Dure-Mansoor - At-Tawba : 44
لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
لَا يَسْتَاْذِنُكَ : نہیں مانگتے آپ سے رخصت الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنین جان (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالْمُتَّقِيْنَ : متقیوں کو
آپ سے وہ لوگ اجازت نہیں مانگتے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کریں اور اللہ متقیوں کو جانتا ہے
1:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والنحاس نے اپنی ناسخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) لا یستاذنک الذین یومنون باللہ والیوم الاخر “ ان دو آیتوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ تفسیر ہے منافقین کے لئے ہے جب انہوں نے بغیر عذر کے جہاد سے (روگردانی کرتے ہوئے) بیٹھ رہنے کی اجازت طلب کی اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کا عقد قبول کرتے ہوئے فرمایا (آیت) فاذا استاذنوک لبعض شانہم فاذن لمن شئت منہم “ 2:۔ ابوعبید وابن منذر وابن ابی حاتم والنحاس نے اپنی ناسخ میں ابن عباس ؓ نے (آیت) لا یستاذنک الذین یومنون “ سے روایت کیا کہ انہوں نے ان دو آیتوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی اس آیت نے منسوخ کردیا جو سورة نور میں ہے (یعنی) (آیت) انما المومنون الذین امنوا باللہ ورسولہ “ سے لے کر آیت) ” ان اللہ غفور رحیم (62) “ تک اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو دو اعلی نظریوں کا اختیار دیا اور جو کوئی پیچھے رہے تو وہ بغیر کسی حرج کے پیچھے بیٹھا رہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے۔
Top