Fi-Zilal-al-Quran - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
جواب دیا گیا اب ایمان لاتا ہے ! حالانکہ اس سے پہلے تک تو تو نافرمانی کرتا اور فساد کرنے والوں میں سے تھا۔
آلن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین۔ (ا اللہ نے فرمایا :) کیا اب (تجھے یقین ہوا اور تو نے مانا) حالانکہ اس سے پہلے (ساری عمر) تو نافرمانی کرتا رہا اور تباہی پیدا کرنے والوں میں رہا۔ خود بھی گمراہ رہا اور دوسروں کو بھی ایمان سے بہکاتا رہا۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جب اللہ فرعون کو غرق کرنے لگا (یعنی بحکم خدا فرعون ڈوبنے لگا) تو بولا : اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لاآ اِلٰہَ الاَّ الَّذِیْٓ اٰمَنَت بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِ یْلَ ۔ حضرت جبرئیل نے (رسول اللہ (ﷺ) سے) کہا : محمد ! کاش آپ وہ منظر دیکھتے کہ میں اس کے منہ میں سمندر کی کیچڑ ٹھونس رہا تھا کیونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں اللہ کی رحمت اس کو پہنچ جائے (اور مرنے سے پہلے اس کی توبہ قبول ہوجائے) ۔ فائدہ : جلال الدین دوّانی کا قول ہے کہ فرعون نے چونکہ کلمۂ توحید زندگی میں پڑھ لیا تھا ‘ اسلئے (اس کی توبہ قبول ہوگئی اور) وہ مسلمان مرا۔ دوّانی نے اس قول میں حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کی پیروی کی ہے۔ ابی عربی کا بھی یہی قول ہے کہ فرعون پاک مرا۔ حق یہ ہے کہ شیخ کا قول ظاہر نصوص کے خلاف ہے۔ آپ کے سکر کی حالت کے بکثرت الفاظ شرع کے مطابق نہیں ہیں۔ شیخ کا فرعون کے متعلق یہ قول بھی اجماع علماء کے خلاف ہے اور صحیح احادیث سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ دوّانی نے کہا : فرعون کا دوزخی ہونا کسی آیت سے ثابت نہیں۔ جس جس آیت میں عذاب دوزخ سے ڈراوا دیا گیا ہے ‘ وہ آل فرعون کو دیا ہے ‘ فرعون کو نہیں دیا گیا۔ دیکھو اللہ نے فرمایا ہے : اَدْخِلُوْا اٰل فِرْعُوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کر دو ۔ نَاَوْرَدَھُمْ النَّار فرعون نے اپنے متبعین کو دوزخ میں اتار دیا۔ وَحَاقَ بِاٰلِ فِرًْعُوْنَ سُوْٓہُ الْعَذَابِآل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر کی وجہ سے فرعون کو عذاب نہ ہوگا بلکہ مخلوق پر چونکہ اس نے مظالم کئے تھے ‘ اسلئے اس کو عذاب ہوگا۔ بندوں کے حقوق معاف نہیں کئے جائیں گے۔ میں کہتا ہوں : دوّانی کی یہ دلیل لغو ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَحَشَرَ فَنَادٰی فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمْ الْاَعْلٰی فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی فرعون نے سب کو جمع کر کے کہا : میں تم سب کا رب اعلیٰ ہوں۔ آخر اللہ نے اس کی پکڑ کی اور اس کو دنیا و آخرت میں (یا اگلوں پچھلوں کیلئے) عبرت بنا دیا۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفر کی وجہ سے آخرت میں فرعون پر عذاب ہوگا۔ دوسری آیت میں حضرت موسیٰ کی دعا نقل کی ہے : اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلاَہٗ الخ۔ اس کے آخر میں فرمایا ہے : قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُما۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے فرعون کیلئے بددعا کی تھی اور درخواست کی تھی کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہو اور یہ دعا قبول کرلی گئی ‘ پس کفر پر اس کا خاتمہ ہوگا۔ اس کا انکار آیت کا انکار ہے۔
Top