Fahm-ul-Quran - Al-Hajj : 7
وَّ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : گھڑی (قیامت) اٰتِيَةٌ : آنیوالی لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهَا : اس میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ يَبْعَثُ : اٹھائے گا مَنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
” اور یہ کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں اور جو قبروں میں ہیں اللہ انہیں ضرور اٹھائے گا۔ (7)
فہم القرآن ربط کلام : انسان کی پیدائش اور نباتات کی تخلیق کے حوالے سے قیامت کا ثبوت پیش کرنے کے بعد یہ ثابت کردیا ہے کہ جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ قیامت قائم کرنے کا مرکزی اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کی ٹھیک ٹھیک سزا اور نیک لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائے۔ جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے۔ درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ کذب بیانی اور اس کے عدل و انصاف کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے جھوٹے موقف پر اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہوئے بحث و تکرار کرتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والا۔ ناصرف علم سے تہی دست ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی روشن کتاب کی رہنمائی اور ہدایت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس دلائل نہیں ہوتے اس لیے وہ متکبرانہ انداز میں منہ موڑتے ہوئے لوگوں کو گمراہی کے راستے پر قائم رکھنے کے درپے رہتا ہے۔ اس کو دنیا میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں جلا دینے والے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں دوسرے مقام پر فرمایا کہ جب ان کے جسم جل جائیں گے تو ان کے جسم بدل دئیے جائیں گے۔ اس طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا اور وہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ (النساء : 56) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنْ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً اکُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ النَّارِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تمہاری دنیا کی آگ ‘ دوزخ کی آگ
Top