Al-Qurtubi - Az-Zumar : 29
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا١ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ١ۚ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : ایک مثال رَّجُلًا : ایک آدمی فِيْهِ : اس میں شُرَكَآءُ : کئی شریک مُتَشٰكِسُوْنَ : آپس میں ضدی وَرَجُلًا : ار ایک آدمی سَلَمًا : سالم (خالص) لِّرَجُلٍ ۭ : ایک آدمی هَلْ : کیا يَسْتَوِيٰنِ : دونوں کی برابر ہے مَثَلًا ۭ : مثال (حالت) اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ ۭ : اللہ کے لیے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں (مختلف المزاج اور) بدخو ایک آدمی خاص ایک شخص کا (غلام) ہے بھلا دونوں کی حالت برابر ہے ؟ (نہیں) الحمد للہ بلکہ اکثر لوگ نہیں جانتے
کسائی نے کہا رجلا کو نصب دی گئی ہے کیونکہ یہ مثلا کی تفسیر و وضاحت ہے اگر تو چاہے تو حرف جر کے حذف کے ساتھ اسے نصب دے تقدیر کلام یہ ہوگی ضرب اللہ مثلا برجل۔ فراء نے کہا : متشکسون کا معنی ہے مختلفون یعنی مختلف۔ مبرد نے کہا : اس کا معنی ہے سخت ترش۔ یہ شکس یشکس شکسا فھو شکس سے مشتق ہے جس طرح عسر یعسر عسر فھو عسر ہے یہ کہا جاتا ہے رجل شکس ‘ شرس ‘ ضرس ‘ ضبس یہ بھی کہا جاتا ہے : رجل ضبس و ضبیس اس کا معنی ہے بد خلق سخت مزاج ہونا ‘ یہ جوہری نے کہا۔ رجل شکس سخت اخلاق والا۔ راجز نے کہا : شکس عبوس عنبس غدور محل استدلال شکس ہے۔ یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے قوم شکس جس طرح رجل صدق اور قوم صدق ہے۔ شکس شکاسۃ بھی استعمال ہوتا ہے۔ فراء نے نے حکایت بیان کی ہے رجل شکس یہ قیاس ہے یہ اس آدمی کے لئے ضرب المثل ہے جس نے کثیر معبودوں کی عبادت کی۔ و رجلا سلاما لرجل جو ایک آقا کا خالص علام ہو یہ اس آدمی کی مثال ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرتا ہے ھل یستوین مچلا کیا وہ برابر ہو سکتے ہیں ‘ یعنی وہ غلام جو جماعت کی خدمت کرتا ہے جو اس کی ملکیت میں شریک ہیں ان کے اخلاق مختلف ہیں نیتیں متضاد ہیں اسے کوئی آدمی نہیں ملتا مگر اسے کھینجچنا ہے اور اس سے خدمت لیتا ہے وہ ان سے مشقت ‘ تکلیف اور عظیم مصیبت پاتا ہے اس کے باوجود کسی کو بھی اپنی خدمت کے ساتھ راضی نہیں کر پاتا کیونکہ اس کے ذمہ بہت ہی زیادہ حقوق ہیں۔ وہ علام جو ایک آقا کی خدمت کرتا ہے اس کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرتا جب وہ اس کی اطاعت کرے گا تو وہ اس کا قدردان ہوگا اور جب وہ لغزش کرے گا تو مالک اس کی لغزش سے درگزر کرے گا تو ان دونوں میں سے کون زیادہ تھکاوٹ اٹھاتا ہے اور کون زیادہ ہدایت پر ہے۔ اہل کوفہ اور اہل مد ینہ نے اسے ور جل سلما پڑ ھا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ مجا ہد، حضرت حسن بصر ی، عا صم جحد ری، ابو عمر و، ابن کثیر اور یعقوب نے ور جل سالما ہے ؛ پڑھا ہے ؛ ابو عبید نے اسے ہی پسند کیا ہے کیونکہ اس میں تفسیر صحیح ہے کہا ؛ سا لم خا لص، مشترک کی ضد ہے اور سلم، حرب، (جنگ) کی ضد ہے یہاں جنگ کا کوئی موقع نہیں، نحاس نے کہا۔ یہ استدلال لازم نہیں کیونکہ جب لفظ کے دو معنی ہوں تو اسے ان میں سے اولی پر محمول کیا جاتا ہے اگرچہ سلم حرب کی ضد ہے اس کا کفئی اور موقع ہوتا ہے یہ اسے طرح تیرے لیے یہ کہا جاتا ہے۔ فی ہذا لمنزل شرکاء فصار سالک اس گھر میں شریک ہوتے تھے پس یہ تیرے لیے خالص ہوچکا ہے، سالم میں بھی اس پر وحی چیز لازم ہوگی اس پر وہی چیز لازم ہوگی جو اس نے غیر پر لازم کیا ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے شئی اس میں کوئی بیما ری نہیں۔ دونوں قراتیں حسن ہیں آئمہ نے ان کو پڑھا ہے ابو حاتم نے اہل مد ینہ کی قراءت سلما کو پسند کیا ہے۔ اس میں کوئی جھگرا نہیں۔ سعید بن جبیر، عکرمہ، ابو العالیہ اور نصر نے سلما پڑھا ہے سلما دونوں مصدر ہیں تقدیر کلام یہ ہوئی رجلاذا سلم مضاف کو حذف کردیا مثلا تمیز کی حثیت سے صفت ہے معنی ہوگا کیا ان دونوں کی صفات اور حا لات برابر ہوں گے، تمیزوا حد پر اکتفا کیا گیا ہے کیونکہ جنس کو بیان کرنا مقصود ہے۔ الحمد اللہ۔ ان میں سے اکثر حق کو نہیں جانتے کہ اس کی اتباع کر تے
Top