Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 8
وَ لَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗ١ؕ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور اگر اَخَّرْنَا : ہم روک رکھیں عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابَ : عذاب اِلٰٓى : تک اُمَّةٍ : ایک مدت مَّعْدُوْدَةٍ : گنی ہوئی معین لَّيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے مَا يَحْبِسُهٗ : کیا روک رہی ہے اسے اَلَا : یاد رکھو يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْهِمْ : ان پر آئے گا لَيْسَ : نہ مَصْرُوْفًا : ٹالا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَحَاقَ : گھیر لے گا وہ بِهِمْ : انہیں مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے ؟ سنو ! جس روز اس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں
قرون اولیٰ کی اقوام پر ایسے ایسے عذاب نازل ہوئے ، جن کی وجہ سے ان اقوام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا لیکن تباہ اور فنا کردینے والے یہ عذاب اس وقت آئے جب رسول اپنی قوم کے سامنے معجزات پیش کرچکے اور انہوں نے معجزات کے باوجود تکذیب جاری رکھی۔ یہ ہمہ گیر تباہی اس لیے آتی رہی کہ اس وقت کی رسالتیں وقتی رسالتیں تھیں ، ایک محدود پیریڈ کے لیے تھیں اور بسا اوقات وہ ایک نسل کے لیے تھیں اور ان معجزات کا مشاہدہ بھی وہی لوگ کرسکتے تھے جو موجود تھے۔ یہ معجزات مسلسل اور جاری اور باقی نہ ہوتے تھے تاکہ بعد میں آنے والی نسلیں بھی انہیں دیکھ سکیں جیسا کہ پہلی نسل نے دیکھا تھا۔ رسالت محمدی کی نوعیت سابقہ رسالتوں سے ذرا مختلف ہے۔ آپ خاتم الرسل ہیں۔ تمام نسلوں کے لیے رسول ہیں اور آپ کو جو معجزہ دیا گیا وہ مادی معجزہ نہیں ہے۔ یہ ایسا معجزہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ آنے والی نسلیں بھی اسے دیکھ سکتی ہیں اور اس پر تدبر کرسکتی ہیں اور نسلاً بعد نسل اس پر ایمان لا سکتی ہیں۔ اس لیے اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ آپ کی امت پر ایسا عذاب نازل نہ ہو جس کے ذریعے اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے بلکہ یہ عذاب افراد پر نازل ہو اور یہی صورت اللہ نے ان اقوام کے لیے اختیار کی جن کو کتاب دی گئی تھی۔ کس کتابی قوم کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا گیا لیکن مشرکین مکہ کی حالت یہ تھی کہ وہ نہ تو اس کائنات کے نظام تخلیق اور اس کے لیے اللہ کے تجویز کردہ قانون قدرت کو سمجھتے تھے اور یہ بات سمجھتے تھے کہ اس کائنات کے اندر اللہ نے انسان کو آزادی اور اختیار کے ساتھ کام کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں اور اسے نیک و بد اختیار کرنے کی آزادی ہے اور زمین کی تخلیق اس طرح ہے کہ وہ انسان کی آزادی و ارادہ کے لیے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اپنے اس جہل کی وجہ سے وہ بعث بعد الموت کا انکار کرتے تھے اور اپنی اس جہالت ہی کی وجہ سے وہ پوچھتے تھے کہ اللہ نے ان کی تکذیب اور انکار کے باوجود ابھی تک انہیں ہلاک کیوں نہیں کیا۔ وہ نہ جانتے تھے کہ موجودہ رسالت اور سابقہ رسالتوں کے لیے اللہ نے کیا اصول طے کر رکھے ہیں چناچہ وہ پوچھتے تھے کہ کئی سال گزر گئے اور عذاب نہیں آ رہا ہے۔ یہ لوگ نہ تو اللہ کی حکمت سے واقف تھے اور نہ ہی اللہ کی رحمت سے۔ ان کو معلوم نہ تھا کہ جب یہ عذاب آئے گا تو اسے پھر کوئی بھی پھیر نہ سکے گا بلکہ وہ پوری طرح انہیں گھیر لے گا اور یہ ان کے استہزاء اور بدعملی کی سزا ہوگی ، اور وہ نہایت ہی خود سری کی صورت میں سوالات کر رہے تھے۔ اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ۔ سنو ! جس روز اس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی سنجیدہ فرد اور صاحب ایمان شخص عذاب الہی کے نزول کے مطالبہ میں جلدی نہیں کرتا۔ اگر عذاب الہی نہیں آتا تو اس میں بھی کوئی حکمت ہوگی اور اللہ کی رحمت اس میں مانع ہوگی تاکہ جو لوگ ایمان کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ایمان لے آئیں۔ مثلاً قریش پر اللہ نے عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں کی۔ ان کو مہلت دی جاتی رہی۔ اس عرصے میں بیشمار لوگ ایمان لائے۔ ایمان لا کر پھر انہوں نے اسلام کے لیے کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ اور کفار کے ہاں بھی کئی ایسے بچے پیدا ہوئے جنہوں نے بعد کے ادوار میں اسلام کی خدمات سر انجام دیں۔ یہ اور ایسی ہی دیگر معلوم اور نامعلوم حکمتیں ہوسکتی ہیں ، جو جلد باز لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتیں۔
Top