Fi-Zilal-al-Quran - Yunus : 64
لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ١ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُؕ
لَھُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰي : بشارت فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَ : اور فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت لَا تَبْدِيْلَ : تبدیلی نہیں لِكَلِمٰتِ : باتوں میں اللّٰهِ : اللہ ذٰلِكَ : یہ ھُوَ : وہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
لھم البشری فی الحیوۃ الدنیا دنیوی زندگی میں انہی کیلئے بشارت ہے۔ یہ بشارت وہی ہے جو رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ کو عموماً اور بعض مخصوص صحابہ کو خصوصاً دی تھی۔ ترمذی نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی روایت سے اور ابن ماجہ نے حضرت سعید بن زید کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ابوبکر جنت میں (یعنی جنتی ) ہے ‘ عمر جنتی ہے ‘ عثمان جنتی ہے ‘ علی جنتی ہے ‘ طلحہ جنتی ہے ‘ زبیر جنتی ہے ‘ عبدالرحمن بن عوف جنتی ہے ‘ سعد بن ابی وقاص جنتی ہے ‘ سعید بن زید جنتی ہے ‘ ابو عبیدہ بن جراح جنتی ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میری امت میں سب سے پہلے اے ابوبکر ! تم جنت میں جاؤ گے۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : سب سے پہلے زمین پھٹ کر میں برآمد ہوں گا ‘ پھر ابوبکر ‘ پھر عمر۔ ترمذی نے حضرت طلحہ بن عبیدا اللہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوگا اور میرا رفیق جنت کے اندر عثمان ہوگا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت سے بخاری و مسلم نے صحیحین میں بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی سے فرمایا : تم مجھ سے اس جگہ پر ہو جس جگہ پر حضرت ہارون ‘ حضرت موسیٰ سے تھے (یعنی جو قرب درجہ یا قرب نسب یا قرب محبت حضرت موسیٰ کی طرف سے حضرت ہارون کو تھا ‘ وہی قرب تم کو مجھ سے حاصل ہے) مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت زید بن ارقم کی روایت سے امام احمد اور ترمذی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس کا مولیٰ (آقا ‘ سردار ‘ دوست) میں ہوں ‘ علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ حضرت مسوربن مخرمہ کی روایت سے صحیحین میں آیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا ‘ اس نے مجھے ناراض کیا۔ ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا : حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ یہ بھی فرمایا : جنت کی عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ اور فرمایا : عورتوں پر عائشہ کی برتری ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت (باقی) کھانوں پر اور یہ بھی فرمایا کہ عبد اللہ یعنی ابن عمر صالح آدمی ہیں (رواہ البخاری و مسلم فی الصحیحین عن ابن عمر) حضرت عبد اللہ بن سلام کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل جنت میں سے ہے ( متفق علیہ عن سعد بن ابی وقاص) اور فرمایا : انصار سے محبت نہیں رکھتا ‘ مگر مؤمن اور ان سے بغض نہیں رکھتا ‘ مگر منافق (یعنی انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت اور ان سے بعض رکھنا نفاق کی نشانی ہے) جو ان سے محبت کرے گا ‘ اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بعض رکھے گا ‘ اللہ اس سے نفرت کرے گا۔ اور فرمایا : اسید بن حضیر کیسا اچھا آدمی ہے۔ ثابت بن قیس کیسا اچھا آدمی ہے۔ معاذ بن جبل کیسا اچھا آدمی ہے۔ معاذ بن عمرو بن جموح کیسا اچھا آدمی ہے۔ اور فرمایا : جنت تین شخصوں کی مشتاق ہے : علی ‘ عمار ‘ سلمان۔ حضور (ﷺ) نے اسی طرح بکثرت صحابہ کو تفصیل کے ساتھ بشارتیں دی تھیں۔ اور اللہ نے سب صحابہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے : وَکُلاّآ وَّعْدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی اور اللہ نے ہر ایک (مخلص صحابی) سے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ دوسری آیت میں بھی عمومی بشارت دی ہے ‘ فرمایا ہے : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ الخ۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا : میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی (کوہ) احد کے برابر سونا راہ خدا میں صرف کرے تو ان کے ایک سیر بلکہ آدھ سیر (راہ خدا میں صرف کرنے) کو نہیں پہنچے گا۔ رواہ البخاری ومسلم فی الصحیحین عن ابی سعید خدری رزین نے حضرت عمر کی روایت سے بیان کیا کہ حضور (ﷺ) نے فرمایا : میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں ۔ جس کی (روشنی کی) پیروی کرو گے ‘ ہدایت پا لوگے۔ اور فرمایا : میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں ‘ پھر وہ لوگ جو ان سے متصل آئیں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل آئیں گے (متفق علیہ عن عمران بن حصین) ۔ رسول اللہ (ﷺ) کی وفات کے بعد دنیوی بشارت وہ ہوتی ہے جو اللہ اپنے اولیاء کو خواب یا بیداری کی حالت میں عالم مثال کا انکشاف کر کے دیتا ہے۔ رویائے صالحہ (اچھے خواب) سے یہی عالم مثال کا انکشاف مراد ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : سوائے مبشرات (بشارتوں) کے ‘ نبوت کا کوئی جزء باقی نہیں رہا (یعنی میرے بعد لوگوں کو سوائے بشارتوں کے ‘ اللہ کے کسی قول کی اطلاع براہ راست یا ملائکہ کی معرفت آئندہ نہ ہوگی ‘ نبوت کا دروازہ بند ہوگیا) صحابہ نے عرض کیا : مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا : سچے خواب۔ رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔ حضرت عبادہ بن صامت راوی ہیں : میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے آیت لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کی تشریح دریافت کی۔ فرمایا : (بشریٰ سے مراد) سچا خواب ہے جو آدمی کو دکھایا جاتا ہے (بغوی) ۔ حضرت ابو درداء سے لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کا معنی دریافت کیا گیا تو فرمایا : جب سے میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی ‘ اب تک سوائے تیرے کسی نے مجھ سے اس کی تفسیر دریافت نہیں کی۔ میں نے حضور (ﷺ) سے پوچھا تھا تو حضور (ﷺ) نے فرمایا تھا : جب سے یہ آیت نازل ہوئی ‘ کسی نے تیرے سوا اس کی مراد نہیں دریافت کی۔ (بشریٰ ) سے مراد) سچا خواب ہے جو مؤمن کو دکھایا جاتا ہے۔ دنیوی زندگی میں بھی اس کیلئے بشارت ہے اور آخرت میں جنت بشارت ہوگی (امام احمد و سعید بن منصور) یہ حدیث بہت سندوں سے آئی ہے۔ سچے خواب سے مراد عوام کے خواب نہیں بلکہ اولیاء اور صالحین کے خواب مراد ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : خواب تین ہوتے ہیں : (ایک) اللہ کی طرف سے بشارت ‘ (دوسرا) حدیث نفس (یعنی دماغی تخیلات یا تحت الشعور تصورات) ‘ (تیسرا) شیطان کی طرف سے ڈراوا (یعنی ہیبت ناک ‘ بےسروپا خواب) ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ ایک شبہ : خواب خواہ اولیاء اور صلحاء کا ہو ‘ مفید یقین نہیں (اور اللہ کی طرف سے بشارت کو مفید یقین ہونا چاہئے) ۔ ازالہ : خواب سے یقین نہیں تو غالب گمان ضرور حاصل ہوجاتا ہے اور بشارت کیلئے غلبۂ ظن ہی کافی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : نبوت کے 46 اجزاء میں سے اک جزء سچا خواب ہے۔ یہ حدیث بخاری نے حضرت ابو سعید راویت سے اور مسلم نے حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور احمد و ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کی ہے۔ اسی کی مثل ابن ماجہ نے حضرت عوف بن مالک کی روایت سے بھی بیان کیا ہے۔ 