Fi-Zilal-al-Quran - Ibrahim : 19
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہ دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَاْتِ : اور لائے بِخَلْقٍ : مخلوق جَدِيْدٍ : نئی
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے ؟ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔
آیت نمبر 19 تا 20 ایمان اور کفر کے موضوع سے اور رسولوں اور جاہلیتوں کے مقابلے کے مضمون سے اب بات زمین و آسمان کے مناظر کی طرف آجاتی ہے۔ قرآن کے اسلوب کے مطابق اس انداز میں روئے سخن کا پھرجانا ایک طبیعی امر ہے اور انسانی شعور میں بھی یہ تبدیلی یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ اسلامی نظام حیات اور قرآنی اسلوب ایک ایمانی اور خدائی اسلوب ہے اس لیے کہ فطرت انسانی اور روح کائنات کے درمیان ایک خاص زبان کے ذریعہ پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت ، خلوت کائنات کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتی ہے ، انسان جونہی اس کائنات کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ اس سے اثرات اور پیغامات وصول کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ لوگ جو اس کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر بھی ان کی فطرت ، فطرت کائنات کے اشارات اور پیغامات اخذ نہیں کرتی ، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی فطرت کی مشین بگڑ گئی ہے اور اس مشین کا ریسیور خراب ہوگیا ہے ، ان کے باطنی حواس خراب ہوگئے ہیں۔ اس طرح جس طرح آنکھ اندھی ہوجاتی ہے ، کان بہرے ہوجاتے ہیں ، زبان گونگی ہوجاتی ہے ، پرزے موجود ہیں مگر کام نہیں کرتے۔ ایسے افراد جن کی فطرت کے اہم پرزے خراب ہوگئے ہوں وہ اس دنیا کی قیادت کے بہرحال اہل نہیں رہتے۔ وہ تمام لوگ اس کیٹگری میں آتے ہیں جن کی سوچ پر مادیت چھا گئی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو سائنس دان کہتے ہیں ۔ اور اپنے اوپر دانشوری کا غلط اطلاق کرتے ہوں۔ اس لیے کہ علم و دانش انسانی فطرت کو معطل نہیں کرتے۔ اور انسان کو روح کائنات سے کاٹتے نہیں بلکہ جوڑتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو قرآن اندھا ، گونگا اور بہرہ کہتا ہے اور انسانی زندگی کی قیادت اگر اندھوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ کبھی درست نہیں ہو سکتی۔ زمین و آسمان کی تخلیق میں عظیم قدرت اور مضبوط نظم کے اشارات ہیں۔ سچائی اور حق نہایت مضبوط ہے۔ اپنے مفہوم میں بھی اور لفظ “ حق ” کے تلفظ میں بھی قوت ہے۔ یہ حق چٹان کی طرح ٹھوس نظر آتا ہے جس طرح طوفانی ہوا میں اڑنے والی باطل کی راکھ نظر آتی ہے۔ جو دور تک صحراؤں میں اڑتی نظر آتی ہے اور ناپید ہوجاتی ہے۔ تحریک اسلامی کے معاندین کو اس فضا میں سخت دھمکی دی جاتی ہے۔ ان یشا یذھبکم ویات بخلق جدید (14 : 19) “ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے ”۔ اور جو ذات زمین و آسمان پیدا کرسکتی ہے وہ اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ انسانوں کے مقابلے میں کوئی دوسری ہی مخلوق لے آئے۔ یا کسی ایک قوم کو زمین کی قیادت سے ہٹا کر کسی دوسری قوم کو لے آئے۔ اقوام کا منصہ شہود سے یوں غائب ہوتے چلے جانے کے معانی اس منظر کے ساتھ پوری طرح متفق ہیں جس میں کفار کے اعمال راکھ کی طرح آندھی میں دوڑتے نظر آتے ہیں اور نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز (14 : 20) “ ایسا کرنا اس اللہ پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے ” اور اس پر زمین و آسمان کی تخلیق شاہد ہے۔ پھر انسانی تاریخ میں اقوام جس طرح مٹتی رہی ہیں اور ایک کا زوال اور دوسری کا عروج سامنے آتا رہا ہے۔ یہ بھی اس پر گواہ ہے ۔ جس طرح ایک طوفان آسانی سے راکھ کو اڑا دیتا ہے ، یہ کام اس سے بھی اللہ کے لئے آسان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کیا ہی اعجاز ہے ، قرآن کریم کا جس میں مناظر اور تصاویر اور معانی ہم آہنگ ہیں اور کلام نہایت ہی متناسب ہے۔ الفاظ ، معانی اور مناظر کے اعتبار سے۔ اب ہم فنی تصویر ، خوبصورت طرز ادا اور متناسب اسلوب اظہار کے ایک دوسرے افق کے سامنے آجاتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے تو ہماری آنکھ جباروں اور ڈکٹیٹروں کی بربادی کا منظر دیکھ رہی تھی۔ اس دنیا ہی میں ہر ڈکٹیٹر ذلیل ہو کر رہا۔ اس کا منظر اسکرین پر تھا کہ اس کے پیچھے ایک خیال بھی منظر پر آگیا جس میں قیامت میں اس کا حشر دکھایا گیا تھا۔ حالانکہ وہ ابھی دنیا ہی میں ذلیل ہو رہا تھا۔ اب ہمارے سامنے ان ڈکٹیٹروں کا حشر میدان حشر میں نظر آرہا ہے۔ ان کا یہ منظر اب انسانیت کی عظیم کہانی کے مناظر کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آرہا ہے۔ یہ شاید آخری منظر ہے۔ لیکن یہ منظر قیامت کے نہایت ہی عجیب اور دلچسپ مناظر میں سے ایک ہے ، جو تاثرات اور حرکات سے بھر پور ہے۔ اور جس کے اندر گمراہوں اور گمراہ کرنے والے بااثر لوگوں اور شیطان کے درمیان بھر پور مکالمے ہیں۔ ذرا قرآن کے الفاظ میں دیکھئے :
Top