Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fahm-ul-Quran - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ
: اے نبی کی بیبیو
لَسْتُنَّ
: نہیں ہو تم
كَاَحَدٍ
: کسی ایک کی طرح
مِّنَ النِّسَآءِ
: عورتوں میں سے
اِنِ
: اگر
اتَّقَيْتُنَّ
: تم پرہیزگاری کرو
فَلَا تَخْضَعْنَ
: تو ملائمت نہ کرو
بِالْقَوْلِ
: گفتگو میں
فَيَطْمَعَ
: کہ لالچ کرے
الَّذِيْ
: وہ جو
فِيْ قَلْبِهٖ
: اس کے دل میں
مَرَضٌ
: روگ (کھوٹ)
وَّقُلْنَ
: اور بات کرو تم
قَوْلًا
: بات
مَّعْرُوْفًا
: اچھی ( معقول)
اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو۔ کہ جو شخص دل کی خرابی میں مبتلا ہو وہ امید لگا بیٹھے۔ صاف سیدھی بات کیا کرو
فہم القرآن ربط کلام : بےحیائی سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عورت غیر محرم سے بات کرتے ہوئے اپنی زبان میں کسی حد تک بےاعتنائی کا اظہار کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام اخلاق اور اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن عورت کا غیر محرم کے ساتھ اخلاق یہ ہے کہ وہ اس سے بات کرتے ہوئے اپنی زبان میں نسبتاً بیگانگی کا اظہار کرے تاکہ جس شخص کے دل میں بےحیائی کا کچھ مرض ہے وہ غلط توقعات وابستہ نہ کر بیٹھے۔ تاہم اس ہدایت کا یہ معنٰی نہیں کہ عورت غیرمحرم سے بات کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرے یا ایسا انداز اختیار کرے جس میں بد خلقی پائی جائے اس کی اجازت نہیں ہے۔ مسلمان عورتوں کو بےحیائی سے بچانے اور مسئلہ کی اہمیت جتلانے کے لیے امہات المؤمنین کو مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمان بیٹیوں کو احساس ہو کہ اہم ضرورت کے وقت ہم نے غیر محرم سے کس طرح بات کرنی ہے۔ عورتوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ کیونکہ عورت بازا رحسن یا مارکیٹ کا مال نہیں بلکہ گھر کی محافظ، وقار اور ملکہ ہے۔ اگر عورت صحیح معنوں میں گھر کی ذمہ داری نبھائے تو اسے سخت مجبوری کے سوا گھر سے نکلنے کی فرصت کہاں ملتی ہے۔ پابندی کا یہ مطلب نہیں کہ عورت رشتہ داروں اور اپنی سہیلیوں کے ہاں نہیں جاسکتی یا مجبوری کے تحت کوئی کاروبار نہیں کرسکتی۔ قرآن مجید عورت پر ضرورت کے تحت گھر سے باہرنکلنے پر پابندی نہیں لگاتا بلکہ پابندی اس بات پر ہے کہ جب گھر سے نکلنا پڑے تو حسن و جمال کی نمائش کرتے ہوئے نہ نکلے جسے قرآن مجید نے دورجاہلیت کا نکلنا قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں عورت کو یہاں تک ہدایت کی گئی ہے کہ اگر وہ باجماعت نماز ادا کر رہی ہو تو امام کے بھولنے کی صورت میں کوئی مرد لقمہ نہ دے پائے تو عورت لقمہ دینے کی بجائے اپنے الٹے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو اس کی غلطی سے متنبہ کرے۔ (رواہ البخاری : باب التصفیق للنساء) اس سے اندازہ فرمائیں کہ دین غیر محرم عورت اور مرد کے اختلاط کو کس قدر ناپسند کرتا ہے۔ چہ جائیکہ عورت ٹیوی، ریڈیو، کیبل اور اخبارات میں آکر پورے ناز نخرے کے ساتھ لوگوں کے سامنے اپنے انگ انگ کی نمائش کرے۔ قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں باوقار طریقے کے ساتھ رہیں جس کے لیے ” وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ “ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا معنٰی قرار اور وقار کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے گھر میں قرار پکڑو اور وقار کے ساتھ رہو اور نماز پڑھو، زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اسکے رسول کی تابعداری میں لگی رہو۔ ” تَبَرُّجْ “ کا معنی بےپردگی اور خوبصورتی کا اظہار کرنا ہے۔ اسی طرح ” تَبَرُّجْ “ کا معنٰی ابھار اور نمایاں ہونا بھی ہے۔ آسمانی برج کو بھی اسی لیے برج کہا جاتا ہے۔ کہ وہ حدِّنگاہ سے اوپر ہوتے ہیں۔ اہل لغت اور اہل تفسیر نے ” تَبَرُّجْ ‘ کا معنٰی عورت کا اپنے حسن و جمال کو نمایاں کرنا لکھا ہے۔ بالفاظ دیگر اپنے حسن و جمال کو چھپانے کی بجائے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں جہالت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (البقرۃ : 67) عورت کے اس فعل کو جاہلیت قرار دیا گیا ہے۔ یعنی وہ جہالت جو اسلام سے پہلے عربوں میں موجود تھی۔ (اَنَّ أَبَا مَالِکِ الأَشْعَرِیِّ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ أَرْبَعٌ فِی أُمَّتِی مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ لاَ یَتْرُکُونَہُنَّ الْفَخْرُ فِی الأَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِی الأَنْسَابِ وَالاِسْتِسْقَاء بالنُّجُومِ وَالنِّیَاحَۃُ )[ رواہ مسلم : باب التَّشْدِیدِ فِی النِّیَاحَۃِ ] ” ابو مالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میری امت کے لوگ جاہلیت کی چار عادات کو نہیں چھوڑیں گے۔ حسب ونسب پر فخر کرنا، نسب پر طعن کرنا، ستاروں سے بارش طلب کرنا اور نوحہ کرنا۔ “ اہل بیت اور ان کا مقام پاکستان میں شیعہ اور بریلوی حضرات فکر وعمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں اس لیے مولانا پیر کرم شاہ صاحب بریلوی کی تفسیر سے من وعن اقتباس تحریر کیا جاتا ہے : اس آیت کا سیاق وسباق دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آیت کے اس جملہ (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ ) میں بھی وہی مخاطب ہیں جن سے پہلے اور بعد میں خطاب ہورہا ہے۔ اور وہ ازواج مطہرات ہیں اور اہل بیت سے بھی ازواج مراد ہیں۔ فرقہ وارانہ تعصّب سے بلند اور خالی الذّہن ہو کر اگر ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو ان آیات کا یہی مفہوم ہے جو بلا تکلّف سمجھ آتا ہے یعنی خدا نہ بھلا کرے فرقہ ورانہ تعصّبات کا کہ وہ حق فہمی کی راہ میں پہاڑ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شیعہ حضرات کو اس بات پر اصرار ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات داخل نہیں۔ اس سے مراد فقط حضرات خمسہ ہیں یعنی امام المرسلین ﷺ ، امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ ، حضرت سیّدہ فاطمہ طاہرہ اور حضرت حسنین کریمین ؓ اپنے اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں وہ پیش خدمت ہیں۔ انہیں پڑھیے ! سنجیدگی سے ان پر غور کیجیے اور ازروئے انصاف یہ فیصلہ کیجیے کہ راہ حق سے کون بہک گیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : 1 اس جملہ میں ضمیریں مذکر ذکر کی گئی ہیں ” عَنْکُمُ “ اور ” یُطَھِّرَکُمْ “ اگر ان کا مرجع ازواج مطہرات ہوتیں تو مؤنث کی ضمیریں ذکر کی جاتیں۔ ” عَنْکُمُ “ کی بجائے ’ عَنْکُنَّ “ آجاتا اور ” یُطَھِّرَکُمْ “ کی بجائے ” یُطَہِّرُکُنَّ “ ہوتا۔ 2 آیت کے اس حصہ میں ” بَیْتِ “ واحد مذکور ہے۔ یہ چیز ازواج کی نفی کرتی ہے کیونکہ جہاں ان کے گھروں کا ذکر ہے وہاں بیت کی جمع بیوت مذکور ہے۔ جیسے ” وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ “ اور ” وَاذْکُرْنَ مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ “ ہیں۔ 3 اس سلسہ میں جو بڑی وزنی بات انہوں نے کہی ہے کہ ” اِنَّمَا “ حصر کے لیے آتا ہے یعنی جو چیز اس کے بعد مذکور ہے اس کے لیے یہ فعل ثابت ہے اور جو مذکور نہیں اس سے یہ فعل منفی ہے۔ نیز ارادہ کی دو قسمیں ہیں وہ ارادہ جس کی مراد کا پایا جانا یا نہ پایا جانا مستلزم نہیں، دوسرا وہ ارادہ جس کے ساتھ مراد کا پایا جانا ضروری ہے یعنی ایسا ارادہ جس پر ” تَطْہِیْرًا “ اور ” اذھاب رجس “ ضرور مرتب ہوگا۔ اس مقام پر ارادہ ” محصّنہ “ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ارادہ تو ہر مومن کے لیے ہے کہ وہ ہر ناپاکی سے منزّہ ہو، ظاہری اور باطنی نجاستوں سے اس کا دامن حیات پاک ہو۔ اہل بیت کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں۔ حالانکہ یہ مقام مدح اہل بیت کا ہے۔ یہاں تو کسی ایسی چیز کا ذکر ہونا چاہیے جو ان کے ساتھ مخصوص ہو اور وہ ارادہ کا دوسرا معنٰی ہے جس سے ان حضرات کی عصمت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ازواج مطہرات کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں۔ یہاں وہی لوگ مراد ہوں گے جن کی عصمت ثابت ہے اور وہ حضرات خمسہ ہیں۔ اس لیے ثابت ہوا کہ یہاں اہل بیت سے مراد ازواج نہیں ہیں۔ امید ہے کہ یہ دلیل پیچ در پیچ آپ نے سمجھ لی ہوگی۔ 4 کتب اہل سنت میں بھی ایسی احادیث بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج نہیں بلکہ حضرات خمسہ ہیں۔ شیخ الطائفہ طوسی نے التبیان میں اور شیخ طبرسی نے مجمع البیان میں اور اسی فرقہ کے دوسرے مفسرین نے اپنی تفاسیر میں یہی دلائل پیش کیے ہیں۔ آئیے ! ان دلائل کا بنظر انصاف جائزہ لیں۔ ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اگر ازواج مراد ہوتیں تو ضمیریں مؤنث کی ذکر کی جاتیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ آیت کے اس حصّہ میں اہل بیتکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ مذکر ہے اگرچہ معنٰی مؤنث ہے اور عربی زبان میں بسا اوقات معنٰی کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ صرف لفظ کے مطابق ضمیر ذکر کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سورة ہود کی آیت 71، 72، 73 ملاحظہ فرمائیے ! جہاں فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ پاس ہی حضرت سارہ [ کھڑی ہیں۔ آپ وفود مسرّت سے ہنس پڑی ہیں۔ ساتھ ہی اظہار تعجب کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔ (یٰوَیْلَتٰٓی ءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًااِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ) یعنی میں بوڑھی اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہے کیا میرے ہاں بچہ پیدا ہوگا ؟ یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے۔ فرشتے حضرت سارہ (علیہ السلام) کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں (قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ ) اے حضرت خلیل (علیہ السلام) کی رفیقہ حیات ! کیا تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کررہی ہو۔ اے اہل بیت ! تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔” تَعْجَبِیْنَ “ مؤنث کا صیغہ ہے لیکن بعد میں اہل بیت کے لفظ کے پیش نظر ” عَلَیْکُمْ “ میں مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں اسی صفحہ کی پہلی آیت میں ” مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ “ پر غور کیجیے۔” یَّقْنُتْ “ مذکر کا صیغہ ہے لیکن بلا اختلاف اس سے مراد ازواج ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ” مَنْ تَّقْنُتْ “ ہوتا لیکن ” مَنْ “ کے لفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ” یَّقْنُتْ “ فرمایا گیا۔ اس لیے شیعہ حضرات کا یہ استدلال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ دوسری دلیل کے بارے میں عرض ہے کہ ازواج مطہرات کے حجروں کی دو حیثیتیں ہیں ایک حیثیت تو یہ ہے کہ امّہات المومنین کی قیام گاہیں ہیں۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ ان حجروں میں نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات اقامت گزیں ہیں۔ جب ان حجروں کا ذکر ازواج کی قیام گاہوں سے ہو تو انہیں جمع ذکر کیا جاتا اور جب آپ ﷺ کی نسبت سے ہو تو واحد ” وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ “ میں ہر زوجہ محترمہ کو حکم ہے کہ وہ اپنے اپنے حجرہ میں ٹھہرے۔ اسی طرح ” مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ “ میں بھی ہر بی بی کا حجرہ مراد ہے۔ کیونکہ وحی کا نزول مختلف حجرات میں ہوتا تھا۔ لیکن اہل البیت میں ” بَیْتِ “ سے مراد آپ ﷺ کی قیام گاہ ہے اس لیے اس کو واحد ذکر کیا گیا۔ تیسرا استدلال بھی بڑا انوکھا ہے۔ آپ کی دلیل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ یہ مقام مدح اہل بیت ہے۔ حالانکہ یہ مقام مقام مدح نہیں بلکہ مقام موعظت و ارشاد ہے۔ جو باتیں اور جو خوبیاں اہل بیت کو اپنانی چاہئیں اور جس ضابطہ حیات کی انہیں پابندی کرنا چاہیے اس کا تفصیلی ذکر ہور ہا ہے اس لیے اس دلیل کی بنیاد ہی درست نہیں۔ نیزعصمت انبیاء کا عقیدہ تو متفقہ عقیدہ ہے۔ لیکن دوسرے حضرات کی عصمت آپ کا اپنا مفروضہ ہے۔ اس پر دلیل کی عمارت کیسے تعمیر کی جاسکتی ہے۔ نیز اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہاں سے عدم عصمت ثابت ہوتی ہے ورنہ تحصیل لاحاصل لازم آئے گی۔ یعنی جو ہستیاں پہلے ہی معصوم اور ہر طرح کے رجس سے منزّہ اور مبرّہ ہیں ان کے متعلق یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو پاک اور طاہر کرنا چاہتا ہے اس کا کوئی مطلب نہیں۔ اس کے علاوہ اگر اہل سنت کی عصمت کا ذکر ہی بطور مدح کرنا مقصود ہوتا تو آیت یوں ہونی چاہیے تھی۔ ” اِنَّمَا اَرَاد اللّٰہُ اَذْھَبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَطَہَّرَکُمْ تَطْھِیْرًا “۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ آیت اس طرح نہیں ہے۔ ان صاحبان نے چوتھی دلیل یہ پیش کی ہے کہ اہلسنت کی کتب میں بھی بکثرت ایسی احادیث ہیں جو اکابر صحابہ ابو سعیدخدری، انس بن مالک، واثلہ بن اسقع، امّ المومنین عائشہ اور امّ المومنین امّ سلمہ ؓ سے مروی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد حضرات خمسہ ہیں اور ازواج اہل بیت میں داخل نہیں۔ اس کے متعلق گزارش ہے کہ وہ احادیث جن میں یہ مذکور ہے کہ یہ آیت فقط ان حضرات قدسی صفات کے حق میں نازل ہوئی۔ ان کے راوی مجروح اور ساقط الاعتبار ہیں۔ جن کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے اور جن کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔ ان میں کوئی تخصیص مذکور نہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ امّہات المومنین اور یہ حضرات سب اہل بیت میں شامل ہیں اور یہی حق ہے اور اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ کچھ لوگوں نے اہل بیت کے لفظ کو نبی ﷺ کی ازواج کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ حالانکہ حدیث کی روشنی میں اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ حضرت علی، حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت حسن و حسین ؓ بھی شامل ہیں۔ (عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ قَالَتْ فِیْ بَیْتِیْ اُنْزِلَتْ (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا) قَالَتْ فَاَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ إِلٰی فَاِطِمَۃَوَعَلِیٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ فَقَالَ ہٰؤُلٓاءِ اَہْلُ بَیْتِیْ قَالَتْ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا اَنَا مِنْ اَہْلِ الْبَیْتِ قَالَ بَلٰی اِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالٰی)[ رواہ البیھقی : باب الدلیل علی ان ازواجہ ﷺ من اہل بیتہ فی الصلوۃ علیہن ] ” حضرت امّ سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت علی اور حضرت حسن و حسین ] کو بلایا اور فرمایا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ حضرت امّ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں انشاء اللہ تعالیٰ ! “ مخصوص نظریہ رکھنے والے ایک فرقہ کی ستم ظریفی مولانا مودودی کا ارشاد : مولانا مرحوم کی کتاب خلافت ملوکیت کے حوالے سے کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ مولانا صاحب کا رجحان اہل تشیع کی طرف ہے اس لیے ان کی تحریر پیش خدمت ہے۔ ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا کہ ازواج مطہرات کو ” اہل بیت “ سے خارج کرکے صرف حضرت علی، فاطمہ ؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کردیا بلکہ اس پر مزید ستم یہ کیا کہ اس کے الفاظ ” اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے “ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علی و فاطمہ ؓ اور ان کی اولاد انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ” رِجْسٌ“ سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشاد الٰہی کی رو سے یہ ” اَہْلَ الْبَیْتِ “ اس سے پاک کردیئے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کردی گئی اور تم بالکل پاک کردیئے گئے بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور تمہیں پاک کردینا چاہتا ہے۔ سیا ق وسباق بھی ہی نہیں بتاتا کہ یہاں مناقب اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویّہ اختیار کروگے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہوگی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر ” یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا “ کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کردیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو، غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیونکہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ “ ” مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے (المائدۃ : 6) (تفہیم القرآن : جلد 4) مسائل 1۔ نبی کریم ﷺ کی بیویوں کا مقام و مرتبہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے۔ 2۔ نبی اکرم ﷺ کی بیویوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی آوازوں میں جھکاؤ پیدا نہ کرو۔ 3۔ آپ ﷺ کی بیویوں کو معقول بات کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 4۔ آپ ﷺ کی بیویوں کو اپنی زیب وزینت ظاہر کرنے اور جاہلیت کے گمان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ 5۔ آپ ﷺ کی بیویوں کو اخلاقی اطوار سمجھانے کے ساتھ نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بیویوں کو ان احکام پر عمل کرنے کا اس لیے حکم دیا تاکہ ان کو پاک کردے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پاک کرتا ہے : 1۔ پاک وہی ہے جسے اللہ پاک کرے۔ (النساء : 49) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہود کے الزام سے پاک کیا۔ (الاحزاب : 69) 3۔ حضرت یوسف کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف : 31) 4۔ عیسیٰ نے گود میں اپنی والدہ کی پاکدامنی کا اعلان فرمایا۔ (مریم : 30) 5۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ : 108) 6۔ ہم نے اسے لڑکپن میں دانائی عطا فرمائی تھی اور اپنی جناب سے پاکیزگی اور شفقت عطا فرمائی تھی وہ پرہیزگار تھے اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے، سرکش اور نافرمان نہ تھے۔ (مریم : 12 تا 14) 7۔ جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا وہ فلاح پا گیا۔ (الاعلیٰ : 14)
Top