Dure-Mansoor - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اور ان میں ایسا شخص بھی ہے جو کہتا ہے کہ آپ مجھے اجازت دیجئے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے خبردار وہ فتنے میں پڑچکے ہیں اور بلاشبہ جہنم کافروں کو گھیرنے والا ہے
1:۔ ابن منذر والطبرانی وابن مردویہ وابو نعیم نے معرفۃ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے غزوہ تبوک کی طرف نکلنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے جد بن قیس سے فرمایا بنواصغر کے جہاد کے بارے میں تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں ڈرتا ہوں اس بات سے کہ اگر میں بنواصفر کی عورتوں کو دیکھ لوں تو میں فتنہ میں مبتلا ہوجاوں گا مجھ کو اجازت دیجئے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ جنگ سے منہ موڑنے پر وعید : 2:۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا آپ جد بن قیس کو فرما رہے تھے۔ اے جد کیا بنو اصفر کے خلاف لڑائی کے لئے تیار ہے۔ جد نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجئے میں عورتوں کے عشق و محبت میں مبتلا ہونے والا آدمی ہوں۔ اور میں ڈرتا ہوں اگر میں بنو اصفر کی عورتوں کو دیکھوں گا تو فتنہ میں مبتلا ہوجاوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حالانکہ آپ اس سے اعراض فرما رہے تھے میں نے تجھ کو اجازت دے دی تو اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ (الآیہ) 3:۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم غزوہ میں شریک ہو اور تم بنو اصفر کی بیٹیوں کی غنیمت پاؤ گے منافقین میں سے کچھ لوگوں نے کہا بلاشبہ یہ تم کو عورتوں کے فتنے میں مبتلا کردے گا توا للہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ 4:۔ ابن مردویہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت جد بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی اس نے کہا اے محمد ﷺ مجھ کو اجازت دیجئے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالے بنو اصفر کی عورتوں کے ذریعہ۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تبوک کا جہاد کرو تم اصفر کی بیٹیوں کو غنیمت میں پاؤ گے جو روم کی عورتیں ہیں تو (بعض منافقین) نے کہا ہم کو اجازت دیجئے اور ہم کو عورتوں کے ذریعہ فتنہ میں نہ ڈالئے۔ 6:۔ ابن اسحاق وابن منذر والبیہقی نے دلائل میں اپنی سند سے عاصم بن عمر بن قتادہ و عبداللہ بن ابی بکر بن حزم دونوں سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ بہت کم غزوات میں تشریف لے جاتے تھے مگر یہ واضح ہوتا کہ آپ کا نکلنا کسی اور ارادہ سے ہے۔ سوائے غزوہ تبوک کے کہ آپ نے اعلان کرتے ہوئے فرمایا اے لوگوں میں روم کا ارادہ کرتا ہوں اور میں ان کو خوب جانتا ہوں اور یہ تنگی کا زمانہ تھا گرمی کی شدت اور شہروں کی خشک سالی کا زمانہ تھا اور وہ وقت پھلوں کے پکنے کا تھا۔ اور لوگ اپنے پھلوں میں ٹھہرنے اور ان کے سائے میں بیٹھنا پسند کرتے تھے اور وہاں سے نکلنے کو ناپسند کرتے تھے۔ اس درمیان کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن اپنی تیاری میں تھے اچانک آپ نے جد بن قیس سے فرمایا اے جد کیا بنو اصفر کی بیٹیوں کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ میری قوم جانتی ہے کہ مجھ سے زیادہ عورتوں کو پسند کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اور مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے بنواصفر کی عورتوں کو دیکھ لیا تو میں فتنہ میں پڑجاوں گا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجئے کہ (میں جہاد میں نہ جاوں) تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا اور فرمایا تجھ کو اجازت ہے تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ الا فی الفتنۃ سقطوا “ کہتے ہیں کہ (ایسا کہنے سے) وہ رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ جانے سے وہ جس فتنہ میں واقع ہوا صرف اپنی ذات میں رغبت رکھنے کا سبب تو یہ فتنہ بنواصفر کی عورتوں کے فتنہ سے شدید اور بڑا ہے۔ جس سے وہ ڈرتا تھا فرمایا (آیت) ” وان جھنم لمحیطۃ بالکفرین “ یعنی اسی کا سبب جہنم ان کو گھیرے ہوئے ہے اور منافقین میں سے ایک آدمی نے کہا (آیت) ” لا تنفروا فی الحر “ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” قل نار جھنہم اشد حرا لو کانوا یفقھون “ راوی نے کہا پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سفرکا اہتمام فرمایا اور لوگوں کو تیاری کرنے کا حکم فرمایا اور مالدار لوگوں کو خرچ کرنے پر اور اللہ کے راستے میں سواریاں دینے پر آمادہ فرمایا تو مالدار لوگوں میں سے بہت سے افراد نے یہ بوجھ اٹھایا اور ثواب کی امید رکھی حضرت عثمان ؓ سے روایت کیا کہ اس غزوہ میں اتنا عظیم مال دیا کسی نے آپ سے بڑھ کر اتنا خرچہ نہیں کیا۔ اور دو سو اونٹوں کا بوجھ پیش کیا۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والے : 7:۔ بیہقی (رح) نے دلائل میں عروہ موسیٰ بن عقبہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جہاد کی تیاری فرمائی شام کا ارادہ کرتے ہوئے اور لوگوں کو نکلنے کی اجازت عطا فرمائی اور ان کو نکلنے کا حکم بھی فرمایا (کہ جہاد کے لئے نکلو) اس وقت شدید گرم راتیں تھیں اور لوگوں کے لئے اپنی کھجوروں کا پھل چننے کا موسم تھا۔ اس لئے بہت لوگوں نے دیر لگائی۔ اور کہنے لگے روم کے ساتھ (لڑنے کی) کوئی طاقت نہیں ہے۔ خاندانی شرافت والے لوگ نکلے اور منافق پیچھے رہ گئے اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ باتیں بنانی شروع کیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کی طرف کبھی واپس نہیں آئیں گے جنہوں نے ان کی باتوں کو تسلیم کیا انہوں نے ان کو اپنی طرف کھینچ لیا اور جانے سے باز رکھا اور مسلمانوں سے بھی کچھ لوگ پیچھے رہ گئے اپنے عار کے سبب ان میں سے بیمار اور تنگدست بھی تھے۔ اور چھ آدمی جو سب تنگدست تھے اور سواری مانگ رہے تھے وہ پیچھے رہ جانے کو پسند نہیں کرتے تھے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا میں تمہارے لئے کوئی سواری نہیں پاتا اور (اس حال) میں لوٹ گئے کہ ان کی آنکھیں غم کی وجہ سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس اتنا مال نہیں تھا کہ وہ خرچ کرسکیں ان میں بنو سلمہ میں سے عمر بن غنمہ اور بنومازن میں سے ابن النجار ابو یعلی عبدالرحمن بن کعب اور بنو حارث میں سے علیہ بن زید اور بنو عمر وبن عوف میں سے سالم بن عمیر اور ھرم بن عبداللہ تھے اور انکو نبی البکاء پکارا جاتا ہے اور عبداللہ بن عمر از بنو مزینہ میں سے ایک آدمی یہ لوگ رو رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ یہ لوگ جہاد سے محبت کرتے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے طرف سے کوشش کی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی عذر قبول فرماتے ہوئے فرمایا (آیت) ” لیس علی الضعفآء ولا علی المرضی ولا علی الذین لا یجدون ما ینفقون حرج اذا نصحوا للہ ورسولہ “ (الآیۃ) اور اس کے بعد دو آیتیں۔ اور جد بن قیس سلمی بھی آیا اس حال میں آپ مسجد میں ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے کہنے لگے یا رسول اللہ مجھ کو جہاد سے بیٹھ جانے کی اجازت دیجئے بیشک میں جائیداد والا ہوں اور اس میں کئی اسباب ایسے ہیں جو میرے لئے عذاب ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیاری کرو بلاشبہ تو مالدار ہے شاید کہ تو اپنے ساتھ سوار کرے بنو اصفر کی کسی بیٹی کو اس نے کہا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے تو (یہ آیت) نازل ہوئی (آیت) ” ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ اور اس کے ساتھ پانچ آیات ہیں جو بعض کے پیچھے نازل ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپ کے ساتھ ایمان والے بھی تھے اور پیچھے رہ جانے والوں میں سے غنمہ بن ودیعہ بھی تھے جو بنو عمر و بن عوف میں سے تھے ان سے کہا گیا تجھے کس چیز نے رسول اللہ ﷺ سے پیچھے کردیا حالانکہ تو مسلمان ہے تو اس نے کہا دل لگی اور خوش طبعی نے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اور پیچھے رہ جانے وال منافقین کے بارے میں نازل فرمایا (آیت) ” ولئن سالتہم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب “ سے تین آیات لگاتار ہیں۔ 8:۔ ابوالشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو ہم روم کے ساتھ جہاد کریں گے۔ اور ہم بنو اصفر کی بیٹیوں کو پائیں گے۔ آپ ﷺ ان کے حسن کا تذکرہ فرماتے تھے مسلمان جہاد میں ترغیب دینے کے لئے منافقین میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ عورتوں سے میری محبت کو آپ جانتے ہیں مجھ کو اجازت دیجئے اور مجھ کو ساتھ نہ لے جائیے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 9:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تفتنی “ سے مراد ہے کہ مجھے نہ نکالئے۔ (آیت) الا فی الفتنۃ سقطو ا “ میں فتنے کا معنی حرج ہے۔ 10:۔ ابن منذر وابو الشیخ (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تفتنی “ یعنی مجھ کو گنہگار نہ کیجئے۔ (آیت) ” الا فی الفتنۃ سقطوا “ خبردار یہ گناہ میں گر چکے ہیں۔
Top