Fahm-ul-Quran - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
” اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہیں کہ بیشک ہم فرماں بردار ہیں۔ (111)
فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرے احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی یاد کرایا جائے گا۔ اس فرمان کا پس منظر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب یہودیوں کی سازشوں اور پروپیگنڈہ کی بنا پر کوئی شخص بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر خاص کرم فرماتے ہوئے کچھ لوگوں کے دل ہدایت کے لیے کھول دیے۔ جس کو بیان کرتے ہوئے ” اَوْحَیْتُ “ کے الفاظ استعمال فرمائے کہ اے عیسیٰ ! اللہ ہی نے تمہارے حواریوں کے دل میں القا کیا کہ آگے بڑھ کر عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاؤ اور اس کے دست وبازو بن جاؤ۔
Top