Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 15
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ : اور مطلقہ عورتوں کے لیے مَتَاعٌ : نان نفقہ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
تو تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو۔ کہہ دے بیشک اصل خسارہ اٹھانے والے تو وہ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا۔ سن لو ! یہی صریح خسارہ ہے۔
فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس میں ایک تو شرک اور مشرکین سے علیحدگی اور براءت کا اعلان ہے کہ تم اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو، مجھ سے یہ توقع ہرگز نہ رکھو۔ سورة کافرون میں یہی مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ دوسرے اس میں مشرکین کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر میرے سمجھانے کے باوجود تم ان جھوٹے معبودوں کی بندگی پر ڈٹے ہوئے ہو تو ڈٹے رہو، مگر سزا بھگتنے پر بھی تیار رہو۔ تمہارے انجام کی ذمہ داری مجھ پر نہیں۔ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْخٰسِرِيْنَ۔۔ : میں الف لام کمال کے معنی کے لیے ہے، یعنی کامل اور اصل خسارے والے وہ ہیں۔ آدمی کو اپنی جان اور گھر والے سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ فرمایا، کہہ دے اصل خسارے والے لوگ وہ ہیں جنھوں نے شرک کرکے اور شرک کی تعلیم دے کر قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کا ایندھن بنایا، کیونکہ دنیا کے خسارے کا تو مداوا ہوسکتا ہے مگر قیامت کے دن کے خسارے کا کوئی مداوا نہیں۔ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ : مشرکین کی غباوت اور کند ذہنی کو مد نظر رکھ کر ایک دفعہ پھر صاف لفظوں میں ان کے واضح خسارے کا اظہار فرمایا، تاکہ کسی جملے ہی سے وہ توحید کی طرف پلٹ آئیں۔
Top