Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 24
مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۠   ۧ
مَثَلُ : مثال الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق كَالْاَعْمٰى : جیسے اندھا وَالْاَصَمِّ : اور بہرا وَالْبَصِيْرِ : اور دیکھتا وَالسَّمِيْعِ : اور سنتا هَلْ يَسْتَوِيٰنِ : کیا دونوں برابر ہیں مَثَلًا : مثال (حالت) میں اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا تم غور نہیں کرتے
ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سننے والا ، کیا یہ دونوں یکساں ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم (اس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے ؟
یہ ایک حسی تصویر کشی ہے جس کے اندر دونوں فریقوں کو مجسم طور پر پیش کردیا گیا ہے۔ پہلا فریق ایک نابینا کی طرح جو کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا ، بہرے کی طرح ہے جو کچھ سن نہیں سکتا۔ جس کے قوائے مدرکہ معطل ہیں اور وہ علی امفاہیم کے ادراک سے عاجز ہے۔ چونکہ اس کے اعضائے مدرکہ کام نہیں کرتے اس لیے وہ گویا ان اعضا ہی سے محروم ہے جبکہ دوسرا فریق ان سے کام لیتا ہے اور سمیع وبصیر ہے اور ان قوتوں سے اس کی عقل استفادہ کرتی ہے۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۔ آخری میں سوال کیا جاتا ہے کہ کیا یہ دونوں قسم کے لوگ برابر ہوسکتے ہیں ؟ اور اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا کیونکہ جواب کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ بلکہ دوسرا سوال کردیا جاتا ہے کہ کیا تم لوگ اس مثال سے سبق نہیں لیتے اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۔ اس لیے کہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس پر کسی گہرے غور و فکر کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔
Top