Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 40
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَ : جب آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم وَفَارَ : اور جوش مارا التَّنُّوْرُ : تنور قُلْنَا : ہم نے کہا احْمِلْ : چڑھا لے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلٍّ زَوْجَيْنِ : ہر ایک جوڑا اثْنَيْنِ : دو (نرو مادہ) وَاَهْلَكَ : اور اپنے گھر والے اِلَّا : سوائے مَنْ : جو سَبَقَ : ہوچکا عَلَيْهِ : اس پر الْقَوْلُ : حکم وَمَنْ : اور جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَمَآ : اور نہ اٰمَنَ : ایمان لائے مَعَهٗٓ : اس پر اِلَّا قَلِيْلٌ : مگر تھوڑے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا " ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں
اور جب مقررہ وقت آجاتا ہے۔ وہ لمحہ جس کا انتظار تھا تو پھر اس کا منظر کچھ اس طرح ہے : یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا " ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔ نوح نے کہا سوار ہوجاؤ اس میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اسکا ٹھہرنا بھی ، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے۔ یہ تنور کس طرح جوش میں آیا ؟ بعض اقوال ایسے ہیں جو تخیلات پر مبنی ہونے کی وجہ سے بہت دور کے نظر آتے ہیں اور بعض کے اندر اسرائیلیات کی بو آتی ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم بغیر کسی راہنمائی کے غیر آباد وادیوں میں گھومنے کے قائل نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم جو خبریں دیتا ہے وہ عالم الغیب کی خبریں ہیں اور اس سلسلے میں اسی حد پر جا کر رک جانا چاہیے ، جس کی تصریح قرآن کریم کرتا ہے اور مدلول نص پر مزید کوئی حاشیہ آرائی نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ تنور سے فوارہ چھوٹنا ، خصوصاً چلتے ہوئے تنور سے ، یوں ہوسکتا ہے کہ تنور سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑے یا اس کے اندر آتش فشانی کا عمل شروع ہوجائے اور یہ کہ یہ حضرت نوح کے لیے عذاب الہی اور خطرے کی آخری گھنٹی کے طور پر اللہ نے مقرر کیا تھا یا اللہ کے عذاب کی آمد کا یہ ایک حصہ تھا۔ اور بیک وقت زمین سے پانی ابلنا شروع ہوگیا اور آسمان سے موسلا دھار بارش برسنا شروع ہوگئی۔ جب یہ واقعات شروع ہوئے تو اللہ نے حکم دیا کہ : قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ : " ہم نے کہا ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو "۔ عملی نظام کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت نوح کو ہر مرحلے کے لیے اپنے وقت پر احکام دیے جائیں۔ پہلے کہا کہ تم کشتی بناؤ تو وہ بنانے لگ گئے اور وہاں سیاق کلام میں یہ نہ بتا دیا گیا کہ یہ حکم کیوں دیا جا رہا ہے اور یہ بھی نہ کیا گیا کہ خود حضرت نوح کو اس کی اطلاع کردی گئی ہے۔ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ : " یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو "۔ اور اس کے بعد دوسرے مرحلے کے لیے حکم دیا گیا : قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ : ہم نے کہا " ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں اب زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ کے مفہوم میں بھی مفسرین کا اختلاف ہے۔ اور ان میں بھی زیادہ تر اختلاف ذوق ہے اور اسرائیلی رنگ ہے۔ اس لیے ہم اس آیت کے بارے میں بھی خیالی گھوڑے نہیں دوڑاتے کہ نوح نے کس قدر زندہ چیزوں کے جوڑے اپنے ساتھ لیے اور کن کے نہ لیے۔ یہ محض اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات ہے۔ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ : اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو سنت الہی کے مطابق مستحق عذاب ہوچکے ہیں۔ وَمَنْ اٰمَنَ " اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے " یعنی تمہارے اہل و عیال کے علاوہ جو لوگ ایمان لائے ہیں۔ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ: " اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ یوں اللہ کا حکم نافذ ہوا اور جن کو ہلاک ہونا تھا ، وہ ہلاک ہوئے۔
Top