Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے۔
آپ اپنی قوم کو اچھی طرح جانتے تھے ، ان کی فطرت کے اندر جو بگاڑ اور گندگی پیدا ہوگئی تھی وہ ناقابل تصور اور بےمثل تھی۔ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوانی تعلقات قائم کرتے تھے۔ اور یہ حرکت اس نظام فطرت کے خلاف تھی جس کے مطابق اللہ نے تمام مخلوقات کو نر اور مادہ کی شکل میں پیدا کیا ، تا کہ تمام انواع کی بقا اور تسلسل قائم رہ سکے اور جس کے ذریعے نوامیس فطرت نے انسان کے لیے جو لذت اور خوشی ودیعت کی ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ راہ فطرت انسان خود اپنے غور و فکر اور اپنی تدابیر اور محنت سے حاصل نہیں کرسکتا ، صرف راہ راست پر استقامت اور ہدایت ربانی سے یہ لذت مل سکتی ہے۔ جنسی بےراہ روی کے سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کے اندر اس قسم کی شاذ ونادر بےراہ روی تو انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ بعض انسان بیمار ہوتے ہیں لیکن قوم لوط (علیہ السلام) کی بیماری ایک عجیب اور ہمہ گیر بیماری تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفسیاتی بیماریاں بھی اسی طرح پیھل جاتی ہیں جس طرح جسمانی بیماریاں پھیل جاتی ہیں اور اگر کسی سوسائٹی کا معیار حسن و قبح بدل جائے تو اس کے اندر ایسی بیماریاں بھی پھیل جاتی ہیں اور قوم پوری کی پو ری اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوجاتی ہے اور یہ بگاڑ سوسائٹی کے بگڑے ہوئے تصورات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بگاڑ انسانی فطرت سلیمہ کے ساتھ متصادم ہوتا ہے ، کیونکہ فطرت سلیمہ تو کائنات کے نوامیس کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے اور وہ موجبات حیات کی ممد ہوتی ہے ، متصادم نہیں ہوتی جبکہ یہ جنسی بےراہ روی امتداد حیات کے نظام کے ساتھ متصادم ہوتی ہے۔ انسان تخم حیات کو ایسی سرزمین میں بوتا ہے جہاں سے زندگی کی نشوونما نہیں ہو سکتی ، یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی جنسی بےراہ روی سے انسانی فطرت نہ صرف یہ کہ اخلاقی طور پر متصادم ہوتی ہے بلکہ قوانین فطرت بھی اس سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ عمل قوم لوط نہ صرف یہ کہ فطرت کے خلاف ہے بلکہ نظام امتداد حیات اور حقیقی لذت کے بھی خلاف ہے۔ بعض اوقات انسان موت میں وہ لذت محسوس کرتا ہے جو حیات میں نہیں ہوتی لیکن یہ لذت اعلیٰ اقدار اور بلند مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ یہ حسی اور جسمانی لذت نہیں ہوتی اور جہاد میں سر قربان کرنا نظام بقائے حیات کے ساتھ متصادم نہیں ہے بلکہ اس طرح زندگی کو کم کرنا دوسرے پہلو سے زندگی کو بلند کرنا ہے۔ اللہ کی راہ میں شہادت سے زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ زندگی ایک دوسرا انداز اختیار کرتی ہے۔ تو حضرت لوط (علیہ السلام) مہمانوں کو دیکھ کر بہت ہی کبیدہ خاطر ہوئے ، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کی قوم ان خوبصورت مہمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی اور اس طرح انہیں بہت ہی شرمندہ ہونا پڑے گا۔ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ “ آج بڑی مصیبت کا دن ہے
Top