Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Ibrahim : 21
وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَیْنٰكُمْ١ؕ سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَجَزِعْنَاۤ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ۠ ۧ
وَبَرَزُوْا
: اور وہ حاضر ہونگے
لِلّٰهِ
: اللہ کے آگے
جَمِيْعًا
: سب
فَقَالَ
: پھر کہیں گے
الضُّعَفٰٓؤُا
: کمزور (جمع)
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں سے جو
اسْتَكْبَرُوْٓا
: بڑے بنتے تھے
اِنَّا كُنَّا
: بیشک ہم تھے
لَكُمْ
: تمہارے
تَبَعًا
: تابع
فَهَلْ
: تو کیا
اَنْتُمْ
: تم
مُّغْنُوْنَ
: دفع کرتے ہو
عَنَّا
: ہم سے
مِنْ
: سے
عَذَابِ اللّٰهِ
: اللہ کا عذاب
مِنْ شَيْءٍ
: کسی قدر
قَالُوْا
: وہ کہیں گے
لَوْ
: اگر
هَدٰىنَا
: ہمیں ہدایت کرتا
اللّٰهُ
: اللہ
لَهَدَيْنٰكُمْ
: البتہ ہم ہدایت کرتے تمہیں
سَوَآءٌ
: برابر
عَلَيْنَآ
: ہم پر (لیے)
اَجَزِعْنَآ
: خواہ ہم گھبرائیں
اَمْ
: یا
صَبَرْنَا
: ہم صبر کریں
مَا لَنَا
: نہیں ہمارے لیے
مِنْ مَّحِيْصٍ
: کوئی چھٹکارا
اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بےنقاب ہوں گے تو اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے ، وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے ، کہیں گے “ دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے ، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو ؟” وہ جواب دیں گے “ اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع و فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ”۔
آیت نمبر 21 تا 22 دعوت اسلامی اور داعیان حق کی یہ داستان ، اور جھٹلانے والوں اور ڈکٹیٹروں کی یہ کہانی اب اس دنیا کے اسٹیج سے آخرت کے اسٹیج پر منتقل ہوگئی ہے اور نہایت ہی دلچسپ منظر ہے۔ وبرزوا للہ جمیعاً ( 14 : 21) “ اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بےنقاب ہوں گے ”۔ یہ سرکش ڈکٹیٹر بھی کھڑے ہیں۔ اللہ کے سامنے اور ان کے کمزور کردار والے متبعین بھی کھڑے ہیں جنہوں نے ذلت اور کمزور کا کردار پسند کرلیا تھا ۔ شیطان بھی ایک طرف کھڑا ہے۔ دوسری جانب وہ لوگ بھی کھڑے ہیں جو رسولوں پر ایمان لائے تھے اور نیک کام کرتے تھے ۔ یہ سب اب ایک میدان قیامت میں ہیں ، کھلے میدان میں ۔ اللہ کے لئے تو یہ پہلے بھی ظاہر و باہر تھے لیکن آج وہ خود اپنے احساس و شعور میں اپنے آپ کو ننگا اور بےحجاب محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ میدان حشر میں کوئی پردہ اور اوٹ نہیں ہے۔ یہ میدان بھرا ہوا ہے ، پردہ اٹھتا ہے اور مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ فقال الضعفوا ۔۔۔۔۔۔ من شییء (14 : 21) “ اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے ، وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے ، کہیں گے “ دنیا میں تم تمہارے تابع تھے ، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو ؟” بودے کردار کے کمزور لوگ بہرحال کمزور ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس اعلیٰ انسانی دولت سے دستبردار ہوجاتے ہیں جو اللہ نے ہر انسان کو دی ہے۔ وہ آزادی کی دولت ہے ، آزادی رائے ہے ، آزادی دین اور نظریہ اور حریت عمل ہے۔ ان لوگوں نے اپنی مرضی سے اپنی آزادی کو ترک کر کے غلامی اختیار کرلی ہے اور سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کے غلام بن گئے ہیں ۔ یہ غیر اللہ کے بندے اور غلام بن گئے ہیں اور اللہ کی غلامی کی بجائے انہوں نے انسانوں کی غلامی اختیار کرلی ہے ، لیکن اسلام میں ضعیفی کوئی معقول عذر نہیں ہے بلکہ ضعیفی ایک جرم ہے ، اللہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کا غلام بن جائے وہ تو انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ باعزت زندگی اختیار کرو ، میری عزت کرو ، میری پناہ میں آجاؤ۔ اللہ نے ہر انسان کو آزاد اور مکرم بنایا ہے اور اسے یہ اجازت نہیں ہے کہ اپنی آزادی کو بیچ دے ، یا کسی بڑی سے بڑی مادی قوت کے سامنے سپر انداز ہوجائے چاہے وہ بہت بڑی قوت کیوں نہ ہو۔ کسی بھی قوت کو اللہ یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنا کے رکھے۔ اسلام میں ہر انسان کی آزادی اور عزت کا احترا ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی مادی قوت بھی صرف انسانی جان اور جسم کا تعلق ختم کرسکتی ہے۔ تشدد اور اذیت دے سکتی ہے لیکن کسی کی آزاد سلب نہیں کرسکتی۔ انسانی ضمیر ، انسانی روح اور انسانی عقل پر کوئی ڈکٹیٹر حکومت نہیں کرسکتا ، نہ عقل ، روح اور ضمیر کو کوئی قید کرسکتا ہے ، ضمیر اور روح ، اور عقل اور حریت سے ایک انسان خود دستبردار ہوا کرتا ہے۔ پھر وہ ذلیل ہو کر مستضعفین میں داخل ہوجاتا ہے۔ اپنے عقائد ، نظریات ، افکار اور طرز عمل میں کسی ضعیف سے ضعیف آدمی کو کوئی انسان سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کے تابع نہیں بنا سکتا۔ کوئی شخص بھی کسی ضعیف سے ضعیف آدمی کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ کسی سرکش اور ڈکٹیٹرکا دین قبول کرلے ، کیونکہ اللہ خالق و رازق موجود ہے جو سب کا کفیل و ذمہ دار ہے۔ صرف ضعیف لوگ خود اپنی خوشی سے یہ کام کرتے ہیں ، یہ خود ضعیف بن گئے ، ان کی قوت اور کسی سرکش اور ڈکٹیٹر کی قوت برابر ہے۔ جاہ و مرتبہ اور مال و منال کے اعتبار سے یہ مستضعفین ڈکٹیٹر کے برابر ہوتے ہیں۔ کسی ڈکٹیٹر کا مرتبہ اور منصب کسی کو ضعیف نہیں بنا سکتا بلکہ یہ ذہنی طور پر بودے کردار کے لوگ ہوتے ہیں ، اپنے ایمان اور روح کے اعتبار سے یہ کمزور لوگ ہوتے ہیں ، بےعزت اور آبرو باختہ لوگ ہوتے ہیں اور اپنی آزادی اور عزت کو معمولی مفادات کے لئے بیچ دینے والے لوگ ہوتے ہیں جو جھکتے ہیں حالانکہ عزت و آبرو اور آزادی انسان کا نہایت قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان بودے لوگوں کی ایک بھیڑ ہے اور سرکش اور ڈکٹیٹر چند ایک ہیں۔ آخر یہ بھیڑ کیوں چند لوگوں کی غلامی اختیار کرتی ہے ، دراصل ان عوام میں ہمت نہیں ہوتی ، یہ روحانی اعتبار سے شکست خوردہ ہوتے ہیں۔ ان کے اندر حمیت نہیں ہوتی ، عزت نفس نہیں ہوتی اور یہ روحانی اور داخلی طور پر ان ڈکٹیٹروں کے سامنے شکست کھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ڈکٹیٹر جمہور عوام کو صرف ان کی مرضی ہی سے ذلیل کرتا ہے۔ اگر عوام اٹھ کھڑے ہوں تو ان کے سامنے کوئی ڈکٹیٹرکھڑا نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہ صورت حال خود عوام کے کمزور ارادے کی وجہ سے ہے۔ کسی انسان پر ذلت تب ہی طاری ہوتی ہے ، جب اس کے اندر ذلیل ہونے کی صلاحیت ہو ، ڈکٹیٹر ہمیشہ عوام کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب ذرا کمزوروں کی ذہنیت کو دیکھو کہ قیامت کے دن وہ کس انداز سے پیش آتا ہے ، ان کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہایت بودے کردار کے مالک تھے اور ہیں۔ ان کنا لکم ۔۔۔۔۔۔ من شییء (14 : 21) “ دنیا مین ہم تمہارے تابع تھے ، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو ؟” یہ تمہاری تابع داری ہی ہمیں اس انجام تک لے آئی ہے جو بہت ہی المناک انجام ہے۔ یا ان کا مقصد فقط یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کا عذاب تو دیکھ لیا ہے ، اب یہ ان مستکبرین کی سرزنش کرنا چاہتے ہیں کہ تمہاری قیادت اور راہنمائی یہ رنگ لاتی ہے ، اب آگے بڑھو اس عذاب کے لئے۔ بہرحال ان کا مطلب جو بھی ہو ، ہر حال میں ان کی ذلت پر بھی دلالت کرتا ہے اور منکرین کا جواب۔ قالوا لو ھدنا ۔۔۔۔۔ من محیص (14 : 21) “ وہ جواب دیں گے ، اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع و فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے لیے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے ”۔ یہ بادل ناخواستہ ایک دو ٹوک جواب ہے ، “ اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے ”۔ اب ہمیں کیوں ملامت کرتے ہو ، ہماری راہ بھی ایک ہے اور انجام بھی ایک ہے ، آخر ہم کب راہ نجات پر چلے کہ تم کو گمراہ کردیا۔ اگر ہمیں ہدایت نصیب ہوتی تو تم بھی ہمارے ساتھ راہ ہدایت پر ہوتے ، جس طرح ہماری گمراہی نے تمہیں گمراہ کیا۔ اب قیامت میں یہ لوگ اپنی ہدایت اور ضلالت کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اب تو یہ اللہ کی کبریائی کو تسلیم کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان لاتے ہیں حالانکہ دنیا میں یہ ان ضعفاء پر اس طرح دست درازیاں کرتے تھے کہ گویا ان سرکشوں سے کوئی پوچھنے والا جباروقہار ہے ہی نہیں۔ اب یہاں وہ ہدایت و ضلالت کو اللہ کی طرف منسوب کر کے اس کی ذمہ داری سے بچنا چاہتے ہیں ، حالانکہ اللہ نے تو ان کو یہ حکم نہ دیا تھا کہ تم گمراہ ہوجاؤ ؟ ان اللہ لا یامر بالفحشاء “ اللہ لوگوں کو فحاشی کا حکم نہیں دیتا ”۔ لیکن در پردہ یہ ان کمزور فطرت لوگوں کو ملامت بھی کرتے ہیں ، ان کا مطلب یہ ہے کہ اب جزع و فزع سے فائدہ نہیں ، نہ صبر کرنے سے فائدہ ہے۔ عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے ، صبر سے یا جزع و فزع سے یہ تو ٹلنے کا نہیں۔ اب تو بہ کا دروازہ بند ہے۔ اگر یہ کھلا ہوتا تو گمراہ لوگ فریاد کر کے ہدایت پر آسکتے تھے ، اگر دنیا میں کوئی سختی ہوتی اور تم صبر کرتے تو بھی اللہ کی رحمت کی امید تھی۔ اب تو مہلت ختم ہے اور عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ سواء علینا اجزعنا ام صبرنا ما لنا من محیص (14 : 21) “ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع و فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے لیے بچنے پر ایک تعجب انگیز کردار آتا ہے۔ شیطان نمودار ہوتا ہے ، جو گمراہی کا داعی اور سرکشی کا حدی خواں ہے۔ یہ اسٹیج پر زاہدوں کے جبے میں آتا ہے۔ کاہنوں کی طرح نمودار ہوتا ہے ، اور دونوں فریقوں پر اپنے شیطانی غرور کا اظہار کرتا ہے اور ان کو ایسا چرکہ لگاتا ہے کہ یہ زبانی زخم شاید عذاب جہنم سے بھی کڑوا ہے۔ وقال الشیطن لما ۔۔۔۔۔۔ لھم عذاب الیم (14 : 22) “ اور شیطان کہے گا “ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا ۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو ، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریادرسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لئے دردناک سزا یقینی ہے ”۔ خدا کی پناہ ، حقیقت یہ ہے کہ شیطان درحقیقت شیطان ہے۔ اس منظر میں یہ مکمل فارم میں ہے جس طرح مستکبرین ڈکٹیٹر اور مستضعفین بودے کردار کے لوگ اپنی صحیح فارم میں ہیں۔ یہ وہی شیطان ہے جو سینوں کے اندر وسوسہ اندازیاں کیا کرتا تھا ، لوگوں کو بدکرداریوں اور گناہوں کے لئے دھوکے دیتا تھا ، کفر کو لوگوں کے لئے مزین بناتا تھا۔ دعوت اسلامی کے سننے سے لوگوں کو روکتا تھا ، آج وہ انہیں نہایت ہی نیش زنی اور طعنہ زنی اور دردناک مزاح سے کہتا ہے کہ تمہاری اپنی غلطی ہے۔ اب یہ بھی اس کے بیان کردہ حقائق کا کوئی جواب نہیں دے سکتے کیونکہ وہ جو کچھ کہتا ہے اس کے مطابق تو آخری فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب تو وہ سچی بات کہتا ہے لیکن بعد از وقت ۔ ان اللہ وعدکم وعد الحق ووعدتکم فاخلفتکم (14 : 22) “ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی پورا نہ کیا ”۔ اس کے بعد شیطان ایک نیا طعنہ دے کر انہیں چرکا لگاتا ہے کہ کیوں تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ، مجھے تم پر کوئی اقتدار تو حاصل نہ تھا۔ صرف یہ بات تھی کہ تم لوگوں نے اپنی شخصیت کو بھلا دیا ہے میرے اور تمہارے درمیان جو دشمنی تھی اس کو نظر انداز کردیا۔ اور تم نے میری غلط دعوت کو قبول کرلیا۔ اور انبیاء کی سچی دعوت کو ترک کردیا۔ وما کان لی ۔۔۔۔۔ فاستجبتم لی (14 : 22) “ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ”۔ اس کے بعد وہ انہیں مزید شرمندہ کرتا ہے اور کہتا ہے مجھے ملامت نہ کرو بلکہ تم خود قابل سرزنش ہو کہ تم نے میری اطاعت کی۔ فلا تلومونی ولو موا انفسکم (14 : 22) “ اب مجھے ملامت نہ کرو ، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو ”۔ اب وہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور ان سے دستکش ہوجاتا ہے ، حالانکہ خود اس نے ان کے ساتھ وعدے کئے تھے اور ان کو امیدیں دلائی تھیں ، اور ان کے دل میں وسوسے ڈالے تھے کہ تمہارا کچھ بھی نہ بگڑے گا۔ اب جبکہ وہ فریاد کر رہے ہیں تو ان کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے۔ اور اگر وہ ان سے فریاد کرے تو وہ بھی کوئی مدد اس شیطان کی نہیں کرسکتے۔ ما انا بمصر خکم وما انتم بمصرخی (14 : 22) “ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں ، نہ تم میری ” ۔ اب تو ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی تعلق اور کوئی دوستی نہیں ہے۔ اب وہ اس بات سے اپنی براءت کا اعلان کرتا ہے کہ تم نے مجھے اللہ کا شریک بنایا۔ صاف صاف انکار کرتا ہے کہ میں نے تو ایسا نہیں کہا۔ انی کفرت بما اشرکتمون من قبل (14 : 22) “ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہو ”۔ شیطان اپنی تقریر ایک ایسی بات پر ختم کرتا ہے جو اس کے دوستوں کے لئے سخت حوصلہ شکن ہے۔ ان الظلمین لھم عذاب الیم (14 : 22) “ ایسے ظالموں کے لئے تو دردناک سزا یقینی ہے ”۔ یہ دیکھو شیطان کا کردار ! یہی تو ہے جو ان کو گمراہی کی طرف بلا رہا تھا اور وہ اس کے کہنے پر گمراہ ہوگئے تھے۔ ان کو رسول خدا کی طرف بلا رہے تھے اور ان لوگوں نے رسولان کی ایک نہ مانی۔ انکار کردیا۔ قبل اس کے کہ اس منظر پر پردہ گرجائے دوسری طرف سے ایک اہل ایمان کا گروپ نمودار ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آج قیامت کے دن سر خرو ہوگئے ہیں۔ ان کی نجات کا فیصلہ ہوگیا ہے۔
Top