Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ (اس نے کہا) " میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں
درس نمبر 100 ایک نظر میں قصص انبیاء اس سورت کا مرکزی موضوع ہے۔ لیکن ، اصل مقصود بذات خود قصہ نہیں ہے بلکہ اصل مقصود وہ حقیقت ہے جسے ان قصص کے ذریعے ثابت کیا جا رہا ہے اور سورت کے آغاز میں مجملاً اس کا تذکرہ کردیا گیا ہے : الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (1) أَلا تَعْبُدُوا إِلا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (2) وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ (3)إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (4): " ال ر۔ فرمان ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوتی ہیں ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے۔ کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں ، اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ " سورت کے آغاز میں ان حقائق کے بارے میں متعدد اور مکرر بار تبصرہ ہوچکا ہے۔ زمین اور آسمان کے نظام ، انسانی نفس کی تخلیق اور حشر کے میدان کے مکالموں کے ذریعے ان حقائق کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب یہاں کرہ ارض کے اطراف و اکناف میں بسنے والے انسانوں اور ان کی تاریخ کے حوالے سے ان حقائق کو پیش کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کی یہ کشمکش ایک تاریخی کشمکش ہے۔ اور ابتدائے آفرینش سے یونہی چلی آرہی ہے۔ یہ قصص اس سورت میں قدرے تفصیل سے آئے ہیں ، خصوصاً حضرت نوح کا قصہ طوفان۔ اس میں وہی نظریاتی کشمکش ہے جس کا سورت کے آغاز میں ذکر ہوا۔ اور وہی حقائق اس میں موضوع جدال ہیں جن کو لے کر ہر دور میں ہر رسول آیا ہے۔ گویا موجود مکذبین بھی وہی ہیں جو حضرت نوح سے ادھر تکذیب کرتے آئے ہیں۔ ان کا مزاج ایک ہے ، ان کی سوچ ایک جیسی ہے اور پوری تاریخ انسانی میں جس طرح رسولوں کی دعوت ایک ہے ، مکذبین کا جواب بھی ایک ہے۔ اس سورت کے قصے تاریخی ترتیب کے مطابق ہیں۔ آغاز حضرت نوح سے ہوتا ہے ، پھر حضرت ہود ، پھر حضرت صالح ، کچھ اشارہ حضرت ابراہیم کی طرف اور پھر بحث حضرت لوط کی طرف چلی جاتی ہے ، پھر حضرت شعیب اور پھر حضرت موسیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بات آگے بڑھ جاتی ہے اور تاریخی ترتیب کو اس لیے یہاں بحال رکھا ہے کہ مقصد پچھلوں کو اگلوں کے انجام بد سے ڈرانا ہے اور یہ بتانا ہے کہ پوری انسانی تاریخ کا طرز عمل ایک جیسا ہے۔ قصہ نوح تاریخی اعتبار سے بھی مقدم ہے ، سورت میں بھی مقدم ہے تو لیجییے قصہ نوح علیہ السلام۔ ۔۔۔ درس نمبر 100 تشریح آیات 25 تا 49 ۔۔۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖٓ ۡ اِنِّىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۔ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ اَلِيْمٍ : (اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ (اس نے کہا) " میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں۔ کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا۔ یہ وہی الفاظ ہیں جو آغاز سورت میں حضرت محمد ﷺ کی بعثت اور آپ کے پیغام کے بارے میں کہے گئے ہیں کہ یہ کتاب ہے جس کی آیات پختہ ہیں اور مفصل ہیں اور ایک حکیم اور خبردار ذات کی طرف سے ہیں اور میں اس کی طرف سے نذیر اور بشیر ہوں۔ دعوت کے مفہوم اور مقصد کو ایک ہی جیسے الفاظ میں ادا کرنے سے یہ ثابت کرنا مطلوب ہے کہ تمام انبیاء کا مشن اور ان کی دعوت ایک ہی رہی ہے۔ ان کے نظریات ایک ہی رہے ہیں ، اسی وجہ سے انداز تعبیر بھی ایک ہی جیسا اختیار کیا گیا ہے ، یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ یہاں حضرت نوح کے اپنے الفاظ کو نقل نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کے مفہوم کو عربی میں ادا کیا گیا ہے اور یہی راجح مذہب ہے کیونکہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ حضرت نوح کی زبان کیا تھی ؟ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖٓ ۡ اِنِّىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ: " (اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ (اس نے کہا) " میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں "۔ یہاں متن قرآن میں لفظ " اس نے کہا " نہیں لایا گیا۔ ایک تو اس لیے کہ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ گویا حضرت نوح ہمارے سامنے کھڑے ہیں اور ایک زندہ اور چلتا پھرتا منظر ہمارے سامنے ہے اور آپ تقریر فرما رہے ہیں اور ہم سن رہے ہیں۔ اس لیے ماضی کا بیانی اور حکایتی انداز اختیار نہیں کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ یہاں فریضہ رسالت کو نہایت ہی مختصر الفاظ میں اور مخصتر مفہوم میں بتا دیا گیا ہے کہ " میں تم کو صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں " یہ انداز سامعین کے وجدان میں مقاصد رسالت کو اچھی طرح ذہن نشین کردیتا ہے "
Top