Fi-Zilal-al-Quran - Yunus : 44
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا النَّاسَ : لوگ شَيْئًا : کچھ بھی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن النَّاسَ : لوگ اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ پر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے ہیں
'' حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا ، لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ''۔
ان اللہ لا یظلم الناس شیءًا ولکن الناس انفسھم یظلمون۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بالکل ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اپنی فطری صلاحیتوں کی خرابی اور اختیار و پسندیدگی کی غلطی کی وجہ سے اللہ اور اللہ کے رسول (ﷺ) کے بتائے ہوئے راستے کو صحیح نہیں مانتے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جو ہدایات (اور دینی تعلیم) اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ‘ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی زمین پر خوب بارش ہو تو زمین کو جو ٹکڑا اچھا ہوتا ہے ‘ وہ پانی لے لیتا ہے پھر اس میں سبزہ ‘ گھاس ‘ چارہ بکثرت ہوجاتا ہے اور زمین کا کچھ ٹکڑا پتھریلا سخت ہوتا ہے ‘ وہ پانی کو اپنے اندر روک لیتا ہے (اس پانی سے اس زمین کے ٹکڑے میں تو روئیدگی نہیں ہوتی مگر) اللہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ‘ لوگ پیتے پلاتے اور کھیتیاں سینچتے ہیں۔ لیکن زمین کا ایک ٹکڑا وہ ہوتا ہے جو چٹیل میدان ہوتا ہے (پانی اس پر برستا ہے اور برس کر بہہ جاتا ہے) وہ نہ پانی کو اپنے اندر روکتا ہے نہ سبزہ پیدا کرتا ہے۔ یہی حالت اس دین کی ہے۔ کچھ لوگ دین کو سمجھتے ہیں۔ اللہ نے جو تعلیم مجھے دے کر بھیجا ہے ‘ ان کو اس تعلیم سے فائدہ ہوتا ہے۔ وہ خود بھی سیکھتے ہیں ‘ دوسروں کو بھی سکھاتے ہیں اور کچھ لوگ دین کی طرف قطعاً توجہ نہیں کرتے ‘ سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور جو ہدایت مجھے دے کر بھیجا گیا ہے ‘ اس کو قبول نہیں کرتے (متفق علیہ من حدیث ابی موسیٰ ) ۔ بعض علماء نے آیت مذکورہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہوش و حواس اور قوت فہم کو اللہ سلب کرلے اور آلات استدلال سے محروم کر دے (اور پھر ہدایت پر چلنے کا حکم دے) اللہ ایسا ظلم نہیں کرتا۔ گویا اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کو کسب (یعنی عمل) کا اختیار ہے ‘ اس کی اختیاری طاقت اللہ نے سلب نہیں کرلی ہے (برے بھلے میں تمیز کرنے کی طاقت عام لوگوں کو بھی دی گئی ہے۔ خود آدمی اس طاقت سے کام نہ لے یا غلط کام لے تو یہ قصور انسان کا ہے) اس سے فرقۂ جبریہ کے قول کی تردید ہوتی ہے (جو انسان کو پتھر کی طرح بےبس اور مجبور جانتے ہیں) ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ منکرین نبوت و قرآن کو اس آیت میں عذاب کی وعید ہو کہ قیامت کے دن جس عذاب میں یہ لوگ گرفتار ہوں گے وہ ان پر ظلم نہ ہوگا ‘ سراسر انصاف ہوگا۔ عذاب کے اسباب کو انہوں نے خود اختیار کیا تھا (جس کے نتیجہ میں ان پر عذاب ہوگا) ۔
Top