Fahm-ul-Quran - Al-Qasas : 79
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پر (سامنے) قَوْمِهٖ : اپنی قوم فِيْ : میں (ساتھ) زِيْنَتِهٖ : اپنی زیب و زینت قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُرِيْدُوْنَ : چاہتے تھے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی يٰلَيْتَ : اے کاش لَنَا مِثْلَ : ہمارے پاس ہوتا ایسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا قَارُوْنُ : قارون اِنَّهٗ : بیشک وہ لَذُوْ حَظٍّ : نصیب والا عَظِيْمٍ : بڑا
ایک دن قارون اپنی قوم کے سامنے پوری ٹھاٹھ، باٹھ کے ساتھ نکلا اسے دیکھ کر دنیا کی زندگی کے طالب کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے یہ تو بڑے نصیب والا ہے
فہم القرآن ربط کلام : قارون کا عملاً فخر و غرور کا اظہار کرنا اور اس کا بدترین انجام ہونا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک دن قارون لباس فاخرہ پہنے ہوئے نوکروں، چاکروں اور اپنے دوست و احباب کے ساتھ پورے جاہ و جلال کے ساتھ بڑے جلوس کی شکل میں نکلا۔ تاکہ جاہ و حشمت اور اپنی دولت و ثروت کی لوگوں پر دھاک بٹھا سکے۔ وہ اس جاہ و جلال اور شوکت و حشمت کے ساتھ نکلا کہ کمزور ایمان والے لوگ اس قدر مرعوب ہوئے کہ بےساختہ پکار اٹھے کہ کاش ! ہمیں بھی اس طرح کا مال اور اسباب دئیے جاتے جس طرح قارون کو دئیے گئے ہیں۔ یہ تو بڑا ہی خوش بخت اور اچھے نصیب والا ہے۔ لوگوں کی مرعوبیت دور کرنے اور ان کی حقیقی نعمتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے صاحب علم یعنی صالح کردار لوگوں نے انھیں سمجھایا کہ تم پر افسوس ہو کہ دنیا کے مال اور شان و شوکت سے مرعوب ہوئے جا رہے ہو۔ دیکھو اور غور کرو ! کہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی اللہ کے ہاں دولت وہ اجر ہے جو صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کو حاصل ہوگا۔ اس اجر کو وہی لوگ پاسکیں گے جو سچے ایمان اور صالح کردار پر ثابت قدم رہیں گے۔ صاحب علم لوگ ابھی کمزور ایمان والوں کو سمجھا ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے مال اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ جب وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ زمین میں دھنس رہا تھا تو اس کے حواری اور نوکر چاکر اس کی کوئی مدد نہ کرسکے جو کل اس پر رشک کر رہے تھے آج اپنے آپ پر افسوس کرنے لگے اور بےساختہ کہہ اٹھے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے سرفراز کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ رکھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی قارون کے ساتھ دھنسا دیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے باغیوں اور منکروں کو حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ صبر و استقامت کی اہمیّت : صبر بےبسی کا نام نہیں صبر قوت برداشت ‘ قوت مدافعت بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ پریشانیوں پر حوصلہ رکھنے کا نام صبر ہے اور صبر کرنے والے کو آخرت میں بغیرحساب جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) [ البقرۃ : 152] ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔ “ (وَاسْتَعِیْنُوْا باالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) [ البقرۃ : 152] ” صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیجیے۔ “ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابِ ) [ الزمر : 10]
Top