Fi-Zilal-al-Quran - Ibrahim : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں ،
آیت نمبر 24 تا 27 کلمہ طیبہ کی مثال اچھے درخت کی دی گئی ہے جو ہر وقت پھل دیتا ہے ، پھلتا پھولتا ہے ، اور کلمہ خبیثہ کی مثال بیکار جڑی بوٹیوں کی ہے ، جن کو کسان جہاں دیکھتا ہے بیکار اور مضر سمجھتے ہوئے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ کسی جگہ اس کے لئے قرار نہیں ہے۔ یہ تمثیل اور تمثیلی منظر انبیاء اور سرکش اور ڈکٹیٹروں کے قصے سے لیا گیا ہے۔ اس قصے میں انبیاء اور داعیوں کا جو انجام بتایا گیا ہے اور جھٹلانے والے سرکشوں کا جو انجام بتایا گیا ہے یہ تمثیل اس پر مبنی ہے۔ سلسلہ انبیاء ایک شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ یہ درخت تاریخ کے مختلف موسموں میں اپنا پھل دیتا رہا ہے ، کسی نہ کسی دور میں کوئی نہ کوئی نبی آیا ہے اور وہ اصلاح ، دعوت اور ایمان کا پھل دیتا رہا ہے جس میں بھلائی اور اچھی زندگی کا سامان فراہم ہوتا رہا ہے۔ لیکن یہ تمثیل اس سورة کی فضا اور اس قصے کی فضا کے ساتھ متناسب ہونے کے ساتھ ساتھ مطالب و معانی کا نہایت وسیع آفاق رکھتی ہے اور اس کے اندر گہرے حقائق ہیں۔ کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ حق ہے ، جو ایک مفید اور اصل دار درخت کی طرح ہوتا ہے ، یہ حق مستحکم ، ٹھوس اور مفید ہوتا ہے۔ زمانے گزر جاتے ہیں لیکن یہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ باطل کی طوفانی ہوائیں اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتیں اور ظلم و سرکشی کے کدال اسے اکھاڑ نہیں پھینک سکتے۔ اگرچہ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ ظلم اور سرکشی کے سخت طوفان اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ یہ درخت نہایت بلند ہوتے ہیں اور ان کی شاخیں فضاؤں میں بڑی دور تک جاتی ہیں۔ یہ سرکشی اور ظلم پر بڑی بلندی سے حقارت آمیز نظر ڈالتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ شر اس کا بلند فضاؤں میں بھی مقابلے کر رہا ہے لیکن اس درخت کا پھل آتا ہی رہتا ہے ، پھر اس درخت کی تخم ریزی صالح انسانوں کے دلوں میں ہوتی اور اس کی پود لگتی ہی رہتی ہے اور یہ نسلاً بعد نسل بڑھتا ہی رہتا ہے۔ باطل جو کلمہ خبیثہ ہوتا ہے۔ یہ بےکار جھاڑی اور بوٹی کی طرح ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ جھاڑیاں بھی بہار دکھاتی ہیں اور گھنے جنگلات کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور بعض لوگ اس سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید باطل کا درخت حق سے بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس کی جڑیں نہیں ہوتیں۔ معمولی طاقت صرف کرنے سے اسے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ جس طرح فصل سے جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ لیا جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھے لوگ اسے اکھاڑ پھینکتے ہیں اس لیے وہ قرار و بقا سے محروم ہوتا ہے کیونکہ ہوتا ہی خبیث ہے۔ یہ محض ایک مثال یا ضرب المثل ہی نہیں ہے ، نہ کوئی ایسی بات ہے جس کے ذریعہ نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ، بلکہ یہ تمثیل زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اس حقیقت کے ظاہر ہونے میں دیر لگتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سچائی اور بھلائی کو کبھی بیخ دین سے نہیں اکھاڑ کر پھینکا جاسکتا اور نہ یہ سچائی کبھی مرتی یا نابود ہوتی ہے اگرچہ شر کی گرفت سخت ہو اور شر اس کی راہ روک رہا ہو۔ اسی طرح خالص شر بھی دنیا میں پھلتا پھولتا نہیں۔ دراصل وہ اپنے ساتھ خیر کا کوئی حصہ ملاتا ہے ، اور جب اس شر کے ساتھ ملائے ہوئے خیر کے عناصر ختم ہوجاتے ہیں تو پھر شر اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ بڑی قوت اور عظیم طاقت نظر آتا ہے ہو۔ بہرحال اصل حقیقت یہ ہے کہ خیر ہی خیرت سے ہوتا ہے اور شر ہمیشہ مشکلات سے دوچار ہوتا ہے۔ ویضرب اللہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون (14 : 25) “ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں ”۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جو زمین پر حقیقت کی شکل میں موجود ہیں۔ لوگ ان پر نظر نہیں ڈالتے ، قرآن صرف لوگوں کو متوجہ کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ تذکرہ ہے۔ شجرۂ ثابتہ اور اس مستحکم درخت کی تعبیر میں حق کے ثبات کی تصویر کشی بھی ہے ، یوں کہ حق کی جڑیں گہری ہوتی ہیں اور وہ آسمان تک بلند شاخیں رکھتا ہے اور نظر بھی آتا ہے کہ وہ بلند ہے۔ حق کھڑا رہتا ہے اور یہ جتلاتا ہے کہ وہ مضبوط اور ٹھوس ہے ، اس کلمہ طیبہ اور شجرۂ طیبہ کے ذریعہ ایک تمثیل دے کر اللہ کیا چاہتا ہے ؟ یثبت اللہ ۔۔۔۔۔ وفی الاخرۃ (14 : 27) “ ایمان والوں کو اللہ اس قول ثابت کی بنیاد پر ، دنیا و آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے ”۔ اور طرح کلمہ خبیثہ کی تمثیل دے کر کہ وہ شجرۂ خبیثہ کی طرح ہے اور اس کے لئے کوئی ثبات وقرار نہیں ہے۔ ویضل اللہ الظلمین (14 : 27) “ اور ظالموں کو بھٹکا دیتا ہے ”۔ چناچہ انداز کلام اور اس سے مراد مفہوم کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ”۔ اللہ اہل ایمان کو اس زندگی میں ثبات وقرار عطا کرتا ہے اور یہاں ان کی بات پختہ ہوتی ہے آخرت میں انہیں مضبوط کرتا ہے ، وہاں ان کا انجام پختہ وہتا ہے کیونکہ ان کے دلوں کی دھرتی پر ایمان پختہ کھڑا ہوتا ہے۔ ان کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے اور اس درخت سے ان کی زندگی سے اعمال صالحہ پھوٹتے رہتے ہیں۔ پے در پے یہ اعمال آتے ہیں۔ یہ درخت قرآن و سنت کی تعلیمات کے ذریعہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے۔ اس کے سامنے امید کی شمع ہوتا ہے ۔ اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا یقین ہوتا ہے ، یہ سب باتیں یا پھل حق ہیں اور ٹھوس ہیں۔ ایک ہی راہ ہے اور ایک ہی طریقہ ہے۔ اور جن لوگوں کے ضمیر کی دھرتی میں یہ درخت کھڑا ہوتا ہے اس سرزمین میں قلق ، بےچینی ، حیرت اور اضطراب نہیں ہوتا۔ ظالموں کو اپنے ظلم اور شرک کی وجہ سے (قرآن میں ظلم کا اطلاق بالعموم شرک پر ہوتا ہے ) نور اور روشنی سے دور کردیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اوہام و خرافات کی تنگ و تاریک وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ یہ ہوائے نفس کی مختلف راہوں پر چلتے ہیں۔ اللہ کی ایک ہی راہ سے محروم ہوتے ہیں ، تو اللہ اپنی سنت جاریہ کے مطابق پھر ان کو مزید گمراہ کرتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے خود ظلم ، تاریکی اور ہوائے نفس کی بندگی کی راہ کو اختیار کیا۔ تو یہ بھٹکتے رہے اور بدی کی راہوں میں ادھر ادھر بھاگتے رہے۔ ویفعل اللہ ما یشاء ( 14 : 27) “ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے ”۔ اس کا ارادہ بےقید ہے ، ٹھیک ہے کہ وہ ایک ناموس فطرت جاری کرتا ہے لیکن وہ خود اپنے ناموس فطرت کا پابند نہیں ہے ۔ البتہ اس کے قانون پر جو چلے وہ اس کو پسند کرتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اپنے جاری کئے ہوئے ناموس فطرت کو بدل بھی دیتا ہے کیونکہ اللہ کو روکنے والی کوئی قوت نہیں ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے ، وہی ہوتا ہے۔ اس تبصرے سے رسولان کرام کے عظیم قصے ، اور کہانی کی بات کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ دعوت اسلامی کی کہانی تھی۔ اس کا پہلا حصہ اس سورة کے آغاز میں ایک بڑے حصے میں پھیلا ہوا تھا۔ یہاں حضرت ابراہیم ابو الانبیاء کی کہانی تھی۔ پھر چند دوسرے انبیاء کی کہانی تھی جس کی شاخیں تاریخ کے اندر دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور یہ کلمہ طیبہ کے درخت کے مالی تھے جو حق کی طرح پھلتا پھولتا تھا۔ یہ کلمہ طیبہ جو یہ سب پیغمبر لے کر آئے یہ شجرۂ طیبہ کی طرح تھا۔ یہ کلمہ توحید تھا ، تمام انبیاء کا شجرۂ طیبہ ایک ہی تھا ، ایک ہی پھل دیتا تھا ، یہ کلمہ توحید تھا اور تمام انبیاء کے ہاں یہ کلمہ ایک رہا اور دعوت بھی ایک ہی رہی۔ یہ تھی اسلام اور جاہلیت کے درمیان طویل کشمکش۔ اس کی طرف ہم نے اس پوری سورة میں جا بجا سر سری اشارات کئے ہیں۔ میں اس بات کو ضروری سمجھتا ہوں کہ ان اشارات پر دوبارہ قدرے غور کیا جائے۔ چناچہ اس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں قافلہ ایمان ایک ہی قافلہ ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے ادھر یہ قافلہ رواں دواں ہے اور رسولان کرام اس قافلے کے قائد ہیں۔ تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی نظریہ و عقیدہ کی طرف تھی۔ ایک آواز انہوں نے بلند کی اور ایک ہی طریق کار پر انہوں نے کام کیا۔ سب کی دعوت یہ تھی کہ الٰہ اور حاکم ایک ہی ہے ، وہی رب ہے ، اور اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ اور رب اور حاکم نہیں ہے ، اور اہل ایمان کو اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔ نہ اللہ کے سوا کسی اور کی پناہ میں آنا چاہئے اور نہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا سہارا سمجھنا چاہئے۔ پس اللہ وحدہ کو ایک سمجھے اور عقیدۂ توحید کی وہ تاریخ جسے آج کل علماء “ تقابل ادیان ” بتلاتے پھرتے ہیں ، کہ پہلے لوگ متعدد الہٰوں کو مانتے تھے۔ پھر دو الہٰوں کو ماننے لگے یعنی “ خیر و شر کے الٰہ ، اس طرح لوگ پہلے شجر وحجر ، سورج ، چاند ، ستاروں اور سیاروں کی پوجا کرتے تھے اور پھر آخر میں انہوں نے الٰہ واحد کی پوجا شروع کردی۔ یوں ان کے نظریات میں ارتقاء ہوا اور انسانیت کا علم و فلسفہ ترقی کرتا رہا۔ اسی طرح ان کی سوسائٹی بھی ترقی کر کے ، ایک بادشاہ کی بادشاہی کے قیام تک جا پہنچی۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جب سے انسانی تاریخ شروع ہوئی ہے تمام رسولوں نے عقیدۂ توحید کی تبلیغ کی ہے۔ تمام رسولوں کی رسالت اور دعوت میں یہی بنیادی عنصر تھا اور اس میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ جس قدر معروف سماوی دین ہیں ، قرآن کریم کے مطابق ان کی دعوت یہی تھی۔ اگر تقابل ادیان کے علماء اپنی بات اس طرح کرتے کہ رسولوں نے جو عقیدۂ توحید آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک بیان کیا۔ اس کے بعد سمجھنے کے لئے انسانوں کے فہم و ادراک میں یوں ارتقاء ہوا کہ رسولان کرام کی مسلسل جدو جہد کی وجہ سے عوام الناس کے اذہان میں یہ روشنی پھیلتی چلی گئی اور آخر میں اس طویل جدو جہد کے لئے زیادہ لوگ اللہ کے دین ، عقیدہ توحید کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوگئے تو ان علماء تقابل ادیان کی بات معقول نظر آتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس منہاج بحث و تحقیق سے متاثر ہیں ، جو یورب میں مروج ہے۔ اس منہاج کی تہ میں دراصل کنیا کے خلاف عداوت دفن ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ دور جدید کے مسلم مفکرین نے بھی اس کا خیال نہیں رکھا۔ بہرحال تقابل ادیان دانستہ و نا دانستہ صحیح اسلامی اور دینی سوچ کے مخالف چلتے ہیں اور یہ انداز ثابت کرتے ہیں کہ ادیان کی بنیاد وحی پر نہیں ہے بلکہ دین بھی دراصل انسانی سوچ کا ارتقاء ہے۔ جس طرح دوسرے انسانی افکار ، فلسفوں اور تجربوں میں ارتقاء ہوتا رہا ہے اسی طرح دینی فکر بھی ارتقاء پذیر رہی ہے۔ غرض اس قدیمی دشمنی اور اس سوچ ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے دور کے ماہرین علماء تقابل ادیان اس طرز پر بات کرتے ہیں اور اپنی اس سوچ اور فکر کو علمی اور تحقیقی سوچ کہتے ہیں۔ اگر کسی اور ملک و ملت کا کوئی فرد اس منہاج سے دھوکہ کھاتا ہے تو کھائے مگر ایک مسلمان اس منہاج سے ایک منٹ کے لئے بھی متاثر نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے حوالے سے ایک صحیح منہاج فکر موجود ہے اور ان کے پاس دین کے حوالے سے ان کے اپنے کچھ طے شدہ اصول ہیں ، اور اپنا منہاج بحث موجود ہے۔ غرض تمام انبیاء انسانیت کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کرتے رہے۔ ایک ہی نظریہ دیتے رہے۔ اور اسی منہاج کے مطابق انہوں نے اپنے اپنے دور میں جاہلیت کا مقابلہ کیا۔ قرآن کریم اس بات کو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ تمام رسول یہ دعوت لے کر آئے ، یہ ایک ہی نظریہ پیش کر کے ، ہر دور میں ایک ہی طرح جاہلیت کا مقابلہ کرتے رہے۔ اور اس معاملے میں قرآن نے زمان و مکان کے حوالے سے کسی ارتقاء کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ اسلام ، اسلام ہے اور جاہلیت ، جاہلیت ہے۔ اسلام ہمیشہ اسلام رہا ہے اور جاہلیت ہمیشہ جاہلیت رہی ہے۔ تاریخ کے کسی دور میں ان کے درمیان کوئی اتحاد نہیں رہا ہے۔ جب اسلام کی بنیاد پر کوئی سوسائٹی بنی ہے ، اس کے ایک ہی مہ و سال رہے ہیں اور جب بھی جاہلیت کی اساس پر کوئی اکٹھ ہوا ہے وہ بھی ایک جیسا رہا ہے۔ مثلاً جاہلیت کی پہلی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں انسان ، انسان کا غلام ہوتا ہے اور اس میں حاکم اللہ نہیں ہوتا بلکہ کوئی اور ہوتا ہے۔ پرورش کرنے والا بھی اور ہوتا ہے ، چاہے کوئی متعدد الہٰوں کا قائل ہو یا اللہ ایک سمجھتا ہو مگر رب اور حاکم متعدد ہوں تو بھی یہ سوسائٹی ایک جاہلی سوسائٹی ہوگی اور اس سوسائٹی میں جاہلیت کے تمام اوصاف و علامات موجود ہوں گی۔ رسولوں کی دعوت کی بنیا یہ رہی ہے کہ اللہ کو ایک سمجھاجائے اور تمام جھوٹے خداؤں کا انکار کردیا جائے۔ دین صرف اللہ کا ہو ، صرف اللہ کے دین و شریعت کی اطاعت ہو اور صرف اللہ کو حاکم اور قانون ساز تصور کیا جائے۔ یہ نظریہ براہ راست اس نظریہ کی ضد ہے جو جاہلیت کی اساس رہا ہے۔ جونہی کوئی شخص یہ اعلان کرتا ہے کہ حاکم بھی اللہ ہوگا ، قانون بھی اللہ کا ہوگا تو ہر جاہلیت اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے ، خصوصاً جب لوگ اس نظریہ کے گرد جمع ہو کر ایک جماعتی زندگی اختیار کرلیں اور خصوصاً یہ افراد جاہلیت سے چھٹ چھٹ کر آرہے ہوں اور ایک اکٹھ اختیار کر رہے ہوں ، ایسی صورت میں نظریہ جاہلیہ اور حاکم جاہلیت ایسے افراد کے اجتماع کو اپنے خلاف ایک بغاوت سمجھتے ہیں۔ پھر ہر جاہلی حکومت یہ خیال کرتی ہے کہ ان لوگوں کا عقیدہ مشکوک ہے۔ حالانکہ یہ امور ایسے ہیں کہ ہر دور میں یہ تحریک اسلامی کے لئے لابدی ہیں کہ وہ اپنے نظریات کا کھل کر اعلان کرے۔ پھر ان کی اساس پر جمعیت تشکیل دے اور پھر یہ لوگ مل کر کام کریں۔ ہر دور میں یہ طریق کار ضروری ہے۔ ہر دور میں نظام جاہلیت کا ایک نظام ہوتا ہے اور اس کی عضویاتی تشکیل ہوتی ہے۔ جب وہ نظام دیکھتا ہے کہ اس کے مقابلے میں ایک متضاد نظریاتی نظام آگیا ہے اور ایک نئی سوسائٹی بھی بن رہی ہے جو ان کی سوسائٹی کے بالکل متضاد عضویاتی تشکیل اور نظام رکھتی ہے۔ کیونکہ جاہلی سوسائٹی کی تہ میں متعدد الہٰوں کا نظریہ ہوتا ہے۔ حاکم اس میں متعدد ہوتے ہیں اور اس میں انسان انسانوں کے غلام اور تابع ہوتے ہیں جبکہ اسلامی سوسائٹی میں ایک الٰہ اور حاکم کا نظریہ ہوتا ہے اور اس میں تمام لوگ اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا بندہ نہیں ہوتا تو پھر جاہلی سوسائٹی اس نئی سوسائٹی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ خطرے میں اضافہ اس بات سے بھی ہوجاتا ہے کہ یہ نو تشکیل شدہ اسلامی سوسائٹی روز بروز جاہلی سوسائٹی کے جسم کو کھاتی چلی جاتی ہے۔ ابتداء میں جب اسلامی سوسائٹی بنتی ہے تو خطرہ کم ہوتا ہے لیکن جب وہ جاہلیت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنی غلامی سے نکالو اور تم سب اللہ کی غلامی میں داخل ہوجاؤ۔ چونکہ آغاز رسل سے یہی طریق کار رہا ہے ، دعوت اسلامی اور تحریک اسلامی کا اس لیے آغاز ہی سے ہر دور میں جاہلیت نے اسلامی تحریک کو اپنے وجود کے خلاف چیلنج سمجھا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے اور قدرتی معلوم ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح کوئی قائم وجود کسی حملہ آور کے مقابلے میں اپنی حفاظت کرتا ہے اور جس طرح ہر وہ شخص اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے جس نے عوام سے حاکمیت غصب کی ہوئی ہوتی ہے۔ جب جاہلیت محسوس کرتی ہے کہ تحریک اسلامی اس کے وجود کے لئے خطرہ بن گئی ہے تو وہ بھی اس مقابلے کو موت وحیات کا مسئلہ سمجھتی رہی ہے۔ جاہلیت نے تحریک اسلامی کے ساتھ کبھی بھی نرمی ، مصالحت اور امن و سلامتی کے اصول کو نہیں اپنایا۔ کبھی بھی اس معرکے میں جاہلیت نے اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دیا۔ نہ رسولان کرام نے اس معرکے میں کبھی اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے۔ نہ ان کے بعد کسی مومن داعی نے اس سلسلے میں اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے۔ جاہلیت کا اعلان یہ رہا ہے۔ وقال الذین ۔۔۔۔۔ فی ملتنا (14 : 13) “ اور کفار نے ہمیشہ ان کے پاس آنے والے رسولوں کو یہ کہا کہ تو ہم اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تمہیں واپس ہماری ملت اور دائرہ اقتدار میں آنا ہوگا ”۔ یہ لوگ رسولوں اور مومنوں کا علیحدہ وجود تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے کہ ان کا اپنا کوئی نظریہ ہو یا اپنی کوئی جماعت ہو۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ واپس ہماری پارٹی میں آجاؤ یا جلاوطن ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ واپس آجاؤ، ہماری سوسائٹی میں مدغم نہ ہوجاؤ، پگھل جاؤ اور اپنی علیحدہ سوسائٹی اور اجتماعیت مت بناؤ۔ لیکن رسولان کرام نے بھی اس بات کو کبھی قبول نہیں کیا کہ وہ ملت جاہلیہ میں پگھل جائیں اور مدغم ہوجائیں۔ اپنا وجود ختم کردیں اور اپنی شخصیت کو ختم کردیں۔ اس لیے کہ ان کی سوسائٹی بالکل ایک نئے نظریہ ، نئے آئین و دستور منشور پر قائم ہوتی ہے جو جاہلیت کے نظریہ اور دستور ومنشور سے متضاد ہوتا ہے۔ رسولوں نے اس طرح کا جواب بھی نہیں دیا اور عمل بھی نہیں کیا جو ہمارے دور کے بعض جاہل لوگ کہتے ہیں کہ جاہلی سوسائٹی میں مدغم ہوجاؤ اور اندر اندر سے کام کرد ، اندر جا کر اپنے عقیدے کو پھیلاؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی جاہلی معاشرے میں اہل دعوت ایک نیا اسلامی نظریہ لے کر اٹھتے ہیں تو اس نظریہ کی اساس پر خود بخود ان کی سوسائٹی ، ان کی قیادت اور ان کی وفاداریاں الگ ہوجاتی ہیں ۔ یہ فطری بات ہے اس میں کسی کے ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔ کسی بھی سوسائٹی کی تشکیل کے لئے فطری انداز ہے جو طبعی ہے اور لازمی ہے۔ اس عمل سے اگر کسی جاہلی سوسائٹی کے اندر رد عمل ہوتا ہے کہ لوگوں کو صرف ایک خدا کی بندگی ، حاکمیت اور قانون اور دستور و منشور پر جمع کیا جا رہا ہے تو یہ رد عمل بھی طبیعی ہوتا ہے۔ اس جاہلی نظام کے تمام کل پرزے پھر اسلام کے خلاف کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس جاہلی سوسائٹی کا کل پرزہ بنتا ہے تو یہ دراصل اس جاہلی سوسائٹی کا خادم ہوگا ، اسلام کا نہ ہوگا جس طرح بعض احمق یہ سمجھتے ہیں کہ جاہلیت کا پرزہ بن کر اسلام کی خدمت کرو۔ اس کے بعد وہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ جو کسی بھی دعوت کے لئے مقدر ہے ، اور جو شخص دعوت اسلامی کا کام کرتا ہے خواہ کسی زمان و مکان میں ہو ، وہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ جو نصرت کا وعدہ فرمایا ہے ضرور یہ کہا ہے کہ میری نصرت آئے گی اور انہیں زمین میں اقتدار ملے گا تو یہ وعدہ اس وقت تک حقیقت کا روپ اختیار نہ کرے گا جب تک وہ کسی جاہلی سوسائٹی سے ممتاز ہو کر علیحدہ نہ ہوجائیں ، اور وہ اس دعوت کی بنیاد پر اپنی قوم سے الگ ہو کر اپنی سوسائٹی اور اپنی جمعیت تشکیل نہ دے لیں۔ اگر وہ کسی جاہلی سوسائٹی کا ہی حصہ رہیں “ اس میں چلیں پھریں ، اسی کے کل پرزے ہوں ، تو اگرچہ وہ اسلام کے نظریہ حیات پر یقین رکھتے ہوں ، اس کے لئے کام کرتے ہو ، اللہ کی اس نصرت اور وعدے میں تاخیر ہوجائے گی۔ یہ وہ لازمی ، عظیم اور بنیادی شرط ہے جس پر دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں نے مکمل عمل کرنا ہے۔ اس بات کو انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ آخر میں ایک پہلو دوسرا بھی قابل غور ہے ، قرآن کریم رسولان کرام کے اس قافلے کو کس خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ قافلہ پوری انسانی تاریخ میں جاہلیت کا نہایت ہی خوبصورتی اور ثابت قدمی سے مقابلے کرتا چلا آرہا ہے۔ یہ بیان اس لیے خوبصورت ہے کہ اس قافلے کے مسافر جس حق کے حامل ہیں وہ نہایت ہی سادہ ، فطری اور خوبصورت ہے۔ یہ مسافر مطمئن ہیں ، سنجیدہ اور اپنی راہ پر ۔۔۔۔ ہوئے چلے آرہے ہیں۔ قالت لھم رسلھم ۔۔۔۔۔۔ فلیتوکل المومنون (14 : 11) “ ان کے رسولوں نے ان سے کہا “ واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ، نوازتا ہے ”۔ اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لا دیں ۔ سند تو اللہ ہی کے اذن سے ہو سکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہئے ”۔ آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی یہ خوبصورتی ، اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ یہ ایک متحدہ قافلہ ہے جو ہر زمان و مکان میں ، متحدہ جاہلیت کا مقابلہ کرتا چلا آیا ہے ، ہر دور میں اور ہر قوم میں۔ پھر یہ خوبصورتی ایک دوسرے پہلو سے بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ اس دعوت اور اس حق کا جس کے یہ رسولان کرام حامل ہیں ، اور اس حق کا جو اس کائنات میں پوشیدہ باہم گہرا رابطہ ہے کیونکہ رسول یہ کہتے ہیں۔ افی اللہ شک فاطر السموت والارض (14 : 10) “ کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے ” ۔ اور دوسری آیت میں ہے۔ وما لنا ۔۔۔۔۔۔ ھدنا سبلنا (14 : 12) “ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟” اور دوسری جگہ ہے۔ الم تر ان اللہ خلق السموت ۔۔۔۔۔۔۔ بخلق جدید (19) وما ذلک علی اللہ بعزیز (20) (14 : 19- 20) “ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے ؟ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ ایسا کرنا اس پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے ”۔ اس طرح اس کائناتی سچائی اور دعوت اسلامی کی سچائی کے درمیان گہرا رابطہ قائم ہوتا ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذات باری جو برحق ہے وہ ان دونوں سچائیوں کا سرچشمہ ہے اور یہ سچائیاں گہری مستحکم اور دور تک اس کائنات میں جڑیں رکھتی ہیں۔ کشجرۃ خبیثۃ ۔۔۔۔۔۔۔ من قرار (14 : 26) “ جس طرح ایک خبیث درخت ہوتا ہے جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور اسے زمین پر قرار نصیب نہیں ہوتا ”۔
Top