Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 33
قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ : صرف لائے گا تم پر بِهِ : اس کو اللّٰهُ : اللہ اِنْ شَآءَ : اگر چاہے گا وہ وَمَآ اَنْتُمْ : اور تم نہیں بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کردینے والے
نوح نے جواب دیا " وہ تو اللہ ہی لائے گا ، اگر چاہے گا ، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو
اب ذرا دیکھئے کہ حضرت نوح کا رد عمل کیا ہے ؟ یہ تکذیب اور یہ معاندانہ چیلنج ان کو ایک دینی اور رسول کریم کے جادہ مستقیم سے نہیں ہٹا سکتا۔ وہ حق اور صداقت کی تبلیغ سے ہاتھ نہیں کھینچ لیتے۔ وہ مسلسل ان کے سامنے وہ سچائی پیش کرتے چلے جاتے ہیں ، بھلایا ہوا سبق یاد کراتے جا رہے ہیں حالانکہ ان کا رویہ بہت ہی جاہلانہ ہے اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ لے آئیے وہ عذاب ! آپ ان کو یہ جواب دیتے ہیں کہ بھائیو ! میں تو فقط رسول ہوں اور میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ پیغام تم تک پہنچا دوں۔ رہا عذاب الہی تو وہ امر الہی کے تابع ہے اور تمام امور کی تدبیر تو اللہ کرتا ہے۔ یہ فیصلہ اللہ کرتا ہے کہ عذاب جلدی لے آئے یا اسے کسی وقت تک موخر کردے۔ یہ اس کی سنت کے مطابق آئے گا اور سنت الہیہ میں کبھی تخلف نہیں ہوتا۔ ایک نبی نہ تو سنت الہیہ میں تبدیلی کرسکتا ہے اور نہ اس کا رخ پھر سکتا ہے۔ رسول کا فریضہ اور ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ آخری لمحے تک تبلیغ کرتا رہے۔ لوگوں کی جانب سے تکذیب اور روگردانی اور چیلنج کی وجہ سے رسول کبھی اپنا کام نہیں چھوڑتا۔ اگر سنت الہی کا تقاضا یہ ہوا کہ تم اپنی گمراہی کی وجہ سے ہلاک ہوجاؤ تو یہ سنت تم پر جاری ہوکر رہے گی ، چاہے جس قدر جدوجہد کروں ، اس لیے نہیں کہ اللہ تمہیں میری نصیحت سے استفادہ کرنے سے روکتے ہیں ، بلکہ اس لیے کہ تم اپنے اختیار تمیزی کو اس طرح استعمال کر رہے ہو کہ سنت الہی کے مطابق تم اس انجام تک پہنچ جاؤگے۔ اور اس سلسلے میں تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو۔ تم تو دائماً اس کے قبضہ قدرت میں ہو ، اللہ ہی تدبیر امور کرتا ہے۔ اور تقصیرات کا تعین کرتا ہے۔ تم سب نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ حساب و کتاب دینا ہے اور جزاء و سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ هُوَ رَبُّكُمْ ۣ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ " وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم کو پلٹنا ہے " ۔۔۔
Top