Fahm-ul-Quran - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجو
فہم القرآن ربط کلام : آیت 54 میں نبی ﷺ کو ذات اور ازواج مطہرات کے حوالے سے ایذاء پہچانے سے منع کیا گیا ہے یہاں بین السطور یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ نبی کی ذات اقدس کو کسی اعتبار سے معمولی نہ سمجھو، آپ ﷺ کی ذات اس قدر اعلیٰ مقام کی حامل اور واجب الاحترام ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی آپ پر درود بھیجتے ہیں اس لیے نبی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کرنے کے ساتھ تم اس کے لیے درود پڑھا کرو۔ سرورِ دو عالم ﷺ کے مخالفین آپ کو ہر وقت آپ کی اذّیت پہنچانے کے درپے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مراتب کو بلند کرنے اور آپ کے مخالفین کو رسوا کرنے کے لیے آپ کو ایسا اعزاز بخشا جو کسی نبی بھی کو عطا نہیں کیا گیا۔ وہ یہ کہ ربِّ کریم اور ملائکہ آپ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ یہی حکم مومنوں کو دیا گیا ہے کہ وہ بھی اللہ کے نبی ﷺ پر درود بھیجا کریں۔ یہ اعزاز آپ کو اس وقت عطا کیا گیا جب آپ کی عظمت اور دین کی سر بلندی دیکھ کر منافق اور یہود و نصاریٰ ہر قسم کی ہرزہ سرائی کرنے کے ساتھ آپ کے خلاف کئی قسم کی سازشیں کر رہے تھے۔ 1 اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ پر درود پڑھنے کا یہ معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ذات اقدس پر لگاتار اپنی رحمتوں کا نزول فرما رہا ہے۔ 2 ملائکہ کے درود کا معنٰی یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے رب کے حضور التجائیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس پر مسلسل اپنی رحمت فرما اور آپ کی دعوت کو کامیاب فرما۔ 3 مومنوں کے درود کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دعائیں کرتے رہیں کہ بار الٰہا نبی کریم کی ذات اقدس پر ہر وقت اپنی رحمتوں کا نزول فرمانے کے ساتھ آپ کی دعوت کو ترقی عطا فرما۔ درود آپ ﷺ کے احسانات کا اعتراف، آپ کی قربت و محبت کا وسیلہ، غموں اور پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ، گناہوں کی معافی، بلندئ درجات اور روز محشر آپ کی سفارش کا موجب ہے مگر شر ط یہ ہے کہ درود کے الفاظ وہ ہونے چاہییں جو آپ ﷺ نے اپنی ذات اقدس کے لیے پسند فرمائے ہیں۔ جامع اور بہترین درود التحیات میں پڑھا جانے والا درود ابراہیم ہے جس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ ایسا درود جس میں الفاظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ ہو وہ درود کہلوانے کے حقدار نہیں ہوسکتا۔ آج کل درود ہزاری ‘ لکھی اور بیشمار مصنوعی درود تیار کیے گئے ہیں جو نبی محترم ﷺ کی شان والاصفات کے شایان شان نہیں اور من گھڑت ہیں ان سے پرہیز لازم ہے۔ درود پڑھو ! ضرور پڑھو ! مگر مسنون پڑھو آپ ﷺ کے شرف و کمال کی انتہا ہے کہ خالق کائنات نے کسی کام کا اس نسبت کے ساتھ حکم نہیں دیا کہ یہ کام میری ذات عظیم بھی کر رہی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو بھی کرنا چاہیے۔ یہ آپ ﷺ کی شان وصفات ہے کہ درود پاک کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کا آغاز اپنی ذات سے فرمایا ہے۔ درود پڑھنے کی فضیلت اور نہ پڑھنے والے کی مذمت : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ مَنْ صَلَّی عَلیَّ وَاْحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ عَشْرًا) [ مسلم : باب الصلوۃ علی النبی ] ” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مجھ پر ایک مر تبہ دردوبھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ “ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ؓ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ ﷺ الْبَخِیلُ الَّذِی مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ )[ باب قَوْلِ رَسُول اللَّہِ ﷺ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ] ” حضرت علی بن ابو طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؓ نے فرمایا وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے لیکن وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔ “ صلوٰۃ کا معنی رحمت، دعا اور تعریف و توصیف کرنا ہے اور سلام کا معنی سلامتی ہے مفہوم یہ ہوا کہ ہمیشہ آپ ﷺ کا نام اور کام سلامت رہے پھر سلام اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں سے ایک نام ہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی خیرو عافیت اور سلامتی کا اہتمام قیامت تک کردیا گیا ہے۔ درود پاک سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کے مخالف آپ کے کام اور نام کو نیچا نہیں دکھا سکیں گے۔ کیونکہ آپ کا تذکرہ آسمانوں سے اوپر عرش معلی پر خالق کائنات فرما رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ ﷺ دنیا اور آخرت میں عزت و عظمت کی ان بلندیوں پر فائز ہوں گے جو کائنات میں کسی کے نصیب اور حصہ میں نہیں آسکتیں۔ (أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ أَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَ کَ ) [ الانشراح : 1 تا 4] ” اے نبی ﷺ ! کیا ہم نے تیرا سینہ آپ کے لیے کھول نہیں دیا ؟ اور آپ سے وہ بھاری بو جھ نہیں اتاردیا جو آپ کی کمر تو ڑے جا رہا تھا اور آپ کی خاطر آپ کا ذکر کا شہرہ بلند نہیں کردیا۔ “ (وَالضُّحٰی۔ وَاللَّےْلِ إِذَا سَجٰی۔ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔ وَللَاْٰخِرَۃُ خَےْرٌلَّکَ مِنَ الْأُوْلٰی۔ وَلَسَوْفَ ےُعْطِےْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔ )[ والضحیٰ : 1 تا 5] ” قسم ہے روز روشن اور رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے۔ اے نبی ﷺ ! تمہارے رب نے تم کو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا ہے یقیناً آپ کے لیے آنے والا وقت پہلے وقت سے بہتر ہے اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ خو ش ہوجائیں گے۔ “
Top