Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم جَعَلْنَا : ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کا اوپر (بلند) سَافِلَهَا : اس کا نیچا (پست) وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهَا : اس پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ سِجِّيْلٍ : کنکر (سنگریزہ) مَّنْضُوْدٍ : تہہ بہ تہہ
پھر جب ہمارے فیصلہ کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کردیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تا بڑ توڑ برسائے
یعنی جب ان پر عذاب نافذ کرنے کا وقت آیا تو ہم نے ان کی بستی کو اوپر نیچے کردیا۔ یعنی یہ سزا ان کے لیے اس لیے تجویز ہوئی کہ انہوں نے بھی اپنے آپ کو مقام انسانیت سے گرا کر مقام حیوانیت تک لے آئے تھے۔ بلکہ وہ حیوانات سے بھی نیچے گر گئے تھے کیونکہ حیوانات بہرحال حیوانی فطرت کے اصولوں کے تابع ہوتے ہیں اور اپنی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ لیکن انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو فطرت کی حدود کو بھی پار کرلیتا ہے۔ أَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ (83 : 11) اور ہم نے ان پر مٹی آلود پتھر برسائے۔ ” یعنی ایسے پتھر جن کے ساتھ مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس مقام پر ان کے لیے خاک آلود پتھر ان کے حال اور مقام سے زیادہ مناسب تھے۔ منضود کے معنی ہیں اوپر تلے آنے والے پتھر اور یہ پتھر مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ (83 : 11) “ تمہارے رب کے ہاں نشان زدہ تھے۔ ” جس طرح مویشیوں پر نشان لگا کر چھوڑ دیا جاتا ہے تا کہ پڑھے جاسکیں۔ گویا ان پتھروں کو اللہ نے اس طرح چھوڑا کہ وہ خود کار عمل سے پڑتے تھے اور ضرورت کے وقت اپنا کام کرتے تھے۔ یہ ایک عجیب تصویر کشی ہے۔ ذہن پر اس کے بےپناہ اثرات پڑتے ہیں۔ اس تصویر کشی سے ذہن پر جو اثر مرتب ہوتا ہے وہ لمبی لمبی تشریحات سے نہیں پڑتا۔ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ (11 : 83) “ ظالموں سے یہ سزا کوئی دور نہیں ہے۔ ” یہ سزا قریب ہے ، تیار ہے اور اللہ کسی بھی وقت نازل کرسکتا ہے۔ یہاں آل لوط (علیہ السلام) کی اس سزا کو جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، اس کی تصویربعض آتش فشاں پہاڑوں کے بالکل مشابہ ہے۔ کیونکہ آتش فشانی کے عمل میں پتھر اور غبار آلود پتھر برستے ہیں اور ظالم اقوام کو اللہ ان کے ظلم کی سزا دیتے ہیں۔ ہم اس مشابہت کا ذکر کر کے یہ کہنا نہیں چاہتے کہ یہ سزا کوئی آتش فشانی تھی اور کسی مخصوص وقت میں عمل واقع ہوگیا۔ نہ ہم اس کی نفی کرتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں ان لوگوں کے لیے آتش فشانی کی سزا مقرر کی ہو۔ یہ بھی سزا کا ایک طریقہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس قوم کو اللہ نے ایک عام اور معمولی آتش فشانی کے ذریعے سے سزا دی ہو۔ اور روز ازل سے ان کے لیے یہ عمل تجویز ہوا ہو۔ اور یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے اس مجرم قوم کے لیے اپنے تصرفات قدرت میں سے ایک عمل کو مخصوص کر یدا ہو۔ اور یہ بھی درست ہو سکتا ہے کہ یہ آتش فشانی عام طبیعی عمل کا حصہ نہ ہو اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے خارق عادت طریقے سے کوئی سنگ باری کی ہو اور اس کا تعلق طبیعی آتش فشانی سے بالکل نہ ہو۔ یہ عمل اسی طرح خارق عادت ہو جس طرح حضرت ابراہیم کے ہاں بچے کی ولادت کا عمل معتاد طریقے کے بالکل برعکس ہوگیا تھا۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ جس طرح چاہے ، کرسکتا ہے۔ اس کی مشیت بےقید ہے اور انسان کے لیے اس کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
Top