Dure-Mansoor - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر آپ ان سے سوال کریں گے تو وہ کہہ دیں گے کہ ہم تو بس یونہی باتوں میں مشغول تھے اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ فرما دیجئے کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی کرتے تھے
منافقانہ حرکت اور جھوٹ : 1:۔ ابو نعیم نے حلیہ میں شریح بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ابو درداء ؓ سے کہا اے قراء کی جماعت کیا بات ہے ؟ تم ہم سے زیادہ بزدل ہو اور زیادہ بخیل ہو جب تم سے سوال کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے لقمے بناتے ہو جب تم کھاتے ہو ابو درداء ؓ نے اس سے اعراض کیا اور اس کو کچھ بھی جواب نہ دیا اور عمر بن خطاب ؓ کو اس کی خبر دے دی تو حضرت عمر ؓ اس آدمی کو پاس گئے جس نے یہ بات کہی تھی اس کو اس کے کپڑے سے پکڑا اور اس کا گلا گھونٹتے ہوئے نبی کریم ﷺ کے پاس لے آئے اس آدمی نے کہا کہ ہم کو محض ہنسی اور خوش طبعی کررہے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی طرف وحی فرمائی (آیت) ” ولئن سالتہم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب “ 2:۔ ابن جریر وابن حاتم وابو الشیخ، ابن مردویہ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ عزوہ تبوک میں ایک دن ایک مجلس میں ایک آدمی نے کہا کہ ہمارے ان قاریوں کی طرح ہم نے نہیں دیکھا کوئی ان سے بڑھ کر کھانے کی رغبت نہیں رکھتا، کوئی ان سے زیادہ زبان سے جھوٹ والا نہیں۔ اور دشمن سے لڑنے کے وقت ان سے بڑھ کر بزدل نہیں مجلس میں سے ایک آدمی نے کہا تو نے جھوٹ کہا لیکن تو منافق ہے۔ میں رسول اللہ ﷺ کو ضرور خبردوں گا پس وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور قرآن نازل ہوا تو عبداللہ نے فرمایا میں نے اس کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور پتھر اسے زخمی کررہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے یا رسول اللہ ﷺ کہ ہم تو محض ہنسی اور خوش طبعی کررہے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ اس کی آیات اور اس کے رسول سے تم مذاق کرتے ہو۔ 3:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم والعقیلی نے ضعفاء میں وابوالشیخ وابن مردویہ والخطیب نے رواۃ مالک میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی (منافقین کے سردار) کو دیکھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے سامنے تیز دوڑرہا تھا اور پتھر اس کو زخمی کررہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا یا محمد ! ہم تو محض ہنسی اور خوش طبعی کررہے تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے تم مذاق کرتے ہو ؟ آپ (علیہ السلام) کا مذاق اڑانا صریح کفر ہے : 4:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ولئن سالتہم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب “ کے بارے میں فرمایا کہ منافقین میں سے ایک آدمی نے کہا کہ ہم کو محمد ﷺ نے بیان فرمایا کہ فلاں کی اونٹنی فلاں فلاں وادی میں اور فلاں دن اور فلاں دن میں ہوگی کیا وہ غیب کو جانتے ہیں ؟ 5:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا اس درمیان کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک کی تیاری میں اور آپ کے آگے منافقین میں سے کچھ لوگ تھے، انہوں نے کہا یہ آدمی (یعنی محمد ﷺ امید رکھتا ہے کہ اس کے لئے شام کی محلات اور اس کے قلعے فتح کئے جائیں گے۔ یہ بہت دور ہے دور ہے (یعنی یہ نہیں ہوسکتا) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو اس بات پر مطلع فرمایا (وحی کے ذریعے) اللہ کے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان سواروں کو مجھ پر روک لو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے آپ نے فرمایا تم نے اس اس طرح کہا انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ہم کو محض ہنسی اور خوش طبعی کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں نازل فرمایا جو تم سنتے ہو۔ 6:۔ فریابی ابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ نبی کریم ﷺ ایک سفر میں تھے اور منافقین میں سے کچھ لوگ آپ کے آگے چل رہے تھے، ان لوگوں نے کہا اگر وہ سچ ہے جو محمد ﷺ فرماتے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی زیادہ برے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری جو انہوں نے کہا آپ نے ان کو بلوایا اور فرمایا تم کیا کہتے تھے انہوں نے کہا کہ ہم ہنسی اور خوش طبعی کررہے تھے۔ 7:۔ ابن اسحاق وابن منذر وابن ابی حاتم نے کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ محشی بن حمیر نے کہا کہ میں اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ میرے خلاف یہ فیصلہ کیا جائے کہ تم میں سے ہر آدمی مجھے سودق لگائے۔ اس شرط پر کہ وہ اس سے نجات پاجائے کہ ہمارے بارے میں جو قرآن نازل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے عمار بن یاسر ؓ سے فرمایا اس قوم کو پالو کیونکہ وہ جلنے لگے ہیں اور ان سے ان کے بارے میں پوچھا جو کچھ انہوں نے کہا ہے کیونکہ وہ انکار کریں گے اور اسے چھپائیں گے۔ ان سے کہہ کہ ہاں تم نے (یہ باتیں) کی ہیں اور تم نے ایسا ایسا کہا ہے پس وہ ان کی طرف گئے اور ان لوگوں سے کہا تو وہ عذر کرنے کے لئے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نازل فرمایا (آیت) ” لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم ان نعف عن طآ ئفۃ منکم “ (الآیہ) اور یہ وہ آدمی تھا کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمائی وہ محش بن عمیر ہے۔ اسے عبدالرحمن کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے انہوں نے سوال کیا کہ وہ شہید ہو کر قتل کیا جائے (اس حال میں) کہ وہ نہ جانے اپنے قتل ہونے کی جگہ کو اور وہ یمامہ میں قتل کئے گئے اور ان کے قتل کی جگہ کو کوئی نہیں جانتا اور نہ یہ معلوم ہے کہ کس نے قتل کیا نہ دیکھا گیا اس کے نشان کو اور نہ کسی آنکھ نے اس کو دیکھا۔ 8:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو بنو عمر و بن عوف میں سے تھے ان میں ودیعہ بن ثابت اور اشجع میں سے ایک آدمی بھی تھے جو ان کے حلیف تھے جس کو محشی بن حمیر کہا جاتا تھا۔ ان کے بعض لوگوں نے بعض سے کہا کیا تم لوگ بنو اصفر کے قتال کا گمان رکھتے ہو دوسروں کے قتال کی طرح اللہ کی قسم یقینا ہم تمہارے ساتھ ہیں کل تمہارے ساتھ ایسا ہوگا کہ تم کو رسیوں سے باندھ کر کھینچاجائے گا محشی بن حمیر نے کہا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرے خلاف فیصلہ کیا جائے (آگے) حدیث کو رد والی روایت کے مطابق ذکر کیا۔ 9:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابوالشیخ نے ابن مردویہ (رح) نے ابن مسعود ؓ سے اس طرح روایت کیا کہ کلبی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب تبوک سے واپس تشریف لائے اور آپ کے آگے تین جماعتیں تھیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اس کے رسول کے قرآن کا مذاق اڑایا راوی نے کہا کہ ان میں سے ایک آدمی کے گفتگو میں دلچسپی نہ لی اور وہ ایک طرف ہو کر چلنے لگا۔ جس کو یزید بن ودیفہ کہا جاتا تھا تو (آیت) ’ ان نعف عن طآ ئفۃ منکم “ نعذب طآ ئفۃ “ نازل ہوئی اسے طائفہ کہا گیا حالانکہ وہ ایک آدمی ہے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ’ ان نعف عن طآ ئفۃ منکم “ نعذب طآ ئفۃ “ سے مراد ہے ایک خاص آدمی اور ایک جماعت۔ 11:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ طائفہ ایک سے لے کر ہزار تک ہے۔ 12:۔ عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الطآیۃ “ سے مراد ہے ایک آدمی اور ایک سے زیادہ افراد پر ہوتا ہے۔ س 13:۔ ابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ’ ان نعف عن طآ ئفۃ منکم “ نعذب طآ ئفۃ “ یعنی اگر ان کے بعض کو معاف کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو ان میں سے عذاب دینا نہیں چھوڑیں گے جسے فرمایا (آیت) ان یعذبہم بانہم کانوا مجرمین “ 14:۔ ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا مدینہ میں (جہاد سے) پیچھے رہ جانے والے منافقین میں سے وداعۃ بن ثابت اور بنو عمرو بن عوف میں سے ایک آدمی تھا۔ اس سے کہا گیا تو رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کیوں رہ گیا کہنے لگا محض ہنسی اور خوش طبعی کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں (یہ آیت) اتاری ” ولئن سالتہم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب “ سے لے کر ” کانوا مجرمین “ تک
Top