Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا ‘ انہوں نے کہا ، ڈرو نہیں ، ہم تو لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُ سُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی یہاں قرآن کریم نے خوشخبری کے بیان کو بعد میں آپ کی بیوی کی موجودگی کے وقت تک موخر کردیا کیونکہ یہاں تو ابھی قاری کو معلوم نہیں کہ آنے والے فرشتے ہیں۔ یہاں مفسرین نے ان آنے والوں کے بارے میں جو تفیصلات دی ہیں ہم ان کے ذکر کو ضروری نہیں سمجھتے۔ کیونکہ یہ تفصیلات بلا دلیل ہیں : قَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذِ (69) فَلَمَّارَآاَ یْدِیَھُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْہِ نَکِرَھُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے لدانیوں میں پیدا ہوئے اور یہاں سے انہوں نے ہجرت کر کے دریائے اردن کو عبور کرتے ہوئے کنعان کی صحرائی سرزمین میں بودباش اختیار کرلی۔ اور جس طرح دیہاتی رسم و رواج کے مطابق جو شخص کھان نہیں کھاتا اس سے یہ خوف کیا جاتا ہے کہ شاید یہ کسی جنایت اور دشمنی کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ تمام دیہاتی لوگ کھانا کھانے کے بعد اہل خانہ کے ساتھ برائے کا ارتکاب کرنے سے ابا کرتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ مہمان کھان نہیں کھا رہے تو قدرتی طور پر انہیں خوف دامن گیر ہوا اور طرح طرح کی باتیں سوچنے لگے۔ غرض اس صورت حالات کو دیکھ کر انہوں نے مناسب سمجھا کہ اپنا تعارف کرا دیں اور اپنی مہم سے ان کو آگاہ کردیں۔ قَالُوا لا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ (70) ‘۔ ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو فوراً سمجھ گئے کہ قوم لوط کی طرف فرشتوں کے بھیجنے کے کیا معنی ہیں ، لیکن اچانک روئے سخن ایک ایسے موضوع کی طرف مڑ گیا جو زیر بحث نہ تھا۔
Top