1 ؂ امام احمد نے حضرت ابن عمرو حضرت ابن عباس کی روایت سے اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ سچا خواب نبوت کے ستر اجزاء میں سے ایک ہے۔ ابن النجار نے حضرت ابن عمر کا قول بیان کیا ہے کہ سچا خواب نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔ البشرٰی سے وہ عمومی بشارت مراد ہے جس کا تعلق جنت اور ثواب سے ہے۔ یہ بشارت ضرورتمام مؤمنوں کو دی گئی ہے مگر اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب ایمان پر خاتمہ ہو اور ایمان پر خاتمہ کیا معلوم ہو یا نہ ہو۔ بعض علماء کے نزدیک البشرٰی سے مراد لوگوں کی طرف سے ستائش ہے۔ بغوی نے عبد اللہ بن صامت کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو ذر نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! آدمی (اچھے) کام تو اپنے لئے کرتا ہے مگر لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ فرمایا : مؤمن کیلئے یہ بشارت (دنیوی) ہے۔ مسلم کی روایت میں (بجائے محبت کرنے کے) لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ‘ آیا ہے۔ زہری اور قتادہ نے کہا : مرنے کے وقت اللہ کی طرف سے ملائکہ بشارت لے کر نازل ہوتے ہیں ‘ البشرٰی سے یہی مراد ہے۔ اللہ نے فرمایا : تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلاآءِکَۃ الاَّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَلْبَشِرُ وَابَالْجَنَّۃ۔ عطاء کی روایت میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول ہے۔ وفی الاخرۃ اور آخرت میں۔ یعنی جان نکلنے کے وقت مؤمن کی روح کو قرب الٰہی کی طرف لے جایا جاتا ہے اور اللہ کی خوشنودی کی بشارت دی جاتی ہے اور قیامت کے دن قبر سے نکلنے کے وقت بھی اس کو بشارت دی جائے گی۔ حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جو شخص اللہ سے ملنا پسند کرتا ہے ‘ اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ‘ اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ یا کسی اور بی بی نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ہم کو تو موت پسند نہیں۔ فرمایا : یہ مطلب نہیں ہے ‘ بلکہ مؤمن کے مرنے کا جب وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی خوشنودی اور رحمت کی بشارت دی جاتی ہے ‘ پس وہ اللہ سے ملنے کا خواستگار ہوجاتا ہے اور کافر کی موت سامنے آتی ہے تو اس کو اللہ کے عذاب اور سزا کی اطلاع دی جاتی ہے۔ اس کو اپنے سامنے آنے والے عذاب سے زیادہ ناگوار اور کوئی چیز نہیں ہوتی ‘ اسلئے اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا اور اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ رواہ البخاری ومسلم فی الصحیحین۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : لاآ اِلٰہَ الاَّ اللہ والوں کو نہ موت کے وقت وحشت ہوگی ‘ نہ قبروں میں ‘ نہ قبروں سے اٹھنے کے وقت۔ گویا وہ منظر میرے سامنے ہے کہ چیخ (صور کی آواز) کے وقت وہ (اہل ایمان) سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہہ رہے تھے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنَّا الْحَزَنُ سزاوار ستائش ہے وہ اللہ جس نے ہم سے سختی کو دور کردیا۔ رواہ الطبرانی۔ ختلی نے دیباج میں حضرت ابن عباس کا مرفوع قول بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ لا تبدیل لکلمات اللہ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یعنی اللہ کے وعدوں کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ذلک ھو الفوز العظیم۔ وہ یعنی مؤمنوں کا دونوں جہان میں بشارت یافتہ ہونا ہی بڑی کامیابی ہے۔ یہ اور اس سے پہلے کا جملہ ” معترضہ جملے “ ہیں جن سے اس جزاء کی عظمت و حقانیت کا اظہار مقصود ہے جس کی بشارت دی گئی ہے۔ جملہ معترضہ ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ کلام کے اوّل و آخر کے درمیان آئے اور کلام کا آخری حصہ وہ ہو جو اوّل سے مربوط ہے۔
Top