Fi-Zilal-al-Quran - Al-Faatiha : 1
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِ : سے اسْمِ : نام اللّٰهِ : اللہ ال : جو رَحْمٰنِ : بہت مہربان الرَّحِيمِ : جو رحم کرنے والا
اللہ کے نام سے جو بےانتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة فاتحہ ایک نظر میں اس مختصر اور سات آیتوں پر مشتمل چھوٹی سی صورت کو ایک مسلمان ‘ رات دن میں کم از کم سترہ مرتبہ دہراتا ہے اور جب وہ سنتیں پڑھتا ہے تو یہ تعداد اس سے بھی دوچند ہوجاتی ہے اور اگر کوئی فرائض وسنن کے علاوہ نوافل بھی پڑھتا ہے تو وہ اسے بیشمار مرتبہ دہراتا ہے ۔ اس سورت کی تلاوت کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ صحیح حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ” اس کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ نہ پڑھی “ اس سورت میں اسلامی عقائد کے بلند اصول ‘ اسلامی تصور حیات کے کلیات و مبادی اور انسانی شعور اور انسانی دلچسپیوں کے لئے نہایت ہی اہم اصولی ہدایات بیان کی گئی ہیں ‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی ہر رکعت میں اس سورت کا پڑھنا ضروری قرار دیا ہے ‘ اور جس نماز میں اس سورت کی تلاوت نہ ہو اسے فاسد قرار دیا گیا ہے۔ اس سورت کا آغاز ”﷽“ سے ہوا ہے ۔ اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے یا پورے قرآن مجید کی ایک آیت ہے ‘ اور صرف پڑھتے وقت ہر سورت کا آغاز اس سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن راسخ بات یہی ہے کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے اور اس کو ملاکر ہی سورة فاتحہ کی آیتوں کی تعداد سات ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے : وَ لَقَد اٰتَینَکَ سَبعًا مِّنَ المَثَانِی وَ القُراٰنَ العَظِیمَ (حجر :87) ” ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائے جانے کے لائق ہیں ‘ اور تمہیں قرآن کریم عطا کیا ۔ “ اس آیت کے مفہوم کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے ‘ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور اسے مثانی اس لئے کہا گیا ہے کہ اسے نماز میں باربار دہرایا جاتا ہے ۔ بسم اللہ سے آغاز کرنا ان اداب میں سے ہے جو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو آغاز وحی کے وقت بتادیئے تھے ۔ اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ ” پڑھئے اپنے رب کے نام سے ۔ “ اور یہ ان آداب میں سے ہے ‘ جو اسلامی تصور حیات کے اساسی عقیدے سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ھُوَ الاَوَّلُ وَ الاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ البَاطِنُ (حدید :3) ” وہی پہلے ہے ‘ وہی پیچھے ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی مخفی ہے۔ “ صرف اللہ موجود برحق اور حقیقی وجود رکھتا ہے اور تمام دوسرے موجودات اپنا وجود اس سے لیتے ہیں ۔ ہر چیز کا آغاز اس سے ہوتا ہے لہٰذا ایک مسلمان ہر آغاز اور ہر حرکت اسی کے نام سے کرتا ہے۔ اللہ کی صفات رحمان ورحیم ‘ جنہیں شروع میں لایا گیا ہے ۔ رحمت کے تمام حالات اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ان دونوں کو یکجا طور پر اللہ ہی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ الرحمن اکیلا بھی صرف اللہ ہی کے لئے استعمال ہوسکتا ہے ۔ یہ تو جائز ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی انسان کو بھی رحیم کہہ دیں لیکن اسلامی عقائد کی رو سے یہ جائز نہیں کہ ہم بندے کو رحمان کہیں ۔ افضل یہ ہے کہ اللہ کے لئے ان دونوں صفات کو بیک وقت استعمال کیا جائے یعنی ” رحمان ورحیم “ اگرچہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں سے کس لفظ کے معنی وسیع تر ہیں لیکن قرآن کے اس سائے میں ہمیں ایسی بحثوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے ‘ ہاں ان کا خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں صفات ملکہ رحمت کے تمام معانی ‘ تمام وسعتوں کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ﷽سے آغاز کلام ‘ اللہ کی عظمت اور وحدانیت کے معانی پر مشتمل ہوتے ہوئے اگر اسلامی تصور حیات کا پہلا اصول ہے رحمان رحیم کی دوصفتوں میں رحمت کے تمام مفاہیم تمام حالات اور تمام وسعتوں کا سمو دینا ‘ اسلامی تصور حیات کا دوسرا زریں اصول ہے ۔ جس سے ایک بندے اور اس کے اللہ کے درمیان تعلق کی صحیح نوعیت کا اظہار ہوتا ہے۔
Top