جاہلیت کی کسی بدکاری سے نہیں ہوئی بلکہ میری پیدائش نکاح سے ہوئی جیسے اسلام کا نکاح۔ 8:۔ ابن منذر وابن عساکر رحمہما اللہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں پیدا ہوا ہوں نکاح سے نہ کہ بدکاری سے۔ 9:۔ ابن سعد وابن ابی شیبہ نے مصنف میں محمد بن علی بن حسین ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں نکاح سے پیدا ہواہوں اور نہیں پیدا ہوا بدکاری سے، آدم (علیہ السلام) سے لے کر مجھ تک زمانہ جاہلیت کی کوئی چیز بدکاری میں سے نہیں پہنچی۔ میں پاکیزہ طریقہ سے پیدا ہوا۔ 10:ـ۔ ابن ابی عمر العدنی نے مسند میں والطبرانی نے الاوسط میں وابو انعیم نے دلائل میں وابن عساکر رحمہم اللہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں پیدا ہواہوں نکاح سے اور زنا سے پیدا نہیں ہوا حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے لے کر میرے ماں باپ کو مجھے جنم دینے تک زمانہ جاہلیت کی کوئی چیز مجھ تک نہیں پہنچی۔ 11:۔ ابو نعیم (رح) نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے والدین نے کبھی بھی بدکاری کا ارتکاب نہیں کیا اللہ تعالیٰ مجھے برابر پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ رحموں کی طرف منتقل کیا ہے مصفی اور مہذب بنایا کوئی بھی دو گروہ تقسیم نہیں ہوئے۔ مگر میں ان میں سے بہت اور اچھے گروہ میں سے ہوا۔ 12:۔ ابن سعد (رح) نے ابن عباس ؓ روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرب میں سے بہتر مضر ( قبیلہ) ہے اور مضر میں سے بہتر بنو عبدمناف ہیں اور بنو عبدمناف میں سے بہتر بنوہاشم ہیں اور بنوہاشم میں سے بہتر بنو عبدالمطلب ہیں اللہ کی قسم کوئی دو گروہ تقسیم نہیں ہوئے جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا مگر میں ان دونوں میں سے افضل اور بہتر میں سے ہوں۔ 13:۔ بیہقی نے دلائل میں وابن عساکر رحمہما اللہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ اور فرمایا میں محمد بن عبدالمطلب بن ہاشم بن مناف بن قصی بن کلاب بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں جب لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوتے تو اللہ تعالیٰ مجھے ان دنوں میں سے افضل گروہ میں لکھا میں اپنے والدین سے پیدا ہوا اور زمانہ جاہلیت میں سے کوئی چیز مجھ سے نہیں پہنچی اور میں نکاح (کے ذریعہ) پیدا ہوا حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے لے کر نہ کہ زنا سے یہاں تک کہ میں اپنی ماں اور اپنے باپ کو پہنچ گیا۔ اور میں ذات کے لحاظ سے سب سے بہتر ہوں اور باپ کے لحاظ سے تم سب سے بہتر ہوں۔ 14:۔ ابن سعد والبخاری والبیہقی رحمہم اللہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں بھیجا گیا ہوں بنو آدم کے بہترین قرون میں سے ایک قرن کے بعد دوسرے قرن میں یہاں تک کہ اس قرن میں جس میں میں پیدا ہوا (یہ سب قرون میں سے بہترین قرن ہے) بنوہاشم کی فضیلت : 15:۔ ابن سعد ومسلم والترمذی والبیہقی (رح) نے دلائل میں واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل کو چن لیا اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنوکنانہ کو چن لیا اور بنوکنانہ میں سے قریش کو چن لیا اور قریش سے بنوہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو چن لیا۔ 16:۔ احمد والترمذی اور آپ نے اس کو حسن کہا ابن مردویہ وابو نعیم والبیہقی دونوں نے دلائل میں عباس ؓ بن عبدالمطلب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے اپنے بہترین مخلوق میں سے بنادیا پھر جب ان کو فرقوں میں بانٹا تو مجھے بہترین فریق میں سے بنادیا پھر جب قبائل کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کے بہترین قبیلہ میں سے بنادیا اور جب جانوں کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جانوں میں سے بنا دیا پھر جب گھر بنائے تو مجھے ان میں سے بہترین گھر والا بنا دیا ( اس لئے) میں گھر کے لحاظ سے ان سے بہتر ہوں اور ہر ذات کے لحاظ سے ان سے بہتر ہوں۔ 17:۔ حکیم ترمذی (رح) نے نوادرالاصول میں والطبرانی وابن مردویہ وابو نعیم والبیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا مخلوق میں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں کو چنا اور آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں میں سے عرب کو چنا اور عرب میں سے مصر کو چنا اور مصر میں سے قریش کو چنا اور قریش میں سے بنوہاشم کو چنا اور بنو ہاشم میں سے مجھے چنا (اس لئے) میں چنے ہوئے میں سے چنا ہوا ہوں۔ 18:۔ ابن سعد (رح) نے محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا مجھے ان میں سے بہترین حصہ میں بنایا پھر آدھے کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا ان تین حصوں میں سے بہترین حصے میں ہوں پھر لوگوں میں سے عرب کو چنا، پھر عرب میں سے قریش کو چنا پھر قریش میں سے بنو ہاشم کو چنا پھر بنو ہاشم میں سے بنوہاشم میں سے بنو عبدالمطلب کو چنا پھر بنو عبدالمطلب میں سے مجھے چنا۔ 19:۔ ابن سعد والبیہقی (رح) نے محمد بن علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرب کو چنا عرب میں سے کنانہ کو چنا کنانہ میں سے قریش کو چنا پھر ان میں سے بنوہاشم میں سے مجھے چنا۔ 20:۔ ابن سعد (رح) والبیہقی (رح) نے محمد بن علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرب کو چنا عرب میں سے کنانہ کو چنا کنانہ میں سے قریش کو چنا قریش میں سے بنو ہاشم کو چنا اور بنوہاشم میں سے مجھے چنا۔ 21:۔ ابن عساکر (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کبھی کسی زنا نے اس وقت سے جنم نہیں دیا جب سے میں آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکلا ہوں۔ مجھے بلند مرتبہ سردار سے منتقل کرتی رہیں، بڑے مرتبہ والوں کی طرف یہاں تک کہ میں عرب کے افضل قبیلوں ہاشم اور زھرہ میں سے ظاہر ہوا۔ 22:۔ ابن ابی عمر العدنی (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش اللہ کے سامنے ایک نور تھا مخلوق کو پیدا کرنے کے دو ہزار سال پہلے یہ نور تسبیح بیان کرتا تھا اور فرشتے بھی اس کی تسبیح کے ساتھ تسبیح بیان کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو یہ نور ان کی صلب میں ڈال دیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ کو نیچے اتارا اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی صلب میں اور مجھ کو نوح کی صلب میں رکھا پھر مجھ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صلب میں ڈال دیا۔ پھر مجھے برابر کریم صلبوں سے پاکیزہ رحموں کی طرف اللہ تعالیٰ منتقل فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے اپنے والدین میں سے پیدا فرمادیا۔ اور انہوں نے کبھی بھی بدکاری کا ارتکاب نہیں کیا۔ آپ (علیہ السلام) کا نسب ریاء سے پاک ہے : 23:۔ بیہقی (رح) نے ربیعہ بن حرث بن عبدالمطلب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کو یہ بات پہنچی کہ ایک قوم نے آپ کو برا کہا (یعنی آپ کی نسبت میں طعن کیا) رسول اللہ ﷺ غصہ ہوئے پھر فرمایا اے لوگوں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا تو ان کے دو فرقے بنادئیے اور مجھے بہترین فرقہ میں سے بنا دیا پھر ان ان کے قبائل بنائے اور مجھے ان میں سے بہترین قبیلہ میں بنادیا پھر ان کے خاندان بنائے اور مجھے ان میں سے بہترین خاندان میں سے بنایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم میں سے قیبلہ اور خاندان دونوں کے لحاظ سے تم سے بہتر اور افضل ہوں۔ 24:۔ ترمذی نے اور آپ نے اس کو حسن کہا وابن مردویہ والبیہقی (رح) نے المطلب بن ابی وداعہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آپ کو بعض باتیں پہنچی جو لوگ کہتے تھے تو آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا میں کون ہوں ؟ لوگوں نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے اپنی بہترین مخلوق میں سے بنایا اور ان کے دو فرقے بنائے تو مجھے بہترین فرقے میں بنایا اور ان کے قبائل بنائے تو مجھے ان کے بہترین قبیلہ میں سے بنایا اور ان کے خاندان بنائے تو مجھے انکے بہترین خاندان میں سے بنایا تو میں خاندان کے لحاظ سے تم سے بہتر ہوں اور ذات کے لحاظ سے تم سے افضل ہوں۔ 25:۔ ابن سعد (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کوئی نبی بھیجنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو زمین والوں میں سے بہترین اور افضل قبیلہ کی طرف دیکھتے ہیں اور ان میں سے افضل ترین آدمی کو تاج نبوت پہنا دیتے ہیں۔ 26:۔ حکیم ترمذی (رح) نے نوادرالاصل میں جعفر بن محمد (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور کہا اے محمد ! اللہ عزوجل نے مجھے بھیجا تو میں نے چکرلگایا زمین کے مشرق اور اس کے مغرب میں اور اس کے ہموار میدانوں میں اور اس کے پہاڑوں میں تو میں نے عرب سے بہتر کسی قبیلہ کو نہیں پایا پھر مجھے حکم فرمایا تو میں نے عرب میں چکر لگایا تو میں نے مضر سے بہتر کوئی قبیلہ نہ پایا پھر میں نے کنانہ میں چکر لگایا تو قریش سے بہتر کوئی قبیلہ نہ پایا پھر مجھے حکم فرمایا تو میں نے قریش میں چکر لگایا تو میں نے بنو ہاشم سے بہتر کوئی قبیلہ نہ پایا۔ پھر مجھے حکم فرمایا کہ ان کے لوگوں میں کسی کو چن لیا تو میں نے ان میں سے کسی نفس کو آپ سے بہتر نہ پایا۔ 27:ـ۔ ابن ابی شیبہ واسحاق بن زاھویہ وابن منبع نے اپنی مسند وابن جریروابن منذر وابو الشیخ وابن مردویہ والبیہقی (رح) نے دلائل میں ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ آخری آیت جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ آخر میں قرآن مجید میں سے نازل ہوا (وہ یہ ہے) (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ آیت کے آخر تک۔ 28:۔ حسن (رح) سے روایت کیا کہ ابی بن کعب (رح) فرمایا کرتے تھے کہ بیشک قرآن نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو بیان کردیا ہے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ آسمان میں یہ دو آیتیں ہیں یعنی (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ سورت کے آخر تک۔ 29:۔ ابن الضریس نے فضائل القرآن میں وابن الانباری نے المصاحب میں وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے قرآن جمع کیا ایک صحف میں ابوبکر ؓ کی خلافت میں کچھ آدمی لکھتے ہیں اور ابی ابن کعب ان کو لکھواتے تھے یہاں تک کہ یہ لوگ سورة برأت میں سے اس آیت کی طرف پہنچے (آیت) ” ثم انصرفوا صرف اللہ قوبہم بانہم قوم لا یفقھون (127) “ اور انہوں نے گمان کیا کہ یہ آخری آیت جو قرآن میں نازل ہوئی ابی بن کعب نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے کو ان دو آیتوں کے بعد (یہ آیت) (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رءوف رحیم (128) فا ان تولوا فقل حسبی اللہ، لا الہ الا ھو، علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم (129) پڑھائی تو یہ آخری آیت ہے جو قرآن میں سے نازل ہوئی فرمایا (وہ حکم ختم ہوا جو لا الہ الا اللہ کے ساتھ شروع کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) معرضون (24) وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون (25) 30:۔ احمد والبخاری والترمذی وابن سعد والنسائی وابن جریر وابن ابی داود نے المصاحب میں وابن حبان وابن منذر الطبرانی والبہقی (رح) نے اپنی سنن میں زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر نے اہل الیمامہ کے قتل کے بعد مجھے بلابھیجا اور ان کے پاس عمر بیٹھے ہوئے تھے ابوبکر نے فرمایا کہ میرے پاس عمر آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یمامہ کے دن بہت سے لوگ قتل ہوگئے یعنی شہید ہوگئے اور میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ اگر جنگوں میں قراء اسی طرح شہید ہوتے رہے (تو خطرہ ہے) کہ بہت سا قرآن گم ہوجائے مگر یہ کہ تم لوگ اس کو جمع کرلو اور میری رائے یہ ہے کہ تم قرآن کو جمع کرو ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے عمر ؓ سے کہا میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں جس کو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کہا عمر ؓ نے فرمایا یہ کام اللہ قسم خیر (کاکام) ہے عمر برابر مجھے اس بارے میں توجہ دلاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو اس (کام) کے لئے کھول دیا اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمر کی رائے ہے زید بن ثابت ؓ نے فرمایا اور عمر ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے لیکن انہوں نے کوئی بات نہیں کی ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ تو ایک جوان اور عقل مند آدمی ہے اور نہ ہی ہم تمہارے بارے میں کوئی شک کرتے ہیں۔ اور تم رسول اللہ ﷺ کے لئے وحی کو لکھا کرتے تھے سو تم قرآن کریم کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو اللہ کی قسم اگر مجھے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کو (دوسری جگہ) منتقل کرنے کی تکلیف دی جاتی تو یہ (کام) مجھ پر بھاری نہ ہوتا ان کاموں میں سے جو مجھ کو حکم دیا گیا قرآن مجید کے جمع کرنے میں۔ میں نے عرض کیا تم دونوں (یعنی ابوبکر وعمر ؓ وہ کام کیسے کرو گے جس کو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ابوبکر نے فرمایا اللہ کی قسم وہ کام خیر کا ہے۔ میں برابر اصرار کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو کھول دیا اس کام کے لئے جس کام کے لئے ابوبکر اور عمر کے سینے کو کھول دیا گیا میں ( اس کام) کے لئے کھڑا ہوا اور قرآن کو تلاش کیا میں نے اس کو جمع کیا کاغذ کے ٹکڑوں سے پالانوں سے اور کھجور کی ٹہنیوں سے اور لوگوں کے سینوں سے۔ یہاں تک کہ میں نے سورة توبہ میں سے دو آیتیں صرف خزیمہ بن ثابت انصاری سے پائیں۔ میں نے ان کو ان کے علاوہ کسی اور سے نہیں پایا یعنی (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم “ سے لے کر ان کے آخر تک اور وہ صحیفے جس میں قرآن جمع کیا گیا تھا وہ ابوبکر ؓ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دیدی پھر وہ عمر کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دیدی۔ پھر وہ حفصہ حضرت عمر ؓ کی بیٹی کے پاس رہے۔ 31:۔ ابن جریر وابن منذر وابو الشیخ رحمہم اللہ نے عبداللہ بن عمری ؓ سے روایت کیا کہ عمر کی آیت کو مصحف میں درج نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ دو آدمی گواہی دیتے تھے انصار میں سے ایکآدمی ان دو آیتوں کو لے کر آیا (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ اسکے آخر تک عمر نے فرمایا میں اس پر کبھی کسی گواہی سے سوال نہیں کروں گا (کیونکہ) رسول اللہ ﷺ اس طرح تھے۔ کتابت قرآن کا انتظام : 32:۔ ابن ابی داود نے المصاحف میں عروہ (رح) سے روایت کیا کہ جب جنگ میں بہت سے قراء شہید ہوئے اس دن ابوبکر کو قرآن پر خوف ہوا کہ یہ ضائع نہ ہوجائے اور انہوں نے عمر بن خطاب ؓ اور زید بن ثابت سے فرمایا کہ مسجد کے دروازہ پر بیٹھ جاؤ پس جو شخص تمہارے پاس آئے اور جو بھی کتاب اللہ کی کسی آیت پر تمہارے پاس دو گواہ لائے اس کو لکھ دو ۔ 33:۔ ابن اسحاق واحمد بن حنبل وابن ابی داود رحمہم اللہ نے عباد بن عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ حریث بن خزیمہ ان دو آیتوں کو سورة برأۃ کے آخر میں سے لے کر آئے یعنی (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ سے لے کر ” وھو رب العرش العظیم “ تک حضرت عمر ؓ کے پاس عمر نے فرمایا اس پر تیرے ساتھ کون ہے (گواہی دینے والا) عرض کیا میں نہیں جانتا اللہ کی قسم بلاشبہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اس کو رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اور میں نے اس کو محفوظ رکھا اور ان کو یاد کیا عمر نے فرمایا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی اس کو رسول اللہ ﷺ سے سنا اگر یہ تین آیات ہوتیں تو میں اس کو علیحدہ سورت بنا دیتا۔ تم لوگ قرآن میں سے سورتوں کو دیکھو اور ان کو اس کے ساتھ ملا دو چناچہ یہ سورة برأۃ کے آخر میں ملا دی گئیں۔ 34:۔ ابن ابی داود (رح) نے المصاحف میں یحی بن عبدالرحمن بن حاطب (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے قرآن کو جمع کرنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں میں کھڑے ہو کر فرمایا جس نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز (چھوٹی بڑی) قرآن میں سے پائی ہو اس کو ہمارے پاس لے آؤ اور وہ اس کو لکھتے تھے ورقوں میں تختیوں میں اور کھجور میں اس میں کسی سے کوئی چیز قبول نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ دو گواہ گواہی نہ دیتے (پھر) وہ شہید کردیئے گئے ابھی آپ اس کو جمع کررہے تھے (اس کے بعد) عثمان بن عفان ؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا جس کے پاس اللہ کی کتاب میں سے کوئی چیز ہو تو اس کو ہمارے پاس لے آئے اور کسی سے کوئی چیز قبول نہیں فرماتے تھے یہاں تک دو گواہ گواہی نہ دیں خزیمہ بن ثابت آئے اور عرض کیا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں نے دو آیتیں چھوڑ دی ہیں ان کو نہیں لکھا لوگوں نے کہا وہ دونوں کیا ہیں ؟ عرض کیا میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دو آیتیں لی ہیں یعنی (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم “ آخر سورة تک عثمان ؓ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ دونوں آیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تیری کیا رائے ہے کہ ان کو ہم کہاں لکھیں عثمان ؓ نے فرمایا قرآن میں جو آخر میں نازل ہو ان دونوں کو اس کے ساتھ بطور خاتمہ آخر میں ذکر کردو چناچہ ان دونوں کے ساتھ سورة برأت کو ختم کیا گیا۔ نبوت ملنے پر حد نہ کریں : 35:۔ ابن جریر ابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم “ کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کو انہیں میں سے بنایا کہ وہ اس پر آپ سے حسد نہ کریں اس چیز پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرما دیا ہے نبوت اور کرامت میں سے ان میں سے ایمان لانے والوں کو مشقت میں پڑنا آپ پر بھاری ہوتا ہے اور آپ ان کی گمراہی پر حریص ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے (آیت) ” بالمومنین رءوف رحیم ‘ (مومنین کے ساتھ بڑی مہربانی فرمانے والے اور بہت رحم فرمانے والے ہیں) 36:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” عزیز علیہ ماعنتم “ یعنی اس پر یہ بات شدید ہوتی ہے جو تم شاق گزرتی ہے ( اور فرمایا) ” حریص علیکم “ یعنی یہ کہ تمہارے کافر ایمان لے آئیں (یہ اس بات پر حرص رکھتے ہیں) 37:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور مجھ سے فرمایا اے محمد ﷺ آپ کا رب آپ کو سلام فرماتا ہے اور یہ پہاڑوں کا فرشتہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ کی طرف بھیجا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرے پہاڑوں کے فرشتے نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپکے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کروں۔ اگر آپ چاہیں ان پر پہاڑوں کے فرشتے میں ان پر پتھر برسا دوں اور اگر آپ چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دو آپ نے فرمایا اے پہاڑوں کے فرشتے میں ان کے پاس آیا ہوں شاید کہ ان میں سے ایسی نسل پیدا ہوگی جو لا الہ اللہ کہتے ہوں گے پہاڑوں کے فرشتے نے کہا آپ ایسے ہیں جیسے آپ کے رب نے آپ کا نام رکھا ہے رو وف رحیم۔ 38:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابو صالح حنفی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ رحیم ہیں اور اس کی رحمت نہیں رکھی جاتی مگر رحیم پر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک اپنے مالوں پر اور اپنی اولاد پر رحم کرنے والا ہے۔ آپ نے فرمایا اس طرح نہیں ہے لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رءوف رحیم “ (الآیہ) 39:۔ ابن مردویہ (رح) نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے پاس جہینہ (قبیلہ) آیا انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے درمیان تشریف لائیں ہیں پس ہم کو یقین دلائیے کہ ہم آپ کو امن دیں گے اور آپ ہم کو امن دیجئے۔ آپ نے فرمایا تم نے ایسا سوال کیوں کیا انہوں نے کہا کہ ہم امن کو طلب کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم “ (الآیہ) ابن سعد (رح) نے ابو صالح حنفی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحیم ہیں اور رحم کرنے والے کو پسند فرماتے ہیں وہ اپنی رحمت کو ہر رحیم پر نازل فرماتا ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ البتہ ہم رحم کرتے ہیں اپنی جانوں پر اپنے مالوں پر اور اپنی بیویوں پر آپ نے فرمایا اس طرح نہیں تم اس طرح ہوجاؤ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رءوف رحیم “
Top