Dure-Mansoor - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے عطا فرمایا تو ہم ضرور ضرور خیرات کریں گے اور ضرور ضرور ہم نیک آدمیوں میں شمار ہوجائیں گے
ثعلبہ بن حاطب کا واقعہ : 1:۔ حسن بن سفیان وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والعسکر نے الامثال من والطبرانی وابن منذرو الباوردی وابو نعیم نے معرفتہ الصحابہ میں وابن مردویہ اور بیہقی رحمہم اللہ نے دلائل میں ابوامامہ باہلی ؓ سے روایت کیا کہ ثعلبہ بن حاطب ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ مجھ کو مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا اے ثعلبہ تجھ پر افسوس ہے۔ تو اس پر راضی نہیں ہے کہ تو میری طرح ہوجائے اگر میں چاہتا تو میرا رب ان پہاڑوں کو میرے ساتھ چلاتا تو یقینا چل پڑتے اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھ کو مال عطا فرمائے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو مال دیں گے تو میں ضرور ہر حق والے کو اس کا حق دوں گا آپ نے فرمایا اے ثعلبہ افسوس ہے تجھ پر وہ تھوڑا جس کے ساتھ تو شکر ادا کرتا رہے۔ وہ بہتر ہے اس کثیر مال سے جس کے ساتھ تو شکر ادا کر نہ کرسکے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے تو رسول اللہ ﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ اس کو مال عطا فرما چناچہ اس نے تجارت کی اور بکریاں خریدیں اس میں اس کے لئے برکت دی گئی اور وہ اتنی زیادہ بڑھیں جیسا کہ کپڑے بڑھتے ہیں یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی سرزمین اس کے لئے تنگ ہوگئی۔ تو وہ وہاں سے دور چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دن کو نماز میں حاضر ہوتا اور رات کو حاضر نہ ہوتا پھر (بکریاں) اور زیادہ بڑھیں جیسے کیڑے بڑھتے ہیں تو وہ یہاں سے بھی دور چلا گیا۔ اب وہ جمعہ کے سوا دن رات کی نمازوں میں سے کسی کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر نہ ہوسکتا تھا پھر (بکریاں) اور بڑھ گئیں جیسے کیڑے بڑھتے ہیں تو وہ اس کے لئے جگہ تنگ ہوگئی تو وہ وہاں سے اور زیادہ دور چلا گیا۔ اب وہ جمعہ کی نماز میں اور جنازہ کی نماز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر نہیں ہوسکتا تھا اب وہ قافلوں سے ملا کرتا تھا اور ان سے مدینہ منورہ کی خبریں پوچھ لیتا تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو گم پایا تو اس کے بارے میں پوچھا آپ کو لوگوں نے بتایا کہ اس نے بکریوں کو خرید کیا ( بکریاں اتنی بڑھیں) کہ مدینہ منورہ (کا شہر) اس کے لئے تنگ ہوگیا اور لوگوں نے اس کے بارے میں (پوری پوری) خبر دی) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ثعلبہ بن حاطب ہلاک ہوگیا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو صدقات کے لینے کا حکم فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ “ (التوبہ آیت 103) تو رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں کو بھیجا قبیلہ جہینہ میں ایک آدمی اور بنوسلمہ میں سے ایک آدمی تاکہ وہ صدقات وصول کریں اور ان کو اونٹوں اور بکریوں کی عمریں لکھ دیں کہ وہ کیسے ان سے زکوٰۃ وصول کریں گے اور ان دونوں کو حکم فرمایا کہ ان کا گذر ثعلبہ بن حاطب اور بنی سلیم کے ایک آدمی کے پاس سے ہوگا چناچہ یہ دونوں ثعلبہ کے پاس آئے اور اور اپنے زکوٰۃ کے بارے میں حکم سنایا اس نے کہا مجھ کو اپنی تحریر دکھاؤ جب اس نے اس میں دیکھا تو کہا یہ تو جزیہ ہی ہے تم جاؤ اور فارغ ہونے کے بعد میرے پاس سے گزر جانا روای کا بیان ہے کہ وہ دونوں چلے اور جب سلیمی نے ان کی بات سنی اس نے فورا اپنے اونٹوں میں سے انتہائی عمدہ اونٹ ان کو پیش کیا اسے دیکھ کر ان دونوں نے کہا تجھ پر یہ دینا لازم نہیں ہے سلیمی نے کہا میں اپنے عمدہ مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تقرب چاہتا ہوں انہوں نے اس کو قبول کرلیا جب یہ دونوں فارغ ہوئے تو پھر ثعلبہ کے پاس سے گزرے پھر اس نے کہا مجھ کو اپنی تحریر دکھاؤ اس نے اس میں غور وفکر کیا اور کہا یہ تو جزیہ ہی ہے۔ تم جاؤ یہاں تک کہ میں اپنی رائے بنالوں گا یہ دونوں چلے یہاں تک کہ مدینہ منورہ آگئے جب رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو دیکھا ان سے ان سے بات کرنے سے پہلے ہی فرمایا ہلاک ہوگیا ثعلبہ بن حاطب اور سلیمی کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ومنہم من عھد اللہ لئن اتنا من فضلہ لنصدقن “ تین آیات اس آیات کو ثعلبہ کے بعض رشتہ داروں میں کسی نے سنا اور وہ فورا ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا اے ثعلبہ تیرے لئے ہلاکت ہو اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں اس طرح اور اس طرح نازل فرمایا (یہ سن کر) ثعلبہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ میرے مال کا صدقہ ہے ( یعنی زکوٰۃ ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرا مال قبول کرنے سے منع فرمادیا ہے۔ اس نے رونا شروع کیا اور اپنے سر میں مٹی ڈالنے لگا رسول اللہ ﷺ فرمایا یہ تیرا اپنا عمل ہے میں نے تجھے کہا تھا تو نے میری بات نہ مانی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے مال قبول نہ فرمایا یہاں تک کہ وہ چلا گیا۔ پھر ابوبکر کا دور خلافت آیا اور کہا اے ابوبکر ؓ مجھ سے میری زکوٰۃ قبول کیجئے آپ نے انصار میں سے میری قدرومنزلت کو جانتے ہیں ابوبکر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اس کو قبول نہیں فرمایا اور میں اس کو قبول کرسکتا ہوں ؟ چناچہ ابوبکر ؓ نے اس کو قبول نہ فرمایا پھر عمر بن خطاب ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کے پاس آیا اور کہا اے ابو حفص ! مجھ سے میری زکوٰۃ کو قبول کیجئے آپ کو مہاجرین اور انصار اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کا وسیلہ بھی پیش کیا مگر حضرت عمر ؓ نے فرمایا جس کو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ نے قبول نہیں کیا تو کیا میں اس کو قبول کرلوں گا ؟ پس آپ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت عثمان ؓ خلیفہ ہوئے تو حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں وہ فوت ہوگیا۔ اس بارے میں (یہ آیت) ” الذین یلمزون المطوعین من المومنین فی الصدقت “۔ نازل ہوئی۔ 2:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومنہم من عھد اللہ لئن اتنا من فضلہ لنصدقن ولنکونن من الصلحین “ کے بارے میں فرمایا کہ ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی تو ثعلبہ کہا جاتا تھا اور وہ انصار میں سے تھا ایک مجلس میں آیا اور ان کو گواہ بناتے ہوئے کہا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو میں ہر حق والے کا حق اد کروں گا اور اس میں سے صدقہ کروں گا اور اس میں سے رشتہ داروں کا حصہ بھی نکالوں گا اللہ تعالیٰ نے اس کو آزمائش میں مبتلا کرتے ہوئے اس کو اپنے فضل سے مال عطا فرمایا اس نے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ ہوئے جو اس نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی اللہ تعالیٰ نے اس کو حالت کو قرآن میں بیان فرمایا۔ 3:۔ سعید بن منصور وابن منذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ منافق کی پہچان تین چیزوں کے ساتھ حاصل کرو جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا جب وعدہ کرے گا تو اس کے خلاف کرے گا جب معاہدہ کرے گا تو اسے توڑ دے گا اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” ومنہم من عھد اللہ لئن اتنا من فضلہ لنصدقن “ آیت کے آخر تک۔ 4:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابو الشیخ رحمہم اللہ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ تین باتیں جس میں ہوں گی تو وہ منافق ہوگا جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا جو وعدہ کرے گا تو اس کے خلاف کرے گا جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور یہ آیت تلاوت کی (آیت) ” ومنہم من عھد اللہ لئن اتنا من فضلہ “۔ آیت کے آخر تک۔ 5:۔ بخاری ومسلم والترمذی والنسائی رحمہم اللہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ 6:۔ ابو الشیخ والخرائطی (رح) نے مکارم الاخلاق میں محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے تین نشانیوں کے بارے میں سنا جو منافق کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے میں ان کو کتاب میں ایک زمانہ تک ڈھونڈتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کو ایک مدت کے بعد پالیا ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کہ اللہ تعالیٰ ان آیات میں ذکر فرماتے ہیں (آیت) ” ومنہم من عھد اللہ لئن اتنا من فضلہ “۔ سے لے کر ” وبما کانوا یکذبون “ تک اور فرمایا (آیت) ” انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض “ (الاحزاب آیت 72) (آیت) ” اذا جآءک المنفقون “۔ سے لے کر ” واللہ یشھدان المنفقین لکذبون ‘ (المنافقون آیت 1) 7:۔ ابوا لشیخ (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انصار سے ایک آدمی ہے جس نے یہ کہا تھا اس کا چچا کا بیٹا مرگیا اور وہ اس کی طرف سے مال کا وارث بنا اس نے بخل کیا ور اس نے ان امور کو پورا نہ کیا جس کا اس نے وعدہ کیا تھا پس اس کے بعد نفاق سے کام لینے لگا یہاں تک کہ وہ منافق بن گیا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) بما اخلفو اللہ ما وعدوہ وبما کانوا یکذبون “ 8:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابو قلاب (رح) سے روایت کیا کہ خواہش پر چلنے والوں کی مثال منافقین کی طرح ہے ان کا کلام مختلف ہوتا ہے اور ان تمام معاملات میں نفاق ہے پھر یہ آیات تلاوت کی (آیت) ” ومنہم من عھد اللہ ’“ اور ومنہم من یلمزک “ اور ” ومنہم الذین یوذون النبی “ ( سورة توبہ) 9:۔ ابو الشیخ (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” بما اخلفوا اللہ ما وعدہ وبما کانوا یکذبون “ کے بارے میں فرمایا کہ تم جھوٹ سے بچو کیونکہ وہ نفاق میں سے ایک دروازہ ہے اور سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ وہ ایمان میں سے ایک دروازہ ہے اور ہم کو (یہ بات) ذکر کی گئی کہ اللہ کے نبی ﷺ نے بیان فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ، بنی اسرائیل کے لئے جب تورات لے آئے تو بنی اسرائیل نے کہا کہ تورات (میں احکام) بہت ہیں ہم اس کے لئے فارغ نہیں آپ ہمارے لئے ایک اجتماعی حکم کے بارے سوال کیجئے جس پر ہم عمل کرسکیں اور ہم اپنے کاروبار کے لئے بھی ہوسکیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ٹھہر جاؤ ٹھہر جاؤ اے میری قوم یہ اللہ کی کتاب ہے اللہ کا بیان ہے اللہ کا نور ہے اور اللہ کی حفاظت میں ہے۔ چناچہ انہوں نے آپ کے ساتھ پہلے کی طرح دوبارہ گفتگو کی یہاں تک کہ تین بار انہوں نے ایسا ہی کیا رب تبارک وتعالیٰ نے فرمایا بلاشبہ میں ان کو حکم دیتا ہوں کہ اگر انہوں نے ان (احکام) کی حفاظت اور ان احکام پر عمل کیا تو ان کے ذریعے جنت میں داخل ہوں گے وہ یہ ہیں کہ اپنی میراث کی تقسیم کرنے سے رک جائیں اور اس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور اپنی آنکھوں کو گھروں میں داخل نہ کریں (یعنی وہ گھروں میں نظر نہ ڈالیں) جب تک ان کو اجازت نہ دی جائے۔ اور کھانا نہ کھائیں یہاں تک کہ وضو نہ کرلیں جیسے نماز کا وضو ہوتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف لوٹ آئے تو وہ ان احکام کے مارے سن کر خوش ہوگئے اور کہنے لگے ہم ان پر قائم رہیں گے۔ اللہ کی قسم ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ وہ غفلت اور سستی میں مبتلا ہوگئے اور آپ ان سے الگ ہوگئے۔ جب اللہ کے نبی ﷺ نے اس بات کو بیان فرمایا بنی اسرائیل کے بارے میں تو فرمایا مجھ کو چھ باتوں کا ضامن بناؤ میں تمہارے جنت کا ضامن بنوں گا۔ جب تم بات کرو تو جھوٹ نہ بولو جب تم وعدہ کرو تو خلاف ورزی نہ کرو۔ جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت نہ کرو۔ اور اپنی آنکھوں کو نیچا رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو قتادہ (رح) نے فرمایا (یہ احکام) بہت مشکل اور سخت ہیں اللہ کی قسم مگر جس کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
Top