Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ
: اور کہتے ہیں
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
لَوْ
: کیوں
لَآ اُنْزِلَ
: نہ اتاری گئی
عَلَيْهِ
: اس پر
اٰيَةٌ
: کوئی نشانی
مِّنْ
: سے
رَّبِّهٖ
: اس کا رب
قُلْ
: آپ کہ دیں
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُضِلُّ
: گمراہ کرتا ہے
مَنْ يَّشَآءُ
: جس کو چاہتا ہے
وَيَهْدِيْٓ
: اور راہ دکھاتا ہے
اِلَيْهِ
: اپنی طرف
مَنْ
: جو
اَنَابَ
: رجوع کرے
” یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدی ﷺ کو ماننے سے ) انکار کردیا ہے ، کہتے ہیں : ” اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری “۔۔۔ کہواللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔
آیت نمبر 27 تا 32 ان لوگوں کی تردید کا خلاصہ یہ ہے کہ دلوں کے اندر ایمان پیدا ہونے کا حقیقی سبب وقوع معجزات نہیں ہے۔ ایمان کے داعی اور اسباب خود کسی انسان کے نفس کے اندر موجود ہوتے ہیں اور انسان خود اپنی نفسیاتی کیفیات اور داخلی فطری دواعی کی وجہ سے ایمان لاتا ہے۔ قل ان اللہ۔۔۔۔۔ اناب (13 : 27) ” کہو اللہ جسے چاہتا ہے ، گمراہ کردیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے “۔ لہٰذا اللہ صرف ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف میلان رکھتے ہوں اور ان کا یہ میلان اور انابت الی اللہ کا جذبہ ہی ہے جس نے ان کو اہل ایمان بنایا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کی طرف میلان اور انابت نہیں رکھتے وہی گمراہ ہوتے ہیں ، لہٰذا اللہ بھی ان کو گمراہ کردیتا ہے۔ لہٰذا دلوں کے اندر ہدایت کی استعداد اور پھر طلب ہدایت اور اس راہ میں سعی کرنے سے ہدایت ملتی ہے۔ لیکن جو دل اللہ کی ہدایت کی استعداد ہی سے محروم ہوتے ہیں اور جو اس سمت میں حرکت ہی نہیں کرتے وہ اللہ سے اور ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد مومن دلوں کی ایک نہایت ہی شفاف تصویر کشی کی جاتی ہے۔ یہ تصویر کشی نہایت ہی اطمینان وقرار ، انس و محبت اور مسرت اور بشاشت کے رنگوں میں رنگی ہوئی ہے۔ الذین امنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ (13 : 28) ” وہ جنہوں نے نبی کی دعوت کو مان لیا ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے “۔ ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب سے متعلق ہیں۔ وہ اللہ کے جوار رحمت میں ہیں اور اللہ کے ہاں مامون اور محفوظ ہیں۔ وہ تنہائی کی مشکلات سے بھی مطمئن ہوتے ہیں ، راہ حق کی پریشانیوں میں بھی مطمئن ہوتے ہیں۔ اور وہ تخلیق کائنات ، اس کے آغاز اور انجام کے بارے میں بھی شفاف سوچ رکھتے ہیں اس لیے مطمئن ہوتے ہیں ، وہ ہر ظلم ، ہر شر اور ہر زیادتی سے اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں سمجھتے ہیں اس لیے مطمئن ہوتے ہیں الایہ کہ اللہ کی مشیت سے کوئی مصیبت آجائے تو وہ اس پر بھی راضی ہوتے ہیں اور اسے ابتلا سمجھ کر اس پر صبر کرتے ہیں۔ ہدایت ، رزق ، دنیا و آخرت کی پردہ پوشی کے بارے میں بھی ان کو اللہ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اس لیے وہ مطمئن ہوتے ہیں۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (13 : 28) ” بیشک اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے “۔ اہل ایمان کے دلوں میں اللہ کے ذکر سے جو اطمینان پیدا ہوتا ہے اس کا صحیح علم صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کے دلوں میں ایمان کی بشاشت اور مٹھاس پیدا ہوجائے اور ان کو اللہ کا فضل حاصل ہوجاتا ہے ۔ ایسے لوگ اس ایمانی بشاشت اور طمانیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کو الفاظ کے ذریعہ دوسرے لوگوں تک منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً ایسے لوگوں تک جن کو یہ معرفت حاصل نہ ہو کیونکہ یہ حقائق الفاظ کی گرفت سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ اطمینان دلوں میں سرایت کرتا ہے۔ ان کو سکون اور فرحت دیتا ہے ، ہمت دیتا ہے۔ وہ امن و سلامتی کا شعور پاتے ہیں۔ ایسے اہل معرفت محسوس کرتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں ، ان کو ایک پورا ماحول اپنا دوست اور یار نظر آتا ہے ۔ کیونکہ ان کے اردگرد اللہ کی صنعت کاریاں ہوتی ہیں جبکہ خود صاحب معرفت اللہ ہی کی حمایت میں ہوتا ہے۔ ان لوگوں سے بڑا بد بخت اس روئے زمین پر کوئی نہیں ہے جو تعلق باللہ کی وجہ سے اور ذکر الٰہی کی وجہ سے پیدا ہونے والے انس و محبت سے بیخبر ہوں۔ اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں ہے کہ وہ اس کرۂ ارض کے اوپر چلے پھرے اور اسے اپنے کائناتی ماحول سے کوئی انس و محبت نہ ہو۔ اس سے بڑا کوئی بدبخت نہ ہوگا جو اس دنیا میں چلے پھرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس کا مقصد وجود کیا ہے ؟ وہ کیوں آیا ہے اور کدھر جا رہا ہے ؟ اور اس کے اوپر زندگی کا یہ بوجھ کیوں ڈالا گیا ہے ؟ اور اس سے بدبخت اور کون ہوگا جو اس کرۂ ارض پر چلتا پھرتا ہو اور وہ اپنے ماحول کی ہر چیز سے اس لیے بدکتا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ اس کے اور ہر چیز کے درمیان ایک نہایت ہی لطیف تعلق ہے ؟ اس سے بدبخت اور کون ہوگا جو سفر حیات طے کر رہا ہے لیکن اکیلا ہے ، راندہ ہے ، گم کردہ راہ ہے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں اکیلا پھر رہا ہے اور زندگی کا یہ کٹھن سفر وہ اکیلا بغیر گائیڈ کے ، بغیر انیس سفر کے اور بغیر ہادی و مددگار کے طے کر رہا ہے۔ اور اسے نشان منزل تک معلوم نہیں۔ یاد رکھو ! زندگی کے اس کٹھن سفر میں بعض لمحات ایسے بھی آتے ہیں ، نہایت ہی تاریک گھڑیاں جن کا مقابلہ صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو اللہ کا ہوگیا ہو ، جسے اللہ کی حمایت کا بھروسہ ہو ، ورنہ خواہ کوئی کس قدر طاقتور ، بہادر اور مستقل مزاج کیوں نہ ہو زندگی میں بعض ایسی تاریک گھڑیاں آتی ہیں کہ انسان کی تمام قوتیں جواب دے جاتی ہیں۔ آخری سہارا صرف تعلق باللہ کی قوت اور ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (13 : 28) ” خبردار ! ذکر الٰہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے “۔ یہ لوگ جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور اللہ کے ذکر کی وجہ سے مطمئن ہیں ، اللہ کے ہاں ان کا انجام بہت ہی اچھا ہوگا کیونکہ انہوں نے اچھا طرز عمل اختیار کیا اور وہ اللہ کے مطیع فرمان رہے۔ الذین امنوا۔۔۔۔۔۔ ماب (13 : 29) ” جن لوگوں نے دعوت حق کو قبول کیا اور نیک عمل کئے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لئے اچھا انجام ہے۔ طوبیٰ طاب یطیب سے ہے بوزن کبریٰ ۔ یہ صیغہ تفخیم اور تعظیم کے لئے آتا ہے یعنی ان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ ان کا اچھا انجام اس خدا کے ہاں ہوگا جس کے وہ اپنی زندگی میں مطیع فرمان رہے۔ وہ لوگ جو معجزات طلب کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو ایمان اطمینان کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ذہنی خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی اس ذہنی پریشانی کو دور کرنے کے لئے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اے پیغمبر آپ کسی قوم میں آنے والے پہلے رسول نہیں ہیں کہ ان لوگوں کے لئے یہ معاملہ ناقابل فہم ہوگیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی اقوام گزری ہیں اور کئی رسول گزرے ہیں۔ اگر یہ لوگ کفر پر تل گئے ہیں تو آپ اپنے منہاج پر کام کرتے رہیں اور اللہ پر بھروسہ کریں۔ کذلک ارسلنک ۔۔۔۔۔۔ والیہ متاب (13 : 30) ” اے نبی اسی شان سے ہم نے تم رسول بنا کر بھیجا۔ ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں تا کہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت ہی مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا طجا وماویٰ ہے “۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ رحمٰن کا کفر کرتے ہیں جس کی رحمت بہت ہی بڑی ہے۔ جس کے ذکر سے دل مطمئن ہوجاتے ہیں اور اس کی عظیم رحمت کا شعور ان میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اے پیغمبر آپ کی ڈیوٹی تو صرف یہ ہے کہ جو وحی آپ کی طرف آتی ہے آپ ان لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ آپ کے بھیجنے کا مقصد ہی یہ ہے ۔ اگر وہ کفر کے ارتکاب پر تل گئے ہیں تو اعلان کردیں کہ میرا بھروسہ تو صرف اللہ وحدہ پر ہے اور یہ کہ میں اسی کی طرف لوٹنے والا ہوں اور کسی اور کی طرف پناہ لینے کے لئے مجھے رجوع نہیں کرنا ہے۔ ہم نے آپ کو صرف یہ ڈیوٹی دی ہے کہ آپ قرآن کی دعوت لوگوں تک پہنچا دیں۔ یہ قرآن پڑھیں ، بذاب خود یہ کتاب اور یہ کلام بہت ہی عجائب اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر کسی قرآن کے ذریعہ پہاڑ چلائے جاتے ، یا زمین کے ٹکڑے کر دئیے جاتے ، یا اس کے ذریعہ مردے باتیں کرنے لگتے تو یہ باتین اس قرآن میں بھی ہوتیں اور اس کے ذریعے یہ مذکور معجزات ظہور پذیر ہوتے لیکن قرآن (ہر کتاب الٰہی) تو اس لیے نازل کیا جاتا ہے کہ عوام کو ان کی ڈیوٹیاں اور ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے ۔ اگر یہ مخاطبین اب کفر کرنے پر تل گئے ہیں اور ہرگز مان کر نہیں دیتے تو وقت آگیا ہے کہ مومنین ان سے مایوس ہوجائیں اور ان کو چھوڑ دیں کہ مکذبین کے ساتھ اللہ کا جو سلوک ہوتا ہے وہ آجائے۔ ولو ان قراناً ۔۔۔۔۔۔ یخلف المیعاد (13 : 31) ” اور کیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین شق ہوجاتی ، یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے ؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے ) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کیا اہل ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ) مایوس نہیں ہوگئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے ، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن مجید کو قبول کیا اور اس کی کیفیات میں ڈوب گئے اس نے ان کے اندر اس قدر انقلاب برپا کردیا کہ پہاڑوں کے چلائے جانے ، زمین کے شق ہونے اور مردوں کے زندہ ہونے سے وہ بڑا معجزہ تھا۔ ان مذکور معجزات سے بھی ان لوگوں کی زندگیوں میں دور رس تبدیلی ہوئی اور بڑے معجزات رونما ہوئے۔ ان کی زندگی کی قدریں بدل دی گئیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں نے خود اس زمین کے چہرے کو بھی بدل کر رکھ دیا اور اسلام اور مسلمانوں نے اس کرۂ ارض کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ اس قرآن کی اثر آفرینی ، اس کی ذات اور طرز ادا میں ، اس کی دعوت اور فلسفے میں اس کے موضوعات کلام اور طرز کلام میں بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے۔ اس کے اندر کسی بڑے سے بڑے معجزے کے مقابلے میں بہت بڑی تاثیر ہے۔ اور اس کی اس معجزانہ شان سے وہی شخص واقف ہے جو ان معالی اور فلسفوں اور انداز تعبیر اور اسالیب کلام سے واقف ہو۔ اور ان کو ان چیزوں کے سمجھنے کی ذہنی قوت مدرکہ حاصل ہو۔ جن لوگوں نے اسے سمجھا ، اس پر عمل کیا اور اس کی کیفیات اور اس کے انوار میں ڈوبے انہوں نے پہاڑوں کے چلانے سے بھی بڑے معجزے کر دکھائے۔ قرآن مجید کے اثرات کے نتیجے میں تو اقوام اور نسلوں کے حالات اور سوچ کے دھارے بدل گئے۔ انہوں نے ان چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جو زمین کے مقابلے میں زیادہ سخت تھیں۔ فکری جمود اور رسم و رواج کا وہ جمود جو قرآن اور مسلمانوں نے توڑا وہ زمین اور پتھروں سے کہیں زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے ایسی اقوام کو زندہ کیا جو مردوں سے زیادہ مردہ تھیں۔ زندہ ہو کر بھی مردہ تھیں ، وہ اقوام جن کی روح کو وہم اور گمان نے قتل کردیا تھا۔ وہ بتان وہم و گمان کے پجاری تھے۔ عربوں کے اندر جو انقلاب رونما ہوا ، ان کی زندگی کے اندر جو تبدیلی نمودار ہوئی اور اس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں یہ کہ انقلاب صرف اور صرف قرآن کی وجہ سے آیا جس نے ان کی زندگی کا منہاج ہی بدل کر رکھ دیا تو کیا یہ انقلاب پہاڑوں کے چلنے ، زمین کے ٹکڑے ہونے اور مردوں کے گویا ہونے سے کوئی کم انقلاب تھا۔ بل للہ الامر جمیعاً (13 : 31) ” بلکہ سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے “۔ وہی ہے ، جو تحریک کی نوعیت کو اختیار کرتا ہے اور وہی ہے جو تحریک کے لئے وسائل اور ذرائع اختیار کرتا ہے۔ اگر اس قرآن کو سن کر بھی کسی قوم کے دلوں میں حرکت اور ولولہ پیدا نہیں ہوتا تو اہل ایمان جو ابھی ایسے دلوں کو حرکت میں لانے کی سعی کر رہے ہیں ان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے مایوس ہوجائیں ۔ ان کے معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیں۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کے اندر ہدایت کی استعداد پیدا کردیتا۔ اور انسانوں کو بھی اسی طرح ہدایت کی جبلت پر تخلیق کردیتا جس طرح فرشتوں کو اس نے ہدایت پر پیدا کیا ہے۔ یا لوگوں کو مجبور کر کے ہدایت کی راہ پر چلا دیتا لیکن اللہ نے انسانوں کے بارے میں نہ خیر کی اسکیم تیار کی اور نہ فرشتوں جیسی جبلت ان کو دی ۔ کیونکہ اللہ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اللہ کو معلوم تھا کہ انسان اس مقصد کے تقاضے کس طرح پورے کرسکتا ہے۔ لہٰذا چاہئے کہ لوگوں کو اب اللہ کے فیصلوں پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر اللہ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ ان اقوام عرب کو اس طرح نیست و نابود نہ کرے گا جس طرح بعض اقوام کو ہلاک کیا گیا تھا تو ان پر کوئی نہ کوئی مصیبت آتی ہی رہتی ہے۔ یا ان کے گھروں کے قریب آتی رہتی ہے ۔ اور یہ لوگ وقتاً فوقتاً اللہ کے عذابوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے بعض ان مصائب میں ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔ او تحل قریباً من دارھم (13 : 31) ” یا ان کے گھروں کے قریب نازل ہوتی ہے “۔ جس سے وہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور پھر وہ نہایت ہی قلق اور خوف سے انتظار کرتے ہیں کہ کہیں اس جیسی مصیبت دوبارہ نہ آجائے۔ بعض لوگ نرم بھی ہوجاتے ہیں ، ان میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے اور ان کو حقیقی زندگی مل جاتی ہے۔ حتی یاتیی وعداللہ (13 : 31) ” یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور ہر شخص اس دن اس انجام سے دوچار ہونے والا ہے جس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ اس بات کی مثالیں انسانی تاریخ میں موجود ہیں کہ اللہ مہلت دیتا ہے لیکن مہلت اور انتظار کے بعد اللہ کی پکڑ بھی آجاتی ہے۔ ولقد استھزیء۔۔۔۔۔۔ عقاب (13 : 32) ” اور تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی “ ۔ یہ ایک سوال ہے جس کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ عذاب ایسا رہا ہے کہ نسلیں اس کا چرچا کرتی رہیں۔ دوسرا مسئلہ شرکاء کا ہے۔ سورة کے حصہ اول میں بھی اسے چھیڑا گیا تھا۔ یہاں بھی ان بیچارون کا ذکر نہایت ہی حقارت آمیز انداز میں کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ کے ساتھ ان کا تقابل یوں کیا جاتا ہے کہ اللہ تو ہر تنفس پر قائم ہے ۔ وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور جو لوگ اللہ پر یہ افتراء باندھتے ہیں کہ اس کے شریک ہیں ان کو اس دنیا میں بھی سزا دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی سزا دی جاتی ہے اور آخرت تو بہت ہی شدید ہے۔ جبکہ اہل تقویٰ کے لئے امن و سلامتی انتظار کر رہی ہے۔
Top