Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 7
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا١ؕ وَ لَئِنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَهُوَ
: اور وہی
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَ
: پیدا کیا اس نے
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ اَيَّامٍ
: چھ دن
وَّكَانَ
: اور تھا
عَرْشُهٗ
: اس کا عرش
عَلَي الْمَآءِ
: پانی پر
لِيَبْلُوَكُمْ
: تاکہ تمہیں آزمائے
اَيُّكُمْ
: تم میں کون
اَحْسَنُ
: بہتر
عَمَلًا
: عمل میں
وَلَئِنْ
: اور اگر
قُلْتَ
: آپ کہیں
اِنَّكُمْ
: کہ تم
مَّبْعُوْثُوْنَ
: اٹھائے جاؤگے
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
الْمَوْتِ
: موت۔ مرنا
لَيَقُوْلَنَّ
: تو ضرور کہیں گے وہ
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوْٓا
: انہوں نے کفر کیا (کافر)
اِنْ ھٰذَآ
: نہیں یہ
اِلَّا
: مگر (صرف)
سِحْرٌ
: جادو
مُّبِيْنٌ
: کھلا
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اب اگر اے نبی ، تم کہتے ہو کہ لوگو ! مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے
اب اس سے آگے رب کریم کی شان کا ایک دوسرا رخ پیش کیا جاتا ہے۔ رب کریم کی قدرت کے بعض و آثار اور مظاہر پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کی حکمت اور کارکردگیوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو ، اللہ نے زمین اور آسمانوں کو کس قدر حکیمانہ انداز دیا ہے۔ یہاں اس کائنات کے ان پہلوؤں کو سامنے لایا جاتا ہے جو عمل ، حساب و کتاب ، اور بعث بعد الموت کے عقائد کے ساتھ متناسب ہوں بلکہ یہ تصور دیتے ہوں : وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭ وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْــرٌ مُّبِيْن : اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اب اگر اے نبی ، تم کہتے ہو کہ لوگو ! مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔ اللہ نے زمین و آسمان کو چھو دنوں میں پیدا کیا ، اس موضوع پر ہم سورت یونس میں بات کر آئے ہیں۔ وہاں یہ بات سیاق وسباق میں آئی تھی۔ وہ یہ تھا کہ اس کائنات کے قوانین فطرت جن کے مطابق زمین و آسمان چلتے ہیں اور اس نظام کے درمیان جن کے مطابق لوگوں کی زندگی چلتی ہے ، ربط اور مطابقت ہے۔ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے) یہاں جو نئی بات ہے وہ یہ ہے ، خلق آسمان و زمین کے بیان کے بعد ایک جملہ معترضہ ہے۔ وکان عشہ علی الماء (جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے عمل میں وہ جس طرح کہ موجودہ شکل میں ہیں اس تک پہنچنے سے پہلے یہاں پانی تھا اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ یہ پانی کیسے تھا ، یہ پانی کہاں تھا اور اس کی حالت کیا تھی ، اور اس کے بعد عرش الہی کس طرح تھا ، اس آیت میں ان امور کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ جن مفسرین کو اپنے مبلغ علم کی حدود کا علم ہے۔ وہ اس سے زیادہ بہرحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ غیبی امور ہیں اور ان کے بارے میں اللہ نے ہمیں فقط یہی معلومات دی ہیں جو اس آیت میں ہیں اور محدود ہیں۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ ہم قرآنی نصوص کی تائید میں سائنسی نظریات پیش کریں۔ خواہ کوئی نص کسی سائنسی نظریے کے ساتھ منطبق کیوں نہ ہو اس لیے کہ سائنسی نظریات بار بار بدلتے ہیں بلکہ الٹتے رہتے ہیں علماء طبیعیات جب کوئی نظریہ پیش کرتے اور سائنسی تجربات کرکے اسے ثابت کرتے ہیں تو وہ اس جدید نظریے کو سابقہ نظریات کے مقابلے میں تکوینی مظاہر سے زیادہ قریب پاتے ہیں جبکہ نص قرآنی بذات خود صادق اور حق ہے۔ چاہے سائنس اس حق اور حقیقت تک پہنچ سکی ہو یا نہیں۔ پھر سائنسی حقیقت اور سائنسی نظریات کے درمیان فرق بھی ہے۔ سائنسی حقیقت وہ ہوتی ہے جو تجربے میں آجائے۔ اگرچہ تجربات بھی ہمیشہ احتمالی رہتے ہیں ، قطعی نہیں ہوتے۔ رہے سائنسی نظریات تو وہ مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں اور یہ مفروضے بعض کائنات مظاہر یا چند مظاہر کے مجموعے کی بنا پر قائم کیے جاتے ہیں اور ان میں ہر وقت تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اس لیے نہ ہم ان نظریات سے قرآن کی تائید کرسکتے ہیں اور نہ ان نظریات پر قرآن سے استدلال کرسکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کا طریقہ کار اور ہے اور سائنس کا اور۔ اس طرح قرآن اور سائنس کے موضوعات کار بھی مختلف ہیں۔ ہمارے دور میں قرآن کریم میں بعض سائنسی نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ طرز فکر نصوص قرآن پر ہمارے ایمان کے منافی ہے۔ قرآن کریم حکیم اور خبیر کی طرف سے ہے ، یہ غلطی اس لیے کی جاتی ہے کہ ہم سائنس کو اپنے دائرہ کار کے اندر محدود نہیں رکھتے۔ اور اسے اپنے دائرے سے وسعت دیتے ہیں۔ یہ در اصل ہماری اخلاقی اور ذہنی شکست خوردگی ہے۔ جبکہ ایسا کرنے والے لوگ اپنے اس فعل کو خدمت قرآن سمجھتے ہیں۔ اور اس طرح اپنے ایمان کو ثابت کرتے ہیں۔ وہ ایمان جسے سائنس کے کسی اصول سے ثابت کیا جاتا ہے ، میں یہ کہوں گا کہ ایسے ایمان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ محل نظر ہے۔ قرآن کریم اصل الاصول ہے اور سائنسی نظریات اس کے موافق ہوں یا مخالف ، قرآن کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رہے وہ سائنسی حقائق جو تجربات سے ثابت ہیں تو ان کے دائرہ کار اور قرآن کے دائرہ کار میں فرق ہے۔ دونوں موضوعات ہی مختلف ہیں۔ قرآن کریم نے سائنسی حقائق کے دریافت کے کام کو عقل انسانی کے لیے چھوڑ دیا ہے اور اسے مکمل آزادی دی ہے کہ وہ اس میدان میں کام کرے اور تجربے کرکے جن نتائج تک پہنچا جاسکتا ہو ، پہنچا جائے۔ قرآن کریم نے اپنے ذمے صرف یہ ڈیوٹی لی ہے کہ عقل انسانی کی تربیت صحیح سلامت اور سمتقیم انداز میں کرے۔ اور اسے وہم و خرافات اور دیومالائی سوچ سے باہر نکالے۔ اس طرح قرآن نے اپنے ذمہ یہ کام لیا ہے کہ انسانی زندگی کے درست چلن کے لیے ایک نظام تجویز کرے جس کے دائرے کے اندر عقل انسانی بھی درست راہ پر آگے بڑھے اور آزاد ہو کر امن و سلامتی کے ساتھ رہے اور اپنے محدود اور مخصوص دائرے میں کام کرے تاکہ اصول کی روشنی میں جزوی حقائق دریافت کرے۔ قرآن کریم نے سائنسی حقائق کا تذکرہ شاذ و نادر ہی کیا ہے مثلاً یہ کہ تمام جاندار پانی سے زندہ ہیں اور پانی ان کی زندگی کا اہم عنصر ہے۔ مثلاً تمام زندہ جانور اور نباتات جوڑے جوڑے پیدا ہوئے ہیں۔ اور جوڑوں کے ملاپ سے زندگی انسانی ، حیوانی اور نباتاتی اشکال میں نشوونما پاتی ہے۔ یہ وہ بعض حقائق ہیں جن کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے (تفصیلات کے لیے دیکھئے پارہ دوئم اور پارہ ہفتم) اس جملہ معترضہ کے بعد ہم دوبارہ قرآنی آیت کی طرف آتے ہیں : وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آسمان اور زمین کو چھ دنوں کے اندر پیدا کیا۔ اس کے بعد کئی فقرے اور جملے محذوف ہیں۔ ان پر بعد کی عبارت دلالت کرتی ہے یعنی اس عرصے میں اسے پیدا کرکے انسان کی رہائش کے لیے اسے صالح اور کار آمد بنایا گیا۔ زمین میں سب چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کیا اور آسمانوں میں وہ انتظام کیا تاکہ تم یہاں زندہ رہ سکو اور اللہ کی ذات اس پوری کائنات پر حاوی ہے۔ ِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری کائنات کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کی کنجیاں اور کنٹرول ہے اور یہ سب انتظام انسان کی آزمائش کے لیے ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ آزمائش ایک اہم معاملہ ہے ، اور یہ محض کھیل تماشا نہیں ہے بلکہ ایک بامقصد اور سنجیدہ اسکیم ہے۔ اور انسان کی تخلیق ایک با مقصد منصوبے کے تحت ہوئی ہے۔ جس طرح اللہ نے زمین و آسمان کو اس طرح تیار کیا ہے کہ وہ جنس انسان کے لیے ممد و معاون ہوں ، اسی طرح جنس انسان کو بھی ایک مخصوص اور جیب صلاحیت اور قوت دی ہے۔ انسان کی تخلیق بھی اسی قانون فطرت کے مطابق ہوئی ہے ، جس کے مطابق اس کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ لیکن انسان کے اس تکوینی پہلو کے علاوہ اسے ایک صلاحیت اختیار و ارادے کی بھی دی ہے۔ اس اختیاری صلاحیت کی وجہ سے وہ کبھی راہ ہدایت اختیار کرتا ہے اور اللہ اس کے ساتھ معاونت کرتا ہے اور اسے ہدایت مل جاتی ہے اور کبھی وہ راہ ضلالت اختیار کرتا ہے اور اللہ بھی اسے ڈھیل دیتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہے تاکہ وہ عمل کریں اور یہ اس کی جانب سے ایک آزمائش ہے کہ کون اچھی راہ لیتا ہے اور کون بری۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو آزماتا اور ڈھیل دیتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اللہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو پہلے سے جانتا ہے۔ آزمائش اور عمل کے ذریعے در اصل لوگوں کے خفیہ اعمال لوگوں پر ظاہر ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ان اعمال پر جزا پاتے ہیں۔ اور اس طرح اللہ نے یہ اسکیم تیار فرمائی۔ اس لیے بعث بعد الموت اور جزاء و سزا کے عمل کا سر انجام پانے سے انکار اس فضا میں عجیب ہی لگتا ہے۔ کیونکہ قانون مکافات عمل ایک تکوینی مقانون ہے۔ اور یہ اس کائنات کے اصول میں سے ایک مستقل اور بنیادی اصول ہے۔ اور جو لوگ اس اصول کی تکذیب کرتے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رویہ معقول رویہ نہیں ہے۔ اور ایسے لوگ اس کائنات کے عظیم اصولوں کے ادراک سے محروم ہیں۔ اپنی اس ناقص سوچ ہی کی وجہ سے وہ تعجب کرتے ہیں کہ انسان پھر اٹھے گا ، یہ ایک عجیب بات ہوگی : وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ۔ اب اگر اے نبی ، تم کہتے ہو کہ لوگو ! مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ بعث بعد الموت کو عجیب سمجھنے والوں کا یہ قول عجیب و غریب ہے اور مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں اس سے زیادہ جھوٹ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ۔۔۔ وہ جس طرح بعث بعد الموت کی تکذیب کرتے ہیں اور اس کائنات کے اٹل اصولوں کی روشنی میں نہیں سمجھتے ، اسی طرح دنیاوی عذاب الہی اور تکوینی ہلاکت آفرینیوں کو بھی سمجھ نہیں پا رہے وہ یہ پوچھتے ہیں کہ ان پر پھر عذاب الہی نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ حالانکہ اس میں تاخیر بھی بوجہ حکمت ہے۔ اللہ ہر کسی کو مہلت دیتا ہے۔
Top