Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fahm-ul-Quran - At-Tawba : 8
كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ١ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ
كَيْفَ
: کیسے
وَاِنْ
: اور اگر
يَّظْهَرُوْا
: وہ غالب آجائیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لَا يَرْقُبُوْا
: نہ لحاظ کریں
فِيْكُمْ
: تمہاری
اِلًّا
: قرابت
وَّ
: اور
لَا ذِمَّةً
: نہ عہد
يُرْضُوْنَكُمْ
: وہ تمہیں راضی کردیتے ہیں
بِاَفْوَاهِهِمْ
: اپنے منہ (جمع) سے
وَتَاْبٰي
: لیکن نہیں مانتے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَاَكْثَرُهُمْ
: اور ان کے اکثر
فٰسِقُوْنَ
: نافرمان
” کیسے ممکن ہے وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت اور نہ کسی عہدکالحاظ کریں گے تمہیں اپنی زبانوں سے خوش کرتے ہیں اور ان کے دل نہیں مانتے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ (8)
فہم القرآن ربط کلام : عہد اور رشتہ داری کے بارے میں کفار اور مشرکین کا رویہ۔ مشرکین اور اسلام دشمن طاقتوں کا ہمیشہ سے رویہ رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں تو صلح اور اتحاد کا پرچم اٹھاکر مسلمانوں کو زبانی کلامی راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے، بقائے باہمی، انسانی ہمدردی اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے نعرے لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان باتوں کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور دل ہی دل میں یہ انکار کررہے ہوتے ہیں۔ جونہی مشکل وقت گزر جائے اور اپنے آپ کو طاقت ورمحسوس کریں تو کسی معاہدے اور تعلق داری کا پاس نہیں کرتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ہمیشہ مالی فائدہ اور سیاسی مفاد رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے دنیا کمانے سے نہیں چوکتے اس طرح وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں مکہ کے مشرکین کا یہی رویہ تھا کہ جوں جوں اللہ کی آیات کا نزول ہوتا توں توں دنیا کے مفاد اور دین کی مخالفت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ ان کا فکر و کردار ہمیشہ بدترین رہا ہے یہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں کسی رشتہ داری اور عہد کا خیال نہیں رکھتے دراصل یہ زیادتی کرنے والے لوگ ہیں مدینہ میں یہودیوں کی بار بار عہد شکنی اور مشرکین کا صلح حدیبیہ کو توڑنے سے لے کر تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی ہے۔ یہاں سقوط غرناطہ کا واقعہ عیسائیوں کی عہد شکنی کی ناقابل فراموش مثال پیش خدمت ہے : ابو عبداللہ نے قصر الحمرء میں ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں غرناطہ کے بڑے بڑے شیوخ وعمائد اور امراء ووزراء شریک تھے۔ ان میں جو بعض بڑے پرجوش اور غیرت مند تھے ان کی رائے قطعی طور پر یہی تھی کہ مسلمانوں کو اپنے آخری قطرہ خون تک لڑنا چاہیے چاہے انجام کچھ بھی ہو۔ بہر حال غرناطہ کو اس طرح دشمن کے حوالہ کردینا سخت ننگ وعار اور بزدلی کی بات ہے۔ لیکن اکثریت کے نقارخانہ میں اکیلے طوطی کی آواز کیا اثر پیدا کرسکتی ہے ؟ آخر ابو عبداللہ نے اپنے وزیر ابو القاسم عبدالملک کی معرفت فرڈیننڈ سے صلح کی بات چیت شروع کی اور انجام کار ایک صلح نامہ مرتب ہوا جس پر شاہ کیسٹل اور ابو عبداللہ دونوں کے دستخط ہوگئے اور اس پر مسلمانوں کی حکومت کا جو تقریباً آٹھ سو سال قائم تھی بالکل خاتمہ ہوگیا۔ یہ صلح نامہ جو درحقیقت مسلمانان اندلس کی بدبختی کی آخری دستاویز تھا جیسا کہ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب ” آخر نبی سراج “ میں تصریح کی ہے کہ یہ پچپن دفعات پر مشتمل تھا۔ ان میں سے چند اہم دفعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ” تمام چھوٹے بڑے مسلمانوں کو امن دیا جائے گا۔ ان کے اموال اور جاگیریں اور جائیدادیں سب محفوظ رہیں گی۔ ان کے مذہبی معاملات وخصومات کا تصفیہ خود مسلمان قاضی یا حاکم کرے گا۔ جنگ میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آگیا ہے اس کو غصب نہ کیا جائے گا۔ مقررہ ٹیکس کے علاوہ ان پر کوئی زائد ٹیکس نہ لگایا جائے گا۔ جو عیسائی مسلمان ہوگئے ہیں ان کو ترک اسلام پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اور اسی طرح کسی مسلمان کو بجز عیسائی بنانے کی کوشش نہ کی جائے گی۔ اگر کوئی مسلمان افریقہ جانا چاہے تو حکومت اس کو اپنے انتظام پر افریقہ پہنچائے گی۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کے گھر داخل نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی دیوار پر چڑھے گا۔ مسلمانوں کو عیسائی فوجیوں کی دعوت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو لباس میں پوری آزادی رہے گی۔ یعنی انہیں کسی خاص وضع قطع کے اختیار کرنے یا کوئی خاص علامت لگانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کا راہ چلتے یا کہیں اور مذاق نہ اڑائے گا۔ اس پر فقرہ نہ کسے گا۔ اس کے ساتھ تمسخر نہ کرے گا۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کو سزا دی جائے گی جو مسلمان جنگی مجرم ہیں اس کو رہا کردیا جائے گا۔ اگر کوئی مسلمان غلام اپنے مالک کے پاس سے بھاگ کر غرناطہ آجائے تو اسے مامون سمجھاجائے گا۔ بادشاہ اس کی قیمت غلام کے مالک کو ادا کردے گا۔ یہ معاہدہ عیسوی تاریخ کے لحاظ سے 30 دسمبر 1491 مطابق یکم ربیع الاول 897 ھ کو ہوا تھا اور اس پر علاوہ فرڈیننڈ کے ملکہ ازبلا، شاہی خاندان کے شہزادے اور شہزادیاں پادری اور دیگر مذہبی پیشوا، امراء اور وزراء دربار وعمائدو ارکان سلطنت کے دستخط ثبت تھے۔ اور اس میں فرڈیننڈ اور اس کی بیوی ازبلا نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ دونوں اس صلح نامہ کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کی پابندی کریں گے اور جس طرح یہ عہد نامہ خود ان دونوں کے لیے اور ان کے تمام حکام وعمال اور امراء واعیان کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح ان کے قائم مقام، ان کی اولاد، اور ان کی اولاد کی اولاد سب اس عہد نامہ کے مطابق عمل کریں گے اور اس سے سر موانحراف نہ کریں گے۔ یہ عہد نامہ تو وہ تھا جس کا تعلق عام مسلمانوں اور ان کے مفاد سے تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور عہد نامہ ترتیب دیا گیا۔ جو خاص ابو عبداللہ کی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ اس عہد نامہ میں چودہ دفعات تھیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ شاہ فرڈیننڈ اور ازبلا ان دونوں نے کچھ املاک واراضی اور شہر سلطان ابوعبداللہ کو دیے ہیں۔ انہیں میں سے ایک البشرات بھی تھا۔ علاوہ بریں اس بات کا بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ ابو عبداللہ کو وہاں کے سکہ کے حساب سے جس کو ” یراوید “ کہا جاتا تھا ایک کڑور چالیس لاکھ اور پانچ سو کی رقم ادا کی جائے گی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ یہ رقم اس وقت حوالے کی جائے گی جب کہ فرڈیننڈ اور ازبلا قلعہ الحمرء میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر خاص ابو عبداللہ سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ جب تک وہ اندلس میں قیام کرے گا اس سے کوئی محصول نہیں لیا جائے گا۔ اور اگر اس نے کبھی اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور آباد ہونا چاہا تو اس کی زمینوں اور جائیدادوں کو مناسب قیمت پر خرید لیاجائے گا۔ اگر اس نے ان کو فروخت کرنا نہ چاہا تو وہ اپنا کوئی قائم مقام یا کارندہ ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے چھوڑ جائے۔ وہ ہر سال جائیدادوں اور جاگیروں کی آمدنی وصول کر کے ابوعبداللہ کو بھیج دیا کریگا۔ ابو عبداللہ بحری سفر کرے گا تو اس کے تمام متعلقین کے لیے کشتیوں وغیرہ کا انتظام فرڈیننڈ کی حکومت کی جانب سے کیا جائے گا۔ امیر شکیب رسلان کی تحقیق کے مطابق یہ دوسرا معاہدہ بتاریخ 25 دسمبر 1491 ء کو ہوا تھا۔ یہ یا در کھنا چاہیے ابو عبداللہ نے اپنے وزیر کے توسط سے یہ معاہدہ بالا بالا ہی کرلیا تھا۔ اہل غرناطہ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی جب ان کو معلوم ہوا تو وہ سخت برہم اور پریشان ہوئے۔ حامد بن زرارۃ نامی ایک درویش کے جوش دلانے اور اکسانے پر بیس ہزار اہل غرناطہ مسلح ہو کر جنگ کرنے کے لیے نکلے بھی لیکن کچھ ایسے اسباب سماویہ پیش آئے کہ یہ اس مشکل سے عہدہ براء نہ ہوسکے اس واقعہ کے دوسرے دن ابوعبداللہ شہر کے روساء کی ایک جماعت کے ساتھ قلعہ الحمرء سے نکلا اور مسلمانوں کو خطاب کر کے کہا : ” مسلمانوں ! میں اقرار کرتا ہوں کہ اس ذلت و رسوائی میں کسی کا کوئی گناہ نہیں ہے گنہگار صرف میں ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ نافرمانی اور سرکشی کا معاملہ کیا، اور دشمنوں کو ملک پر حملہ کرنے کی دعوت دی لیکن بہر حال خدا نے مجھ کو میرے گناہوں کی سزادے دی ہے تاہم یہ باور کرنا چاہیے کہ میں نے اس وقت یہ معاہدہ جو قبول کیا ہے محض اس لیے کیا ہے کہ تم لوگوں اور تمہارے بچوں کے خون خواہ مخواہ نہ بہیں۔ تمہاری عورتیں لونڈیاں اور باندیاں نہ بنیں اور تمہاری شریعت اور تمہاری املاک ومتاع ان بادشاہوں کے زیر سایہ محفوظ رہیں جو بہرحال بد نصیب ابو عبداللہ سے بہتر ہوں گے۔ “ فرڈیننڈ کی طرف سے دو ماہ دس دن کی مدت دی گئی تھی کہ ابو عبداللہ اس مدت کے اندر اندر فرڈیننڈ کا قبضہ الحمراء پر کرا دے گا۔ لیکن ابو عبداللہ اس درجہ پریشان اور سراسمیہ تھا کہ اس نے اس مدت سے پہلے ہی مندرجہ بالا تقریر کے دوسرے دن فریننڈ کو پیغام بھیجا کہ شہر پر قبضہ کر لیجیے۔ فرڈیننڈ نے ایک پادری کو مقرر کیا کہ سب سے پہلے وہ ایک جماعت کیساتھ غرناطہ میں داخل ہو کر قلعہ الحمراء کے سب سے بڑے برج سے اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیب کا نشان نصب کرے تاکہ اسے دیکھتے ہی پرجوش طریقہ سے بادشاہ اور اس کی ملکہ شہر میں داخل ہوں۔ اسی قرارداد کے مطابق اب دونوں طرف غرناطہ کو الوداع کہنے اور اس میں داخل ہونے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایک جانب بدنصیب ابو عبداللہ اور اس کا تمام خاندان تھا جو رات بھر اپنا سازوسامان درست کرتا رہا اور غرناطہ سے پیش آنے والی جدائی کے غم میں الحمراء کے ایک ایک درودیوار کو حسرت وافسوس سے تکتا اور ان پر آنسو بہاتا رہا اور دوسری طرف شاہ کیسٹل کے کیمپ میں خوشی کے شادیا نے بج رہے تھے کہ بس اب رات کا تاریک پر دہ درمیان میں حائل ہے۔ اس کے اٹھنے کی دیر ہے کہ علیٰ الصباح غرناطہ پر قبضہ ہوجائے گا۔ چنانچہ ابو عبداللہ علیٰ الصباح اپنے متعلقین کو لے کر الحمراء سے نکلا اور ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس کو فرڈیننڈ کا فرستادہ پادری مع ایک جماعت کے ملا۔ ابو عبداللہ نے قلعہ کی کنجیاں اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا ” جاؤ ! اب ان قلعوں پر قبضہ کرلو جن کو اللہ نے ہماری بد اعمالیوں کے باعث ہمارے قبضہ سے نکال کر تمہارے قبضہ میں دے دیا ہے “ پادری نے الحمراء میں داخل ہو کر امر شاہی کے مطابق اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیبی پرچم لہرایا۔ فرڈیننڈ، ازبلا اور تمام عیسائی فوج نے اسے دیکھا تو ان کی خوشی کی حد نہ رہی فوراً بادشاہ اور ملکہ گھٹنوں کے بل بارگاہ خداوندی میں شکر بجا لائے۔ تمام فوج نے ان کی پیروی کی اس سے فارغ ہو کر یہ لوگ غرناطہ میں داخلہ کے لیے روانہ ہوئے دریا کے کنارے ایک چھوٹی جامع مسجد تھی ابھی وہاں پہنچے ہی تھے کہ یہاں ابو عبداللہ مل گیا۔ ابو عبداللہ نے فرڈیننڈ کو دیکھتے ہی چاہا کہ سواری سے اتر پڑے لیکن بادشاہ اور ملکہ دونوں نے منع کیا۔ اب ابو عبداللہ نے چاہا کہ بادشاہ کی دست بوسی کرے لیکن اس نے اسے یہ بھی نہ کرنے دیا۔ امیر شکیب ارسلان نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو عبداللہ نے ملکہ ازبلا کے ہاتھوں کو چومنا چاہاتو اس نے اپنے ہاتھ نہ پھیلائے اور ابو عبداللہ کا اضطراب دیکھ کر اسے دلاسہ دیا۔ ابو عبداللہ کا جو بیٹا اس کے پاس بطور ضمانت گرفتار تھا۔ وہ اس کے سپرد کردیا اس کے بعد ابو عبداللہ نے شہر کی کنجیاں بادشاہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ” یہ کنجیاں اسپین میں عربوں کے اقتدار کی آخری نشانی ہیں۔ آپ انہیں لے لیجیے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت کے مطابق اب ہمارا ملک، متاع اور ہمارے جسم یہ سب آپ کی ملکیت ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ نے جیسا وعدہ کیا اسی طرح آپ ان کے ساتھ رحم وکرم اور رافت ونرمی کا معاملہ کریں گے۔ “ فرڈیننڈ نے جواب دیا ” کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اس کے مطابق ہی معاملہ کریں گے۔ “ اس گفتگو کے بعدکنجیاں فرڈیننڈ نے ملکہ ازبلا کے سپرد کردیں اس نے اپنے بیٹے پرنس جو ن کو دیں اور جون نے کاؤنٹ ٹنڈل کے حوالے کردیں جو غرناطہ کا کمانڈر بنایا گیا تھا۔ اب فرڈیننڈ اس کی ملکہ ازبلا، اور اس کا تمام لاؤ لشکر غرناطہ کی طرف اس پر قبضہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ادھر بدبخت وبدنصیب ابو عبداللہ نے وادی برشانہ میں اس مقام کا رخ کیا جو اس کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑی پر کھڑے ہوکر اس نے اپنی پشت کی جانب ایک حسرت آمیز نگاہ سے غرناطہ کی آبادی اور قصر الحمراء کے میناروں اور گبندوں پر نظر ڈالی۔ اس کے تمام ساتھی بھی اس وقت اس کے ساتھ غرناطہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ منہ سے ایک حرف نہ بول سکے ابھی وہ اس حسرت انگیز اور درد ناک نظارہ میں محو ہی تھے کہ قلعہ الحمراء کے اوپر سے تو پوں اور گولوں کے چلنے کی آواز آئی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب غرناطہ سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور عیسائیوں کی فوج نے اسے فتح کرلیا ہے۔ ابو عبداللہ اس وقت ضبط نہ کرسکا بےساختہ اس کا جی بھر آیا اور زاروقطار رونے لگا۔ ابو عبداللہ کی ماں عائشہ جو نہایت عقل مند عورت تھی۔ اس نے بیٹے کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا تو بولی ” اب عورتوں کی طرح رو رہا ہے۔ لیکن تجھ سے یہ نہ ہو سکا کہ مردوں کی طرح غرناطہ کا دفاع کرتا “ ابو عبداللہ کے وزیر نے بھی اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ البشرات کی پہاڑی جس پر کھڑے ہو کر ابو عبداللہ اور اس کے ساتھیوں نے غرناطہ پر حسرت آمیز نگاہ واپسیں ڈالی ” دم واپسیں عرب “ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی۔ اور اب تک اسی نام سے یاد کی جاتی ہے۔ امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں۔ کہ انہوں نے اپنی سیاحت اسپین کے دوران اس مقام کو دیکھا۔ ابو عبداللہ کی وفات : فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ ابو عبداللہ اور اس کے خاندان کی رہائش کے لیے متعین کردیا تھا۔ اور اس سلسلہ میں اس نے بہت کچھ عہد وپیماں بھی کیے تھے۔ لیکن غرناطہ پر اقتدار پانے کے بعد اس نے تمام عہود ومواثیق کو گلدستہ طاق نسیان بنا کر رکھ دیا۔ چناچہ ابو عبداللہ پر اندلس کی وسیع سرزمین کا چپہ چپہ تنگ ہوگیا اور آخر کار انجام یہ ہوا کہ فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ بھی اونے پونے کر کے خرید لیا اور ابو عبداللہ اندلس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر افریقہ چلا آیا۔ یہاں مراکش کے بادشاہ کا ملازم ہوگیا اور اسی حالت میں 940 ھ میں اس دنیا سے بھی رخصت ہوگیا۔ (بحوالہ مسلمانوں کا عروج وزوال) تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی آیات کو فروخت کرنے والے : 1۔ اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اللہ سے ڈر جاؤ۔ (البقرۃ : 41) 2۔ ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے جو اللہ کی آیات کو فروخت کرتے ہیں۔ (البقرۃ : 79) 3۔ اللہ کی آیات کو چھپانا اور تھوڑی قیمت کے بدلہ میں فروخت کرنا۔ پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ (البقرۃ : 174 تا 176) 4۔ اللہ سے ڈر و لوگوں سے نہ ڈرو۔ اور اللہ کی آیات کو فروخت نہ کرو۔ (المائدۃ : 44)
Top