Fahm-ul-Quran - At-Tawba : 78
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِۚ
اَلَمْ : کیا يَعْلَمُوْٓا : وہ جانتے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے سِرَّهُمْ : ان کے بھید وَنَجْوٰىهُمْ : اور ان کی سرگوشی وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عَلَّامُ : خوب جاننے والا الْغُيُوْبِ : غیب کی باتیں
کیا انہیں معلوم نہیں کہ بیشک اللہ ان کے راز اور ان کی سرگوشیاں جانتا ہے اور بیشک اللہ غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ “ (78)
جو پہلے اس قدر غریب تھے کہ غربت اور تنگدستی کی وجہ سے زیادہ وقت مسجد نبوی میں بسر کرتے یہاں تک کہ لوگوں نے انھیں حمامۃ المسجد کا لقب دیا یعنی مسجد میں رہنے والی کبوتری۔ ایک دن وہ اللہ کے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ مجھے اللہ تعالیٰ مال عنایت فرما دے تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح دل کھول کر صدقہ کروں گا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اے ثعلبہ ! مال ایک آزمائش ہے اس لیے اس طرح ہی گزر بسر کرتے رہو۔ لیکن اس نے اصرار کیا۔ بالآخر آپ نے اس کے حق میں دعا کی نتیجتاً اس کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ اس قدر زیادہ ہوگئے کہ پہلے جماعت کے ساتھ نماز چھوٹی پھر جمعہ بھی مسجد نبوی میں پڑھنا مشکل ہوگیا۔ زکوٰۃ کا مہینہ آیا۔ اللہ کے رسول کے نمائندے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے پہنچے تو کہنے لگا یہ ایک چٹی اور جرمانے کے سوا کچھ نہیں۔ عاملین نے رسول معظم کو رپورٹ پیش کی تو آپ نے فرمایا۔ ثعلبہ ہلاک ہوگیا۔ جب اسے آپ کے الفاظ پہنچے تو وہ زکوٰۃ کا مال لے کر حاضر ہوا لیکن آپ نے اس کی زکوٰۃ وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اگلا سال آنے سے پہلے نبی اکرم ﷺ وفات پا گئے۔ وہ اپنی زکوٰۃ خلیفہ اول کے پاس لایا۔ خلیفہ نے یہ کہہ کر زکوٰۃ کی وصولی سے انکار کیا کہ جس مال کو رسول معظم ﷺ نے قبول نہیں کیا میں قبول کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ نے بھی اس کی زکوٰۃ قبول نہ کی۔ صحیح تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ثابت نہیں ہے کیونکہ حضرت ثعلبہ ؓ بدری صحابی ہیں جو نہایت مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ اس لیے ان آیات کو منافقین پر ہی چسپاں کرنا چاہیے اور وہی ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے تھے۔ جہاں تک ان کی زکوٰۃ قبول نہ کرنے کا معاملہ ہے وہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے مرنے تک نفاق گھر کرچکا ہے۔ اب انھیں توبہ نصیب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اپنے رب سے بار بار عہد شکنی اور کذب بیانی کرنے والے ہیں۔ انھیں اس بات کی خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جلوت و خلوت اور ان کی زندگی کے خفیہ رازوں سے پوری طرح واقف ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۔ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِّنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ )[ رواہ مسلم ] ” حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے قریب جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا ‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار ! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔ “ مسائل 1۔ منافق اللہ تعالیٰ سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ 2۔ خوشحالی ہوتے ہی منافق اللہ تعالیٰ سے کیے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پوشیدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ 4۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے : 1۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : 77) 2۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام : 3) 3۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگرشیوں کو بھی جانتا ہے۔ (التوبۃ : 78) 4۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : 19) 5۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات جانتا ہے۔ (طٰہٰ : 7) 6۔ اس کتاب کو نازل کرنے والی وہ ذات ہے جو آسمانوں و زمین کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان : 6)
Top