Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 75
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَحْلَلْنَا : ہم نے حلال کیں لَكَ : تمہارے لیے اَزْوَاجَكَ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْتَ : تم نے دے دیا اُجُوْرَهُنَّ : ان کا مہر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ : مالک ہوا يَمِيْنُكَ : تمہارا دایاں ہاتھ مِمَّآ : ان سے جو اَفَآءَ اللّٰهُ : اللہ نے ہاتھ لگا دیں عَلَيْكَ : تمہارے وَبَنٰتِ عَمِّكَ : اور تمہارے چچا کی بیٹیاں وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ : اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خَالِكَ : اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ : اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں الّٰتِيْ : وہ جنہوں نے هَاجَرْنَ : انہوں نے ہجرت کی مَعَكَ ۡ : تمہارے ساتھ وَامْرَاَةً : اور مومن مُّؤْمِنَةً : عورت اِنْ : اگر وَّهَبَتْ : وہ بخش دے (نذر کردے نَفْسَهَا : اپنے آپ کو لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے اِنْ : اگر اَرَادَ النَّبِيُّ : چاہے نبی اَنْ : کہ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ : اسے نکاح میں لے لے خَالِصَةً : خاص لَّكَ : تمہارے لیے مِنْ دُوْنِ : علاوہ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ : مومنوں قَدْ عَلِمْنَا : البتہ ہمیں معلوم ہے مَا فَرَضْنَا : جو ہم نے فرض کیا عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْٓ : میں اَزْوَاجِهِمْ : ان کی عورتیں وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں) لِكَيْلَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے عَلَيْكَ : تم پر حَرَجٌ ۭ : کوئی تنگی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے پیغمبر ﷺ ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے انکے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے) بطور مال غنیمت دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہارے خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہیں لیکن) یہ اجازت (اے محمد ﷺ خاص تم کو ہی ہے سب مسلمانوں کو نہیں ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو (مہر واجب الادا) مقرر کردیا ہے ہم کو معلوم ہے (یہ) اس لئے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
(33:50) احللنا۔ ماضی جمع متکلم۔ احلال (افعال) مصدر۔ ہم نے حلال کردیا۔ اتیت۔ ایتاء (افعال) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر حاضر تو نے دیا۔ تو نے ادا کردیا۔ اجورہن اجر کی جمع مضاف ہن ضمیر جمع مؤنث غائب مضاف الیہ۔ ان عورتوں کا حق۔ ان کا مہر۔ وما ملکت میں وائو عاطفہ ہے اس کا عطف احللنا پر ہے ای واحللنا لک ما ملکت ۔۔ اور حلال کردی ہیں ہم نے تجھ پر۔۔ ما ملکت یمینک میں ما موصولہ ہے جو تمہارے دائیں ہاتھ کی ملک میں ہے یعنی کنیزیں ۔ مما۔ مرکب ہے من اور ما سے۔ یہاں من تبعیضیہ ہے اور ما موصولہ۔ اس میں سے جو ۔ افاء اللہ علیک۔ افائ۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے لوٹایا۔ اس نے ہاتھ لگوایا۔ اس نے فئے میں عطا کیا۔ الفیء والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے حتی تفییء الی امر اللہ (49:9) یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ اور جو مال بحالت جنگ کفار سے بزور شمشیر حاصل کیا جائے وہ مال غنیمت ہے اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہو وہ فئے کہلاتا ہے مما افاء اللہ علیک جو اللہ تعالیٰ نے تجھے فئے میں دلوائیں۔ فائدہ :۔ آیۃ ہذا میں عم (جمع اعمام) اور خال (جمع اخوال) واحد آیا ہے اور عمت (واحد عمۃ ) اور خلت (واحد خالۃ ) جمع آیا ہے۔ حالانکہ عرب ہمیشہ جمع کے مقابلے میں جمع لاتے ہیں۔ سو جاننا چاہیے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جس مصدر میں ھا نہ ہو وہ اسم جنس کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال واحد، تثنیہ، جمع تینوں صورتوں میں جائز ہے۔ مثلاً ختم اللہ علی قلوبہم وعلی سمعہم وعلی ابصارہم غشاوۃ (2:7) یہی حال ایسے اسما کا ہے جو ان مصادر کے وزن پر ہوں اور جن میں ھا نہیں ان کا اسم جنس کے طور پر استعمال جائز اور مستحسن ہے۔ چونکہ العم الضم (مصدر) کے وزن پر ہے اور الخال۔ القال کے وزن پر ہے۔ اس لئے ان کا استعمال بطور اسم جنس مستحسن ہے اس کے برخلاف العمۃ اور الخالۃ میں ھا ہے اس لئے ان کا استعمال بطور اسم جنس مستحسن نہیں۔ (روح البیان) ۔ وامراۃ مومنۃ۔ موصوف وصفت ایک مومن عورت۔ وائو عاطفہ ہے وامراۃ مومنۃ معطوف ہے اس کا عطف احللنا پر ہے یا یہ فعل محذوف کا مفعول ہے ای واحللنا لک امراۃ مومنۃ اور ہم نے حلال کردی وہ مومن عورت جو۔۔ ان وھبت نفسھا للنبی۔ ان شرطیہ ہے وھبت ماضی واحد مؤنث غائب۔ ھبۃ (فتح) مصدر ہے۔ اس عورت نے بخشا۔ اگر وہ عورت اپنے آپ کو بلا مہر نکاح کے لئے نبی کو دے دے۔ ان اراد النبی ان یستنکحھا۔ ان شرطیہ ان مصدریہ۔ یستنکحھا (باب استفعال) وہ اس کے نکاح کی طلب کرے) یہاں بمعنی ان ینکحھا (باب ضرب) وہ اس سے (یہ دوسری شرط ہے ۔ یعنی اول یہ کہ خود عورت اپنے آپ کو نبی کی زوجیت میں بلا حق مہر دینا چاہے اور دوسری شرط یہ کہ خود نبی بھی اسے اپنے نکاح میں لینا چاہے) ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس رعایت سے استفادہ نہیں فرمایا بلکہ ہر ایک کا مہر ادا کیا۔ خالصۃ لک من دون المومنین : (یہ اجازت صرف آپ کے لئے ہے دوسرے مومنوں کے لئے نہیں) ۔ قد علمنا ما فرضنا علیہم فی ازواجہم وما ملکت ایمانہم۔ قد تحقیق کے معنی دیتا ہے ما موصولہ ہے فی بمعنی متعلق۔ لفظی ترجمہ جملہ کا یوں ہوگا ! تحقیق ہمیں معلوم ہے جو (احکام وحقوق) ہم نے (مومنوں پر ) ان کی بیویوں کے متعلق اور ان کی کنیزوں کے متعلق عائد کئے ہوئے ہیں۔ یہ جملہ معترضہ ہے درمیان (خالصۃ لک من دون المومنین) کے اور درمیان لکیلا یکون علیک حرج کے اور کیلا بیان سابق سے متعلق ہے یعنی دیگر مومنوں کے لئے یہ احکام کہ وہ چار سے زیادہ بیویاں نہیں کرسکتے۔ نہ مہر کے بغیر نکاح باندھ سکتے ہیں و دیگر حقوق زوجیت (ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کرنا۔ وقت ، توجہ میں یکسانیت وغیرہ کی بندش ) کے متعلق احکام جو ہم نے عائد کئے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے۔ یہ خصوصی مراعات اس لئے ہم نے عطا کی ہیں لکیلا یکون علیک حرج تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی نہ ہو (اور آپ کے پیغمبرانہ مقاصد ومصالح کی تکمیل و تحصیل میں کوئی حرج واقع نہ ہو) ۔ لکیلا یکون۔ تاکہ ایسا نہ ہو۔ لام تعلیل کا ہے کی یہاں ناصب مضارع ہے اور معنی وعمل میں ان مصدریہ کی طرح ہے ! یکون مضارع منصوب بوجہ عمل کی ہے۔ غفورا (مبالغہ کا صیغہ ہے بڑا معاف کرنے والا۔ رحیما (مبالغہ کا صیغہ بڑا مہربان نہایت رحم والا) دونوں کان کی خبر ہیں لہٰذا منصوب ہیں۔
Top