Fahm-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 5
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌۙ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں تُوْعَدُوْنَ : تمہیں وعدہ دیاجاتا ہے لَصَادِقٌ : البتہ سچ ہے
بلاشبہ جس چیز کا تمہیں وعد دیاجا رہا ہے یقیناً وہ سچ ہے
فہم القرآن ربط کلام : پانی کا انحصار بارش پر ہے اور اس کے ذریعے زمین سے بیج اگتے ہیں۔ جس طرح زمین سے بیج اگتے ہیں اسی طرح لوگوں کو قیامت کے دن زندہ کرکے اٹھایاجائے گا۔ یہ ” اللہ “ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ پہلی آیات میں بارش کے حوالے سے اشارتاً قیامت کا ذکر ہوا اور اب بار بار تاکید کے الفاظ لا کر فرمایا ہے کہ جس قیامت کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے وہ سچ ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوکر رہے گی۔ یہ بات سورة ق کی آیات 9 تا 19 کی تفسیر میں ذکر ہوئی ہے کہ جس ذات نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو پیدا کیا ہے اس کے لیے مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل نہیں بلکہ ایسا کرنا اس کے لیے آسان تر ہے اس حقیقت کے باوجود جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں مختلف انداز اور دلائل کے ساتھ سمجھایا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہوگی۔ اس کے باوجود جو ماننے کے لیے تیار نہیں انہیں ان الفاظ میں چیلنج دیا ہے۔ ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیالات میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے۔ “ ( بنی اسرائیل : 50 ) (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ ) (الانبیاء : 104) ” وہ دن جب آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے لکھے ہوئے اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمیّ ہے اور یہ کام ہمیں ہر حال میں کرنا ہے۔ “ مسائل 1۔ قیامت کا وعدہ سچا ہے جو ہر صورت پورا ہو کررہے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے قائم ہونے کے دلائل : 1۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : 1) 2۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا : 30) 3۔ قیامت اچانک آجائے گی۔ ( یوسف : 107) 4۔ قیامت پل بھر میں واقع ہوجائے گی۔ ( النحل : 77) 5۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ( الکہف : 21)
Top