Fahm-ul-Quran - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے
فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ “ کی توحید کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے۔ یہ اس کی واضح طور پر ناشکری کی دلیل ہے۔ اس جاری خطاب میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مشرکین کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے اور ہوگا کہ زمین و آسمانوں کو صرف ایک ” اللہ “ نے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی آٹھ قدرتوں اور نعمتوں کا ذکر فرمایا جس سے تمام انسان مستفید ہوتے ہیں۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیّت کا اعتراف کرنے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود ” اللہ “ کے بندوں میں سے کچھ بندوں کو اس کا حصہ بناتے ہیں۔ جو مشرک کفر اور اس کی ناشکری کی واضح نشانی ہے۔ قوم نوح (علیہ السلام) نے پانچ فوت شدگان کو اللہ تعالیٰ کا جز بنایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا۔ فرعون نے اپنے آپ کو ” رب الاعلیٰ “ کے طور پر منوایا۔ یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ عسائیوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم (علیہ السلام) کو رب کا جز بنایا۔ امت مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ ایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کر رہا ہے۔ امت مسلمہ کی کثیر تعداد نے نبی ﷺ کو ” نور من نور اللہ “ کے طور پر متعارف کروایا اور یارسول اللہ کہہ کر آپ سے مدد مانگتے ہیں۔ کسی کو داتا گنج بخش کہا، کسی کو دستگیر کے لقب سے یاد کیا۔ کسی کو گنج بخش کے طور پر اور کسی کو امام بری، میری قسمت کردے ہری بھری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کسی کو عزت کا مالک سمجھتے ہوئے اس طرح پکارا جاتا ہے کہ شہباز قلندرمیری پت رکھنا۔ کسی کو لجپال کہا جاتا ہے نہ معلوم مشرکین نے کس کس کو کیا کیا اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ یہاں شرک کو پرلے درجے کی ناشکری قراردیا گیا ہے۔ شرک کرنے والا اس لیے ناشکرا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و عظمت کی خاطر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے اور دردر کی ٹکروں سے بچنے کا حکم دیا۔ لیکن مشرک عقیدہ توحید پر راضی اور شکرگزار ہونے کی بجائے دردر کی ٹھوکروں کو اختیار کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان کی ناشکری کیا ہوسکتی ہے ؟ اسی حالت کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ ” یکسو ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک بنائے گا گویا وہ آسمان سے گرپڑا۔ اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ “ [ الحج : 31]
Top