Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 91
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا١ۚ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ١٘ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰشُعَيْبُ : اے شعیب مَا نَفْقَهُ : ہم نہیں سمجھتے كَثِيْرًا : بہت مِّمَّا تَقُوْلُ : ان سے جو تو کہتا ہے وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَنَرٰىكَ : تجھے دیکھتے ہیں فِيْنَا : اپنے درمیان ضَعِيْفًا : ضعیف (کمزور) وَلَوْ : اور اگر لَا رَهْطُكَ : تیرا کنبہ نہ ہوتا لَرَجَمْنٰكَ : تجھ پر پتھراؤ کرتے وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : تو عَلَيْنَا : ہم پر بِعَزِيْزٍ : غالب
انہوں نے جواب دیا “ اے شعیب (علیہ السلام) تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بےزور آدمی ہے ، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کرچکے ہوتے ، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو
حق بالکل واضح ہے لیکن ان کا سینہ اس کے لیے تنگ ہے ، وہ چاہتے ہی نہیں کہ حق کا ادراک کرسکیں۔ قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ (91 : 11) “ انہوں نے جواب دیا “ اے شعیب تیزی بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں۔ ” یہ کیوں ؟ اس لیے کہ وہ اقدار حیات کا تعین صرف مادی مفادات کے اصولوں کے مطابق کرتے ہیں اور ہر معاملے کے ظاہری پہلو کو دیکھتے ہیں۔ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا (91 : 11) “ اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بےزور آدمی ہے۔ ” یہ لوگ مادی قوت ہی کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس حقیقت اور قوت کا کوئی وزن نہیں ہے جو حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ (91 : 11) “ اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کرچکے ہوتے۔ ” ان کے نزدیک گویا نظریاتی قوت کے مقابلے میں خاندان کی قوت زیادہ اہم ہے۔ دلی جوڑ کے مقابلے میں نسب کا جوڑ زیادہ مضبوط ہے لیکن یہ لوگ دراصل اس بات سے غافل ہیں کہ اللہ اپنے دوستوں پر ، ایک بھائی کے حق میں بھائی کی غیرت سے زیادہ غیور ہے۔ وَمَا أَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ (11 : 91) “ تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو۔ ” یعنی تم ایک بھائی اور معزز آدمی کی حیثیت سے بھی ہم پر غالب نہیں ہو اور نہ ایک طاقتور شخص کی حیثیت سے تمہارا پلہ بھاری ہے ، ہم اگر مجبور ہیں تو خاندانی روابط کی وجہ سے تجھ پر ہاتھ ڈالنے سے مجبور ہیں۔ جب انسان ایک پختہ نظریہ سے محروم ہوجاتا ہے ، اس کے پیش نظر اعلیٰ قدریں اور اعلیٰ روایات نہیں ہوتیں تو وہ زمین پر گر پڑتا ہے ، اس کے ذہن میں اس دنیا کے مفادات ہی اعلیٰ وارفع ہوجاتے ہیں اور وہ دنیاوی قدروں کا گرویدہ ہوجاتا ہے لہذا وہ اس جیسی قیمتی اور بلند دعوت کی قدر نہیں کرتا۔ وہ اعلیٰ حقائق کے ادراک سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی ذہنیت کے لوگ ایسی بلند دعوت پر اگر ہاتھ نہیں اٹھاتے تو بھی محض دنیاوی قوت کے ڈر سے نہیں اٹھاتے۔ ایسے لوگ محض مادی قوت کو خاطر میں لاتے ہیں۔ رہے بلند عقائد ، اعلی خیالات اور بلند اقدار تو یہ وہ چیزیں ہیں جن کی کسی مادہ پرست شخص کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ گرے ہوئے پست لوگوں کی ذہینت ہمیشہ کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ اب حضرت شعیب (علیہ السلام) کی غیری ایمانی جوش میں آتی ہے ، ان سے اللہ رب العالمین کی یہ توہین برداشت نہیں ہوتی وہ اپنی قوم اور کنبے کی مادی قوت سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔ وہ ان کو اس برے انجام کے حوالے کردیتے ہیں جو اس کائنات میں ایسے لوگوں کے لیے مقدر ہوتا ہے اور اللہ کے بارے میں ان کے توہین آمیز رویے کی مذمت کرتے ہیں اور ان کے سامنے ایک آخری اور فیصلہ کن دعوت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں میرا عمل میرا ہے اور تمہارا عمل تمہارا ہے۔ اب وہ ان کو خدائی قوتوں کے حوالے کرتے ہیں اور ان کو صاف صاف بتاتے ہیں کہ تم جیسے لوگوں کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہت بڑا عذاب ہر وقت تیار رہتا ہے لہذا لو اپنا وہ انجام جو تم نے خود اپنے لیے اختیار کیا ہے۔ قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (92) وَيَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ (93) “ شعیب (علیہ السلام) نے کہا “ بھائیو ، کیا میری براداری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور ) اللہ کو بالکل پس پشت ڈال دیا ؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اے میری قوم کے لوگو ، تم اپنے طریقے پر کام کیے جاؤ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا ، جلدڈی ہی تمہیں معلوم ہو جاؤے گا کہ کس پر ذلت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں۔ ”
Top