Fahm-ul-Quran - Az-Zumar : 66
بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ
بَلِ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ فَاعْبُدْ : پس عبادت کرو وَكُنْ : اور ہو مِّنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر گزاروں
لہٰذا اے نبی تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہوجاؤ
فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی بندگی اور شرک سے بچنا ہی نہیں بلکہ ایک رب کی عبادت بھی کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر قسم کے شرک سے منع کرنے کے ساتھ صرف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ عبادت کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ کیونکہ ” اللہ “ خالق بھی ہے اور انسان کی تمام ضرورتوں کا ذمہ دار بھی ہے۔ اس لیے اس کا شکر ادا کرنا انسان پر لازم ہے۔ اسے دوسری طرح یوں سمجھنا چاہیے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق اور الوکیل مانا۔ اس کے دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جس کے دل میں شکر کا جذبہ ضرور پیدا ہوا وہ اپنے رب کی ہر حال میں بندگی کرے گا۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے۔ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم گواہی دے رہا ہو کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجزو بےبس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ باالفاظ دیگر پری زندگی میں اپنے کا حکم ماننا اور اس رب کے تابع رہنے نام عبادت ہے۔ مسائل 1۔ صرف ایک ” اللہ “ ہی کی عبادت کرنا چاہیے۔ 2۔ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا ہی حقیقت میں اس کا شکرگزار ہوتا ہے۔
Top